۱۔ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی تقاریر اور بیانات سے چند اقتباسات
’’تاریخی طور پر اسلام کے اندر سے اٹھنے والا ہر وہ مذہبی گروہ جس کی بنیاد ایک نئی نبوت کے دعوے پر رکھی گئی ہو
’’تاریخی طور پر اسلام کے اندر سے اٹھنے والا ہر وہ مذہبی گروہ جس کی بنیاد ایک نئی نبوت کے دعوے پر رکھی گئی ہو
(۱) ’’بنیادی اصولوںکی رپور ٹ میں علمائکی طرف سے پیش کردہ ترامیم ‘‘پاکستان کے مختلف مکاتیب فکر کی نمائندگی کرنے والے تینتیس نامور علمائ دستور
۱۶۔’’اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے صاف حکم دیا کہ غیر احمدیوں کے ساتھ ہمارے کوئی تعلقات ان کی غمی اور شادی کے معاملات
۵۔ ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا ، وہ خدااور رسول کی
۱۔ ’’یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لیے محدث ہو کر آیاہے او رمحدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتاہے۔
اس امر میں بھی مرزا صاحب کاموقف مختلف رہا ہے کہ جو لوگ ان کو نہ مانیں ان کی پوزیشن کیاہے۔ اس سلسلے میں مختلف
مرزاصاحب نے خودیہ اصول بھی بصراحت بیان کیاہے کہ ایک نبی ایک امت وجودمیںلاتاہے اورپھرانھوںنے خودہی اپنی جماعت کوامت کہابھی ہے۔اس کے ثبوت میںچندعبارات درج
۶۔’’اوریہی عیسیٰ ہے جس کاانتظارتھا‘اورالہامی عبارتوںمیںمریم اورعیسیٰ سے میںہی مرادہوں۔میری نسبت ہی کہاگیاکہ ہم اس کونشان بنادیںگے اورنیزکہاگیاکہ یہ وہی عیسیٰ ابن مریم ہے جوآنے
۱۔’’اس عاجزنے جومثیل موعودہونے کادعویٰ کیاہے‘جس کوکم فہم لوگ مسیح موعودخیال کربیٹھے ہیں‘یہ کوئی نیادعویٰ نہیںہے جوآج ہی میرے منہ سے سناگیا ہو… میںنے یہ
مسیح علیہ السلام اوران کی آمدثانی اورخوداپنے مسیح موعودہونے کے باب میں مرزاصاحب کاموقف مختلف مراحل میںمختلف رہاہے۔اس کانقشہ ذیل میںملاحظہ ہو۔
۹۔’’یہ کس قدرلغواورباطل عقیدہ ہے کہ ایساخیال کیاجائے کہ بعدآنحضورؐکے وحی الٰہی کادروازہ ہمیشہ کے لیے بندہوگیااورآئندہ کوقیامت تک اس کی کوئی بھی امیدنہیں۔ صرف
۶۔’’ہم بھی نبوت کے مدعی پرلعنت بھیجتے ہیںاورلاالہ الاّاللہ محمدرسول اللہ کے قائل ہیں اورآنحضرتؐ کی ختم نبوت پرایمان رکھتے ہیںاوروحی نبوت نہیںبلکہ وحی ولایت
۱۔’’اگرہم اپنے نبیؐ کے بعدکسی نبی کاظہورجائزقراردیںتوگویاہم باب وحی بندہو جانے کے بعداس کاکھلناجائزقراردیںگے اوریہ صحیح نہیں‘جیساکہ مسلمانوں پر ظاہر ہے۔ اورہمارے رسول اللہ ؐکے
(۱۱)ختم نبوت کی طرح وحی اورنزول جبرئیل کے متعلق مرزاصاحب کاموقف مختلف مراحل میںپیہم بدلتارہاہے جس کی کیفیت ذیل میںدرج کی جاتی ہے۔
۶۔’’میںظلی طورمحمدؐہوں‘پس اس طورسے خاتم النبیین کی مہر نہیںٹوٹی کیونکہ محمدؐکی نبوت محمد تک ہی محدودرہی ‘یعنی بہرحال محمدؐہی نبی رہانہ اورکوئی۔یعنی جب کہ میںبروزی
۵۔ ’’خدا نے ایسا کیاکہ اپنی حکمت اور لطف سے آپ کے (یعنی محمدؐ کے) بعد تیرہ سو برس تک اس لفظ (یعنی نبوت )
۳۔ ’’اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا ، یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو
۱۔ ’’اگر ایک امتی کو ، جو محض پیروی آنحضرت ؐ سے درجہ وحی اور الہام اور نبوت کا پاتاہے ، نبی کے نام کااعزاز
(۱۰) ان مختلف دعوئوں کو نبھانے کے لیے مرزا صاحب نے اور ان کی جماعت نے مختلف مواقع پر ختم نبوت کی جو مختلف تاویلیں
(۱) اس امت میں نبی کانام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں۔ (حقیقۃ الوحی
’’دنیامیںکوئی نبی نہیںگزراجس کانام مجھے نہیںدیاگیا۔سوجیساکہ براہین احمدیہ میں خدانے فرمایاہے میںآدم ہوں‘میںنوح ہوں‘میںابراہیم ہوں‘میںاسحاق ہوں‘ میں یعقوب ہوں‘میںاسماعیل ہوں‘میںموسیٰ ہوں‘میںدائودہوں‘میںعیسیٰ ابن مریم ہوں‘ میں
’’میںبموجب آیت واخرین منھم لمایلحقوابھم بروزی طورپروہی خاتم الانبیا ہوںاورخدانے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میںمیرانام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے
’’جس طرح حقیقی اورمستقل نبوتیں،نبوت کی اقسام ہیںاسی طرح ظلی اوربروزی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے…مسیح موعودکاظلی نبی ہونامسیح موعودسے نبوت کونہیں چھینتابلکہ
’’یہ بھی توسمجھوکہ شریعت کیاچیزہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چندامرونہی بیان کیے اوراپنی امت کے لیے ایک قانون مقررکیاوہی صاحب شریعت ہوگیا…
’’اب بجزمحمدی نبوت کے سب نبوتیںبندہیں۔شریعت والانبی کوئی نہیںآسکتااور بغیرشریعت کے نبی ہونہیںسکتامگروہی جوپہلے سے امتی ہے‘پس اس بناپرمیںامتی بھی ہوں اورنبی بھی۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ‘مرزاغلام
’’بعدمیںخداکی وحی بارش کی طرح میرے پرنازل ہوئی۔اس نے مجھے اس عقیدے پرقائم نہ رہنے دیااورصریح طورپرنبی کاخطاب مجھے دیاگیا۔مگراس طرح سے کہ ایک پہلوسے
۶۔پھرمرزاصاحب نے نبوت کادعویٰ کیااوراس دعوے کی بھی ایک شکل نہ تھی بلکہ مختلف مواقع پرمتعددشکلیں تھیں۔
(۸) مرزا صاحب کی جن تحریرات سے مسلمانوں کے دلوں میں یہ شبہ پیداہواتھا کہ وہ نبوت کے مدعی ہیں یا دعویٰ کرنے والے ہیں
(۷) ختم نبوت کے متعلق مرزا صاحب کا ابتدائی عقیدہ وہی تھا جو تمام مسلمانوں کاہے ، یعنی یہ کہ محمدﷺ پر نبوت ختم ہوگئی
(۱) ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۸ء : اس دور میں مرزا صاحب محض ایک مبلغ اسلام اور غیر مسلم حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت
(مرزا غلام احمد صاحب کی تحریک کے مختلف مراحل ، ان میں مرزا صاحب کے مختلف دعوے اور قادیانی عقیدہ وعمل پر ان دعوئوں کے
وکونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامتہ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر۔(روح المعانی جلد
اذا لم یعرف الرجل ان محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم اخر الانبیاء فلیس بمسلم ولو قال انا رسول اللّٰہ اوقال بالفارسیتہ من پیغمبرم یریدبہ من پیغمبرم
وقال اھل السنۃ والجماعت لانبی بعد نبینا لقولہ تعالیٰ ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین وقولہ علیہ السلام لانبی بعدی ومن قال بعد نبینانبی یکفر
ودعویٰ النبوۃ بعد نبیناصلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالاجماع۔(شرح فقہ اکبر، ص ۲۰۲)اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے باجماع
اذالم یعرف ان محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخرالانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات (الاشباہ والنظائر، کتاب السیر،باب الردۃ) (ص ۱۷۹)اگر آدمی یہ نہ سمجھے
ان کل من ادعی ھذاالمقام بعدہ فھوکذاب افاک دجال ضال مضل۔(تفسیر القرآن جلد ۳ ، ص ۴۹۴)ہر وہ شخص جو نبی اکرم ﷺ کے بعد
وکذالک من قال …او ان بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا غیرعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فانہ لایختلف اثنان فی تکفیرہ(الملل والنحل،جلد۳ ، ص
ومن ادعی النبوۃ لنفسہ اوجوز اکتسابھاوالبلوغ بصفاء القلب الٰی مرتبتھاکالفلاسفۃ وغلاۃ والمتصوفۃ وکذٰلک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لمیدعی النبوۃ…فھولاء کلھم کفار مکذبون
ان الامۃ فھمت بالاجماع من ھذا اللفظ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا اوعدم رسول بعدہ ابداوانہ لیس فی تاویل ولاتخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلامہ
وان الوحی قد انقطع مذمات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، برھان ذٰلک ان الوحی لا یکون الا الی نبی وقد قال عزوجل ماکان محمد ابا
وتنبارجل فی زمن ابی حنیفۃ وقال امھلونی حتیٰ اجی بالعلامات فقال ابوحنیفۃ من طلب منہ علامۃ فقد کفر لقولہ علیہ السلام لانبی بعدی۔ روح البیان
عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور مدعی نبوت کی تکفیر کے باب میں علما اُمت کے اقوال
صاحب تفسیر ’’روح المعانی ‘‘ متوفی ۱۲۷۰ھ/۱۸۵۳ءوالمراد بالنبی ماھواعم من الرسول فیلزم من کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین کونہ خاتم المرسلین والمراد یکون
قراء الجمہور خاتم بکسر التاء وقراء عاصم بفتح تاومعنی القراۃ الاولیٰ انہ ختمھم ای جاء اخرھم ومعنی القراۃ الثانیۃ انہ صار کالخاتم لھم الذی یختمون
وخاتم النبیین‘قراء عاصم بفتح التاء وھوآلۃ الختم بمعنی مایختم بہ کا لطابع بمعنی مایطبع بہ والمعنی وکان اخرھم الذی ختموابہ وبالفا ر سیۃ مہرپیغمبراں‘یعنی بدومہرکردہ
وکان اللّٰہ بکل شئی علیماای علیما بان لانبی بعدہ واذانزل عیسیٰ یحکم بشریعتہ۔ (ص ۷۶۸)یعنی اللہ اس بات کوجانتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
فھٰذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ واذاکان لانبی بعدہ فلارسول بالطریق الاولیٰ والاخریٰ لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی
وخاتم النبیین‘ختم اللّٰہ بہ النبوۃ فلانبوۃ بعدہ ولامعہ…وکان اللّٰہ بکل شی ئٍ علیما‘ای دخل فی علمہ ان لانبی بعدہ۔ (ص ۴۷۱۔۴۷۲)وخاتم النبیین‘یعنی اللہ نے آپﷺ
صاحب’’مدارک التنزیل‘‘ متوفی ۷۱۰ھ /۱۳۱۰ء۔وخاتم النبیین…ای اخرھم‘یعنی لاینباء احدبعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ وحین ینزل عاملاًعلیٰ شریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم کانہ بعض امتہ۔(ص۴۷۱)وخاتم النبیین
ای اخرھم الذی ختمھم اوختموا۔ولایقدح فیہ نزول عیسیٰ بعدہ لانہ اذانزل کان علی دینہ۔ (جلد۴‘صفحہ۱۶۴)یعنی آپ انبیا میںسب سے آخری ہیںجس نے ان پرمہرکردی یاجس
وخاتم النبیین وذٰلک لان النبی الذی یکون بعدہ نبی ان ترک شیئًا من النصیحۃ والبیان یستدرکہ من یاتی بعدہ وامامن لانبی بعدہ یکون اشفق علیٰ
تفسیرکشاف۴۶۷ھ/۱۰۷۵ء۔۵۳۸ھ/۱۱۴۴ءفان قلت کیف کان اخرالانبیاء وعیسیٰ ینزل فی اخرالزمان قلت معنیٰ کونہ اخرالانبیاء انہ لاینبااحدبعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ وحین ینزل ینزل عاملاعلی شریعۃ محمدمصلیاالیٰ
ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیھافلا تفتح لا حدبعدہ‘الی قیام الساعۃ…واختلفت القراء فی قراۃ قولہ وخاتم النبیین فقراذٰلک قراء الامصارسوی الحسن
(آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین کی تفسیرمیںتیسری صدی ہجری سے تیرھویںصدی ہجری تک کے تمام اکابرمفسرین کے اقوال)
(۱) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء کلماھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفائ۔(بخاری‘کتاب المناقب ‘باب ماذکرعن بنی اسرائیل)نبی
ثم انہ علیہ السلام حین ینزل باق علیٰ نبوت السابقۃ لم یعزل عنھابحال لکنہ لایتعبدبھالنسخھافی حقہ وحق غیرہ وتکلیفہ باحکام ھذہ الشریعۃ اصلاوفرعافلایکون الیہ علیہ
وقدثبت فی الاحادیث الصحیحۃ ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی اخرالزمان…ویحکم بین العبادبالشریعۃ المحمدیۃ۔ (فتح القدیر)احادیث صحیحہ میںثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آخرزمانے میںنازل
وعیسیٰ اذانزل یحکم بشرعہ…وارادۃ اللّٰہ ان لا ینسخ شریعتہ بل من شرفہ نسخھالجمیع الشرائع ولھذااذاانزل عیسیٰ انمایحکم بھا۔(شرح مواہب اللدنیہ جلد۳،ص۱۱۶)اورعیسیٰ علیہ السلام جب نازل
بتحقیق ثابت شدہ است باحادیث صحیحہ کہ عیسیٰ فرودمی آیدومی باشدتابع دین محمدوحکم می کند‘بشریعت آنحضرتﷺ۔ (اشعتہ اللمعات شرح مشکوۃ جلد۴۔صفحہ۳۷۳)احادیث صحیحہ سے بتحقیق ثابت
الذی نص علیہ العلماء بل اجمعواعلیہ انہ یحکم بشریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی ملتہ…وفی حدیث۔ابن عساکرالاان ابن مریم لیس بینی وبینہ نبی ولارسول الاانہ
خاتم النبیین ای‘اخرھم الذی ختمھم اوختموابہ ولایقدح فیہ نزول عیسیٰ بعدہ لانہ اذاانزل یکون علی دینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع ان المرادانہ اخرمن نبی۔
وفی کتاب الفتن لابی نعیم ’’ینزل ابن مریم فیجدخلیفتھم یصلی بھم فیتاخرفیقول للخلیفتہ صل فقدرضی اللّٰہ عنک فانی انمابعثت وزیر ولم ابعث امیرا…لاینزل بشریعۃ متجددۃ
ن قلت قدصح ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی آخرالزمان بعدہ وہو نبی‘قلت انی عیسیٰ علیہ السلام ممن نبی قبلہ وحین ینزل فی اخر الزمان
ینزل عیسیٰ ابن مریم حکماای حاکمابھذہ الشریعۃ ولاینزل برسالۃ مستقلۃ وشریعۃ ناسخۃ بل ہوحاکم بن حکام ھذا الامتہ۔(شرح مسلم جلد۲‘ص۱۸۹)عیسیٰ ابن مریم حکم بن کرنازل
قال بعض المتکلمین انہ لا یمنع نزولہ من السماء الی الدنیا‘الاانہ انماینزل عنہ ارتفاع التکالیف اوبحیث لایعرف‘ اذلونزل مع بقاء التکلیف علی وجہ یعرف انہ
لایقدح فی کونہ خاتم الانبیاء والمرسلین نزول عیسیٰ بعدہ لانہ یکون علی دینہ مع ان المرادانہ اخرمن نبی (المحلی،جلد۵،ص:۲۶۷)نبی اکرم ﷺکے خاتم الانبیا والمرسلین ہونے
فقہا،محدثین اورمفسرین کی تصریحات اس باب میںکہ عیسیٰ علیہ السلام کادوبارہ نزول نبی ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگابلکہ وہ محمدﷺ کے پیروکی حیثیت سے
(۹) لولم یبق من الدنیا الا یوم لیبعث اللّٰہ عزوجل رجلامنا یملاھاعدلا کما ملئت جورا۔ (مسنداحمد،بسلسلہ روایت علی ؓ)ترجمہ: اگر دنیا کے ختم ہونے میں
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذارایتم الرایات السود قد جائت من قبل خراسان فاتوھافان فیھاخلیفۃ اللہ المھدی۔(مسنداحمد‘بسلسلہ مرویات ثوبان بیہقی ‘دلائل النبوۃ۔اسی
اس باب میںدوقسم کی احادیث ہیں۔ایک وہ جن میںمہدی کاذکرلفظ ’’مہدی‘‘ کی صراحت کے ساتھ کیاگیاہے۔دوسری وہ جن میںلفظ مہدی استعمال کیے بغیرایک خلیفہ عادل
عن سفینۃ مولٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ اللّٰہ تعالیٰ عندعقبۃ افیق۔(مسنداحمد‘مرویات سفینہ)ترجمہ:رسول اللہ ﷺکے آزادکردہ
(۱۶) عن سمرۃ بن جندب عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی حدیث طویل)فیصبح فیھم عیسٰی ابن مریم فیھزمہ اللّٰہ وجنودہ حتیٰ ان اجزم الحائط
(۱۵)سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول…وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عنہ صلوۃ الفجرفیقول لہ امیرھم یاروح اللّٰہ تقدم‘صل‘ فیقول ھذہ الامۃ لامراء بعضھم علی
(۱۴) عن ابی امامۃ الباھلی (فی حدیث من ذکرالدجال)فبینماامامھم قدتقدم یصلی بھم الصبح اذنزل علیہم عیسیٰ ابن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی قہقری لیقدم
(۱۳) سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد۔(امام احمدنے مسندمیںیہ حدیث چارطریقوں(یعنی چارسندوں)سے روایت کی ہے۔نیزترمذی نے بھی اسے نقل
(۱۲)عن ثوبان مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عصابتان من امتی احزرھمااللّٰہ تعالیٰ من النار‘عصابۃ تغزواالھند‘وعصابۃ تکون مع
(۱۱) عن حذیفۃ بن اسیدالغفاری قال اطلع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علینا ونحن نتذاکر فقال ماتزکرون قالوانذکر الساعتہ قال انھا لن تقوم حتیٰ ترون
(۱۰) عن عبداللّٰہ ابن عمرو قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لاادری اربعین یوما او اربعین شہرا
(۹) عن نواس بن سمعان (فی قصۃ الدجال) فبینماھوکذالک اذ بعث اللّٰہ المسیح ابن مریم فینزل عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھروذتین واضعا کفیہ علی
(۶)عن جابر بن عبداللّٰہ قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ… فینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فیقول امیرھم تعال فصل فیقول لاان بعضکم علی بعض امراء
(۱) عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب
’’ہمیں خبر ملی کہ ۹۰ ہزار آدمیوں کا ایک جلوس اب قبرستان کی طرف ان لوگوں کی لاشیں لے کر جارہاہے جن کو وہ شہید
’’مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے صورت حال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ کوئی سیاسی لیڈر یہ کہنے کی طاقت نہ
’’یہ بات اکثر لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کوئی گورنمنٹ، خواہ وہ کسی پارٹی کی ہو ، ان سفارشات (یعنی مطالبات ) کو نہیں مان
’’مگر اس تحریک سے محض امن و انتظام (law and order)کے دائرہ عمل میں عہدہ برا ہونے کی کوشش کرکے اس کو فنا کردینا نہ
’’صوبہ کی حکومت نے اس ایجی ٹیشن کامقابلہ کرنے کے لیے کوئی نظریاتی (ideological)کوشش نہیں کی۔ ‘‘’’حکومت پنجاب نے اس نظریاتی موقف (ideological stand)کے متعلق
’’پاکستان بھر میں میرے سوا مسلم لیگ کے کسی سیاسی کارکن نے یہ ہمت نہ کی کہ پبلک میں نکل کر آتا اور ان مطالبات
’’مرکزی حکومت نے مارشل لا کے اعلان سے پہلے ۱۹۵۳ء میں ان مطالبات کے متعلق کوئی اعلان شائع نہیں کیا۔ ‘‘’’میں نے کبھی مطالبات کو
’’اس ملک کی پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ سیکریٹریٹ کے کلرک دفتروں سے باہر نکل آئیں اور مظاہرہ کریں اور چیف سیکرٹری ،
’’اگر برسراقتدار حکومت ان مطالبات کو رد کرنے کا فیصلہ صادر کردے تو مسلمانوں کی اکثریت اس کی مخالف ہوجائے۔ اس صورت حال کے پیش
’’سیکریٹریٹ تک نے ہڑتال کردی ۔ ‘‘’’۹۰ہزار آدمیوں کا جلوس ان لوگوں کاجنازہ لے کر چلا جنھیں وہ شہید کہتے تھے۔‘‘
’’مطالبات بجا طور پر یابے جاطور پر ،ایک ایسے عقیدے پر مبنی تھے جس کی پشت پر پبلک کی عام تائید تھی ۔ ‘‘’’میں مسلم
’’تقریباً ‘‘ تمام علما ان مطالبات کے حق میں متفق تھے ، اگرچہ وہ اس امر میں متفق نہ تھے کہ الٹی میٹم دینا یاڈائریکٹ
(۱۷)آٹھویںنکتے کومحترم عدالت نے جن الفاظ میںبیان فرمایاہے اس سے یہ بات واضح نہیںہوتی کہ آیاڈائریکٹ ایکشن کے جوازوعدم جوازپراصولی حیثیت سے بحث مطلوب ہے
(۱۶)نکتہ ہفتم متعددسوالات پرمشتمل ہے جن پرہم الگ الگ بحث کریںگے۔۱۔یہ امرکہ ایک اسلامی ریاست میںغیرمسلم کلیدی مناسب پرفائزنہیںہوسکتا‘ قرآن کی صریح ہدایات پرمبنی ہے۔قرآن
(۱۴)ختم نبوت کی یہ تعبیرکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی اورکسی نوعیت کانبی نہیںآسکتا، اوریہ کہ آپﷺ آخری نبی ہیںجن کے بعدنبوت ورسالت
(۱۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی مختلف طریقوںسے آتی تھی۔اس کی تفصیل علامہ ابن قیم نے زادالمعادمیںاس طرح کی ہے:۱۔سچاخواب، یہ نبی صلی اللہ
(۱۲)قرآن اورسنت کے کسی حکم کومنسوخ کرنا‘یاکسی حکم میںردوبدل کرناعیسیٰ ابن مریم اورمہدی‘دونوںکے اختیارات سے قطعاًخارج ہے۔ ضمیمہ۱‘۲‘۳‘ میںجواحادیث اور اقوال علما جمع کیے گئے
(۱۱)جہاںتک حضرت مسیح کے نزول کاتعلق ہے‘علمائے اسلام یہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ نزول نبی کی حیثیت میںنہیںہوگا(ملاحظہ ہوضمیمہ ۳)۔بلکہ شرح عقائد نسفی‘ تفسیر
(۱۰)یہ بات کہ مسیح موعودجن کے آنے کی مسلمان توقع رکھتے ہیںعیسیٰ ابن مریم ہی ہیں‘ان تمام روایات سے جوضمیمہ نمبر۱میں، اوران تمام اقوال علما
(۶)’’مہدی‘‘کے مسئلے کی نوعیت نزول مسیح کے مسئلے سے بہت مختلف ہے۔اس مسئلے میںدوقسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ایک وہ جن میںلفظ ’’مہدی‘‘کی تصریح ہے۔دوسری
(۱) مسیح علیہ السلام کانزول ثانی مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس کی بنیادقرآن، حدیث اور اجماع اُمت پر ہے۔ قرآن
تحقیقاتی عدالت نے اپنی تفتیش کے دوران میںتحقیقاتی کارروائی میںشامل ہونے والے جملہ فریقوںکونوٹس دیاتھاکہ وہ بحث میںعلاوہ دیگرامورکے مندرجہ ذیل دس نکات کے بارے
(ز)مگراس تباہی وہلاکت کی روک تھام کاسخت خواہش مندہونے کے باوجودمیں ایسابھی کوئی قدم اٹھانامناسب نہیںسمجھتاتھاجس سے مسلمانوںمیںاختلاف برپاہوجائے اوراس سے فائدہ اٹھاکرقادیانیوںاورحکومت کاگٹھ جوڑمسلمانوںکے
(و)دوسری طرف میںیہ بھی جانتاتھاکہ ملک کی حکومت اس وقت ایسے لوگوںکے ہاتھ میںہے جوکم حوصلہ بھی ہیںاورپبلک تائیدسے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی
(د)میرے نزدیک آل مسلم پارٹیزکنونشن میںجب راست اقدام یاڈائریکٹ ایکشن کی تجویزپیش کی گئی، اس وقت ان شرائط میںسے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوئی
(ج)میرے نزدیک اس طرح کااقدام قطعی حرام نہیںہے‘مگریہ ایسامباح بھی نہیں ہے کہ جب حکومت کسی مطالبے کوردکردے تواسے منوانے کے لیے یہ قدم اٹھا
۲۸۔اب میںاس امرکی وضاحت کرناچاہتاہوںکہ ڈائریکٹ ایکشن سے میرے اختلاف کے وجوہ کیاتھے ۔اس طریق کارسے میرااختلاف اصولی بھی تھااورعملی پہلوسے بھی تھا۔میںیہاںعلی الترتیب دونوںپہلوئوںسے
۲۸۔میری۳۰/جنوری ۱۹۵۳ء کی اس تقریر کابھی باربارذکرکیاگیاہے جومیںنے موچی دروازے کے جلسے میںکی تھی۔اس تقریرکااصل موضوعبی۔ پی۔ سی رپورٹ پر تبصرہ تھا اوراس میںعلمائ کی
۱۵۔اب میںان حالات کوکسی قدرتفصیل کے ساتھ بیان کروںگاجوڈائریکٹ ایکشن اورمخالف احمدیت تحریک کے سلسلے میںبراہ راست مجھ سے متعلق ہیں۔میںنے اپنے ۲۹/جوالائی کے بیان
۱۴۔یہ سوال بھی چھیڑاگیاہے کہ مسلمان فرقوںکے درمیان اعتقادی اورفقہی اختلافات کی کیانوعیت ہے اوریہ کہ جب ان کے درمیان بنیادی امورمیںبھی اتفاق نہیں ہے،حتیٰ
۱۳۔یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اسلامی حکومت میںآرٹ کاکیاحشرہوگا؟اوراس سلسلہ میںتصور‘ڈرامے‘موسیقی‘سینمااورمجسموںکاخاص طورپرنام لیاگیاہے۔میںاس سوال کایہ مختصرجواب دوںگاکہ آرٹ توانسانی فطرت کی ایک پیدائشی امنگ ہے
۱۲۔اسلامی قانون جنگ اورخصوصاًغلامی کے مسئلے پربھی عدالت میںکچھ سوالات کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کاقانون جنگ حقیقت میں
۱۱۔عدالت میں مرتدکی سزاکامسئلہ بھی چھیڑاگیاہے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ اسلام میںمرتدکی انتہائی سزاقتل ہے۔اگرکوئی کہناچاہے کہ ایسانہ ہوناچاہے تویہ بات کہنے کااسے اختیارہے
۱۰۔اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی حیثیت کے متعلق عدالت میں جوسوالات چھیڑے گئے ہیں،ان کے جوابات سلسلہ وارحسب ذیل ہیں:(الف)اسلامی ریاست کی غیرمسلم رعایاکواسلامی اصطلاح
۹۔پاکستان کواس طرح کی ایک ریاست بنانے کے لیے ہمارامطالبہ بہت سے معقول وجوہ پرمبنی ہے جن میںسے اہم ترین وجوہ تین ہیں:ایک یہ کہ
۸۔پیراگراف نمبر۷میں جوکچھ کہاگیاہے اس سے یہ بات خودبخودواضح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس نوعیت کی ریاست بناتاہے اس میں ایک مجلس قانون ساز (legislature)
اسلامی ریاست، جس کاقیام اورفروغ ہمارانصب العین ہے، نہ تومغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت(theocracy)ہے اورنہ جمہوری حکومت (democracy) بلکہ وہ ان دونوںکے درمیان ایک
(د)علاوہ بریں،اگرقائداعظم کی اس تقریرکواس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میںبھی لے لیاجائے توہمیںجذبات سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ غورکرناچاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی
۶۔اصولی سوالات پربحث کرنے سے پہلے میںاس غلط فہمی کوصاف کردینا چاہتا ہوں جوقائداعظم مرحوم کی اس تقریر({ FR 6480 })سے پیداہوئی ہے جوانھوںنے ۱۱/اگست
۵۔عدالت میں اسلامی ریاست اس کے نظام اس میں ذمیوں کی حیثیت ‘پاکستان میںاس کے قیام اوراسلامی قوانین کے اجرا، فقہ اورسنت میںمسلم فرقوں کے
۴۔عدالت میں کفراورتکفیر کے متعلق کچھ اصولی سوالات بھی چھیڑے گئے ہیں مگران کے واضح اورتشفی بخش جوابات نہیں دئیے گئے۔اس سلسلے میں چند باتیں
۳۔عدالت میں یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اگراحمدی اپنے جارحانہ طورطریقوں سے بازآجائیں اورریاست کے اندرایک ریاست قائم کرنے کی کوشش ترک کردیں تو کیا
۲۔عدالت میںیہ خیال بھی ظاہرکیاگیاہے کہ صدرانجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے اس کے وکیل نے عدالت کے دئیے ہوئے سات سوالوںکے جواب میںجوبیان دیاہے
(ہ)قادیانیوںکوکلیدی مناصب سے ہٹانے کاجومطالبہ کیاگیاہے اس کی بنیادبھی صرف یہ نظریہ نہیںہے کہ اسلامی ریاست میںغیرمسلموںکوکلیدی مناصب پرمامورنہیںکیا جاسکتا، بلکہ یہ مطالبہ اس بناپرکیاگیاہے
(د)سرظفراللہ خان کے متعلق مسلمانوں کی طرف سے جومطالبہ کیاگیاہے وہ محض اس نظریے پرمبنی نہیں ہے کہ کسی غیرمسلم کواسلامی ریاست کاوزیرنہ ہوناچاہیے،بلکہ اس
(ج)عدالت میں یہ سوال بھی بارباراٹھایاگیاہے کہ آیاان سب لوگوں کواسی طرح غیرمسلم اقلیت قراردینے کامطالبہ کیاجائے گاجواسلام کے بنیادی مسائل میںعام مسلمانوں سے مختلف
(ب)مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلاف کومختلف فرقوں کے اختلافات کی نظیر فرض کرکے عدالت میں باربارعلما اورفرقوں کی باہمی کشمکش کے متعلق سوالات کیے گئے ہیں
(الف)یہ سوال باربارکیاگیاہے کہ یہ مطالبات مذہبی ہیں یاسیاسی ؟اوراکثراس کا جواب صرف یہ دے دیاگیاہے کہ یہ مذہبی مطالبات ہیں۔حالانکہ درحقیقت نہ یہ سوال
(جومورخہ ۸نومبر۱۹۵۳ء کوتحریری شکل میںعدالت مذکورمیںپیش کیاگیا۔)بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمجناب والا!گذشتہ ماہ ستمبرکے آغازسے آپ کی تحقیقاتی عدالت میںجوشہادتیںپیش ہوئی ہیں ان کی رودادیںاخبارات میںپڑھ
بہرحال میری ان کوششوںسے یہ بات عیاںہے کہ میںنے اپنی حدتک اس نزاع کے تینوں فریقوں کومصالحت پرآمادہ کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ہے۔مگرہرفریق نے
اس بیان کوختم کرنے سے پہلے میں یہ بات بھی عدالت کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میںنے جس طرح حکومت کواس غلط پالیسی
(۳)امرسوم کے متعلق میں اپنے وہ تمام بیانات اورمضامین اورجماعت اسلامی کے وہ سب ریزولیوشن جوقادیانی مسئلہ سے متعلق جون ۱۹۵۲ء سے ۶مارچ ۱۹۵۳ء تک
(۲)امرِدوم کے متعلق میں واقعات کوان کی صحیح صورت میںتاریخی ترتیب کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھ دیتاہوںپھریہ رائے قائم کرناعدالت کاکام ہے کہ ڈائریکٹ
اس سلسلہ میں عدالت سے میری درخواست یہ ہے کہ وہ اصولی طورپردوچیزوں کا فرق واضح کردے۔(۱)ایک چیزہے قادیانیوںکی علیحدگی کاآئینی مطالبہ۔دوسری چیزہے اس مطالبہ
پچھلے دنوںحکومت کی طرف سے یہ بھی کہاگیاہے کہ جس وقت ملک میںقادیانی مسئلہ پرہنگامہ برپاتھا، اس وقت اس مسئلے میںمسلمانوںکے مطالبے کی صحت کودلائل
حال ہی میںبعض ذمہ داران حکومت کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیاگیاکہ ملک کی فلاح اوربہبودکے لیے ’’رواداری‘‘کی سخت ضرورت ہے اورقادیانی مسئلہ پر
اس مسئلہ میں میری پالیسی اورمیری رہنمائی میںجماعت اسلامی کی پالیسی تین اجزا پرمشتمل رہی ہے۔اول یہ کہ میں قادیانیوں کومسلمانوں سے الگ کرنے کامطالبہ
جو حالات میں نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی بنا پر میرے نزدیک ان اضطرابات اور ہنگاموں کی ذمہ داری چار فریقوں پر بالکل
دوسرے امر تحقیق طلب کے بارے میں مجھے صرف دو باتیں یہاں بیان کرنی ہیں:اول یہ کہ فروری کے اختتام تک پنجاب گورنمنٹ کی پالیسی
(۲۰) یہ تھے وہ حالات جن میں ۶ مارچ کی دوپہر کو عین نماز جمعہ کے وقت مارشل لا کااعلان کیاگیا۔ میرے نزدیک یہ اعلان
(۱۹) ۵ مارچ کی سہ پہر گورنر پنجاب مسٹر چندریگر نے گورنمنٹ ہائوس میں ایک کانفرنس بلائی جس میں مجھے بھی مدعو کیاگیا تھا۔ اس
(۱۸) ۴ اور ۵ مارچ کی درمیانی شب کو میں نے مولانا مفتی محمد حسن اور مولانا دائود غزنوی کی موافقت سے خواجہ ناظم الدین
(۱۷) ۲ مارچ تک لاہور میں پولیس کا رویہ بہت نرم تھا مگر اس کے بعد یکایک نہایت بے دردی سے پرامن جتھوں پر لاٹھی
(۱۶) ۲۷فروری سے جب کہ ڈائریکٹ ایکشن کاآغاز ہوا۔ ۴ مارچ تک کے عوام کے مظاہروں نے اشتعال کے باوجود کہیں بھی بدامنی ، لوٹ
(۱۵)اس سلسلے میںخصوصیت کے ساتھ جن باتوںنے لوگوںکے درمیان عام ناراضگی پیداکی وہ یہ تھیں:اول یہ کہ حکومت نے اس پوری مدت میںکبھی زبان کھول
(۱۴)مئی ۱۹۵۲ء کے بعدسے مسلسل کئی مہینے تک پنجاب اوربہاول پورکے (جہاں کا درحقیقت یہ معاشرتی اورمعاشی مسئلہ تھا)ہرحصے میںاس مسئلے کے متعلق بلامبالغہ ہزاروں
(۱۳)مئی ۱۹۵۲ء میں احرارنے پہلی مرتبہ قادیانیوں کے خلاف عام ایجی ٹیشن شروع کیا۔ حکومت نے اس وقت جگہ جگہ دفعہ ۱۴۴لگاکرلاٹھی چارج کرکے ائمہ
(۱۲)حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ ۱۸/مئی ۱۹۵۲ء کوقادیانی جماعت نے جہانگیرپارک کراچی میںایک جلسہ عام منعقد کیااوراس میںسرمحمدظفراللہ خان وزیرخارجہ پاکستان نے اعلانیہ
(۱۱)میری اوپرکی تصریحات سے حکومت اوراس کے حامیوںکے اس قیاس کی غلطی بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ مصنوعی طورپراحرارکے اکسانے سے اچانک اٹھ
(۱۰) یہ ہے حالات کا وہ تاریخی پس منظر، جس میں احرار نے قادیانی مسئلہ پر ایجی ٹیشن کاآغاز کیا۔ میری سابق تصریحات سے یہ
(۹)قیام پاکستان کے بعدخودقادیانیوںکی طرف سے پے درپے ایسی باتیںہوتی رہی ہیںجنھوںنے مسلمانوںکی تشویش میںمزیداضافہ کردیااورمسلمان یہ محسوس کرنے لگے کہ قادیانی مسئلہ انگریزی دورسے
(۷)یہ اسباب نصف صدی سے اپناکام کررہے تھے اورانھوںنے خاص طورپر پنجاب میںقادیانیت کومسلمانوںکے لیے ایک ایسا مسئلہ بنادیاتھاجوچاہے کوئی بڑامسئلہ نہ ہومگراحساس کے لحاظ
(۶)تمام مسلمانوںکی تکفیراوران سے معاشرتی مقاطعہ اوران کے ساتھ معاشی کشمکش کی بناپرقادیانیوںاورمسلمانوںکے تعلقات میںجوتلخی پیداہوچکی تھی،اس کو مرزاغلام احمد صاحب اوران کے پیروئوںکی بہت
(۵)جہاں دوگروہوں کے درمیان مذہب‘معاشرت اورمعیشت میںکشمکش ہو وہاں سیاسی کشمکش کارونماہوناایک بالکل قدرتی بات ہے۔مگرقادیانیوںاورمسلمانوںکے معاملہ میںسیاسی کشمکش کے اسباب اس سے کچھ زیادہ
(۴)کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ مسلمانوںاورقادیانیوںکی یہ نزاع معاش کے میدان میںبھی پہنچ گئی۔مسلمانوںکے ساتھ مذہبی اورمعاشرتی کشمکش کی وجہ سے اوربڑی حدتک
(۳)آغازمیںیہ نزاع صرف ایک مذہبی نزاع تھی مگربہت جلدی اس نے مسلمانوںکے اندرایک پیچیدہ اورنہایت تلخ معاشرتی مسئلے کی شکل اختیارکرلی۔اس کی وجہ مرزاصاحب اوران
(۱)قادیانیوں اورمسلمانوںکے درمیان اختلاف کآغازبیسویںصدی کی ابتداسے ہوا۔انیسویںصدی کے خاتمہ تک اگرچہ مرزاغلام احمدصاحب مختلف قسم کے دعوے کرتے رہے تھے جن کی بناپرمسلمانوںمیںان کے
اس سوال کواگرصرف ان حالات تک محدودرکھاجائے جومارشل لا سے پہلے قریبی زمانہ میںرونماہوئے تھے تومیرے نزدیک یہ اس تحقیقات کابہت ہی تنگ نقطہ نظرہوگاجسے
(یہ بیان آنریبل کورٹ کی اجازت سے اخبارات میں شائع ہوا) مجھے اپنے بیان میںجوباتیںپیش کرنی ہیںان کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ مجھے کو
(۱)سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مولانامودودی کوفوج میں مضرت رساں پروپیگنڈاکرنے یاخفیہ بیرونی امدادحاصل کرنے کے الزام میںکبھی بھی ماخوذنہیںکیاگیا۔نیزباوجودکوشش
خفیہنمبرایم ایل /۱/الفہیڈکواٹربی ،سیکٹر۱۱ /مئی ۱۹۵۳ءبنام: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ولد احمد حسنمضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائشمارشل لا کے تحت
(جوانھوں نے فردجرم ضابط نمبر۸مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۲۴/الف کے جواب میں فوجی عدالت میںدیا۔)اس مقدمے میںمیرابیان وہی ہے جومیںنے ’’قادیانی مسئلہ ‘‘کے مقدمے میں
بنام ملزمان:۔نمبرا۔مولاناابوالاعلیٰ مودودی ولداحمدحسنذیلدار پارک اچھرہ لاہورنمبر۲۔نصراللہ خان عزیز ولد ملک محمد شریفمین بازار گوالمنڈی لاہورجرم :مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۲۴/الف تعزیرات پاکستان
مورخہ ۲۷فروری اور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء جو فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ ۱۲۴/الف کا موجب بنے ۔ پہلا بیان تاریخ ۲۷فروری
(جو انھوںنے فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف کے جواب میں فوجی عدالت میں دیا )بسم اللہ الرحمن الرحیم۲۷اور ۲۸مارچ کی
بنام ملزمان :نمبر۱ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ولد احمد حسن، ذیلدار پارک اچھرہ لاہور۔نمبر۲نصیر بیگ ولد امیربیگ، منیجرجدید اُردو پریس ، لاہورنمبر۳محمد بخش ولد حاجی محمد
آخرمیں چندالفاظ پیش نظر پمفلٹ کے بارے میں عرض کرنا ہیں، ان سطور کی اشاعت کامقصد مولانا مودودی کے مقدمہ سے متعلق وہ تمام حالات
اس مقد مہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل غورہے کہ مولانامودودی کے ۲۷فروری اور۵مارچ ۱۹۵۳ئ کے جن دوبیانات کوحکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے
یہی نہیں بلکہ ہم تواس کے بالکل برعکس یہ دیکھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کاسلسلہ برابرجاری ہے ۔حال ہی میں
اس عظیم احتجاج اور مطالبہ رہائی پر اب سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ آخر کوئی بات تو تھی جو
۵ مئی ۱۹۵۳ء کو گورنر جنرل پاکستان واپس کراچی تشریف لے آئے اور ۹ مئی کو ان کی طرف سے ایک آرڈی ننس جاری ہوا
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ میں یہ بات پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ ان پر ضابطہ مارشل لا نمبر۸ بشمول تعزیرات پاکستان
برسراقتدار طبقہ کے مغرب زدہ افراد کی نظروں میں مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلامی
نشریاتی محکمے ، خبررساں ایجنسیاں ،نیم سرکاری اخبارات اور سیاسی لیڈر ملک کی ایک اہم حزب اختلاف کی تمام خبروں کا بلیک آئوٹ کرنے اور
جماعت اسلامی یا اس کے رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے اختلاف کرنے، ان پر اعتراضات کرنے ، حتیٰ کہ ان کی عملی مخالفت
اس علمی ، فکری اور تعمیری کام کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی خالص جمہوری طریقہ سے اور قطعی آئینی خطوط پر پاکستان میں اسلامی حکومت
جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت اور مقصد سے نہ صرف ملک کے باشندے بلکہ بیرونی ممالک کے لوگ بھی اب ناواقف نہیں ہیں ۔ یہ
اصل جرم :مولانا مودودی کو جس دفعہ کے تحت سزائے موت کا حکم سنایاگیاوہ ضابطہ نمبر۸ مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف۔ رعایا کے درمیان منافرت
مولانا مفتی محمد حسن صاحب خلیفہ حاجی ترنگ زئیمولانا ابوالحسنات صاحب مولانااطہر علی صاحبمولانا ظفر احمد صاحب عثمانی مولانا محمد اسماعیل صاحبسید ابوالاعلیٰ مودودی مولانا
پاکستان کے سربرآور دہ علما نے دستوری سفارشات میں جو ترمیمات پیش کی ہیں ،ان میں سے ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو
ان وجوہ سے پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بالاتفاق مطالبہ کیاہے کہ اس سرطان کے پھوڑے کو مسلم معاشرے کے جسم سے فوراً کا
اب قادیانی جماعت کی پوری تصویر آپ کے سامنے ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال یہ ہیں :(۱) پچاس برس سے زیادہ مدت ہوئی، جب کہ
’’شہادۃ القرآن ‘‘ مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ طبع ششم کے ساتھ ایک ضمیمہ ہے جس کا عنوان ہے ’’گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ‘‘ اس
آخری جواب طلب بات یہ رہ جاتی ہے کہ قادیانی حضرات اسلام کی مدافعت اور تبلیغ کرتے رہے ہیں، اس لیے ان سے ایسا سلوک
اب تیسرے سوال کو لیجیے ۔ یعنی یہ کہ علیحدگی کا مطالبہ تو اقلیتیں کیا کرتی ہیں ۔ یہاں یہ کیسی الٹی بات ہو رہی
اس مستقل رحجان کے علاوہ اب ایک نیا رجحان قادیانی گروہ میں ابھر رہاہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنا ڈالنا
پھر دوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لیے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اور ہمیں مجبور کرتے ہوںکہ ہم فوراً
بلاشبہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ بعض اور گروہ بھی ایسے موجود ہیں جو اسلام کی بنیادی حقیقتوں میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور
اب ہم اوپر کے سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر سلسلہ وار ان کاجواب دیتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں میں یہ ایک بیماری پائی
آخر ی بات چونکہ ذرا مختصر ہے اس لیے پہلے ہم اس کا جواب دیں گے پھر دوسرے سوالات پر بحث کریں گے۔اگر یہ واقعہ
یہ قطع تعلق صرف تحریر و تقریر ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لاکھوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً
اس ہمہ گیر اختلاف کو اس کے آخری منطقی نتائج تک بھی قادیانیوں نے خود ہی پہنچادیا اور مسلمانوں سے تمام تعلقات منقطع کرکے ایک
وہ صرف یہی نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کااختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا
نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے ۔ چنانچہ
اس طرح نبوت کا دروازہ کھول کر مرزا غلا م احمد صاحب نے خود اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور قادیانی گروہ نے ان کو
واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک اُمت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوںنے خود اختیار کی
تمہید:گذشتہ ماہ جنوری میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علما نے تازہ دستوری سفارشات پر غور و خوض کرکے جو اصلاحات اور جوابی تجاویز مرتب کی
اس مختصر کتابچے میں وہ تمام دلائل جمع کردئیے گیے ہیں جن کی بنا پر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ
اس سے پہلے اس کتاب کے مضامین حسب ذیل پمفلٹوں کی شکل میں طبع ہوچکے تھے۔۱۔قادیانی مسئلہ۲۔مقدمہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۳۔ تحقیقاتی عدالت میں مولانا
موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دُور ہے
ایمانیات پر مجموعی نظرایمان کے پانچوں شعبوں پر تفصیل کے ساتھ کلام کیا جا چکا ہے، ان میں سے ہر ایک کے متعلق اسلام کا
یوم آخر سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس لیے اس کو حیاتِ آخرت اور دار ِآخرت بھی کہا گیا ہے۔ قرآن مجید
اسلام کی اصطلاح میں ’’کتاب‘‘ سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی راہ نمائی کے لیے اللّٰہ کی طرف سے رسول پرنازل کی جاتی
حقیقتِ رسالتتوحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ’’رسالت‘‘ ہے۔ جس طرح اعتقاد کی جہت میں توحید اصل دین ہے، اسی طرح اتباع کی
ایمان بالملائکہ کا مقصدفرشتوں پر ایمان دراصل ایمان باللّٰہ کا تتمہ اور اس کا ضمیمۂ لازمہ ہے۔ اس کا مقصد محض یہی نہیں ہے کہ
ایمان باللّٰہ کی اہمیتاسلام کے پورے اعتقادی اور عملی نظام میں پہلی اور بنیادی چیز ایمان باللّٰہ ہے۔ باقی جتنے اعتقادات و ایمانیات ہیں سب
قرآن مجید میں اسلام کے ایمانیات اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں کہ ان میں کسی اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے،
نظریۂ حیات اور مقصدِ حیات سے گزر کر اب ہمارے سامنے تیسرا سوال آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے انسانی سیرت کی
تصورِ حیات کے بعد دوسرا سوال جو ایک تہذیب کے حُسن و قبح کو جانچنے میں خاص اہمیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ وہ انسان
٭ صحیح اجتماعی نصب العین کے لازمی خصائص٭ انسان کا فطری نصب العین٭ دو مقبول اجتماعی نصب العین اوران پر تنقید٭ اسلامی تہذیب کا نصب
انسان کو ابتدا سے اپنے متعلق بڑی غلط فہمی رہی ہے اور اب تک اس کی یہ غلط فہمی باقی ہے کہ کبھی وہ افراط
٭ انسان کی حقیقت٭ کائنات میں انسان کا درجہ٭ انسان نائبِ خدا ہے٭ منصب نیابت کی تشریح٭ زندگی کا اسلامی تصور٭ انسان نائب ہے نہ
مغربی مصنّفین اور ان کے اثر سے مشرقی اہلِ علم کا بھی ایک بڑا گروہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اسلام کی تہذیب اپنے ماقبل
جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک بڑی تعداد اسلامی تہذیب کے بارے میں بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ کچھ اسے اسلامی ثقافت کے ہم
تالیف قلب کے معنی ہیں: دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جولوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْاَمِیْنِ۔ اَمَّا بَعْدُ فَیَامَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ ط وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا وَمَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَامُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ
برادرانِ اسلام!اس سے پہلے ایک مرتبہ مَیں آپ کو دین اور شریعت اور عبادت کے معنی بتا چکا ہوں۔اب ذرا پھر اس مضمون کو اپنے
برادرانِ اسلام!پچھلے خطبوں میں بار بار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز،روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیںاللہ تعالیٰ
حج کے ثمراتعالم اسلام میں حرکتبرادرانِ اسلام! آپ جانتے ہیں کہ ایسے مسلمان جن پر حج فرض ہے، یعنی جو کعبہ تک آنے جانے کی
برادرانِ اسلام! قرآن مجید میں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کی عام منادی کرنے کا
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ حج کی ابتدا کس طرح اور کس غرض کے لیے ہوئی تھی۔ یہ بھی
بردرانِ اسلام! پچھلے خطبات میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے متعلق آپ کو تفصیل کے ساتھ بتایا جا چکا ہے کہ یہ عبادتیں انسان کی
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کے سامنے انفاق فی سبیل اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے) کے عام احکام بیان کر چکا ہوں۔
احکام کی دو قسمیں___ عام اور خاصبرادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا یہ قاعدہ رکھا ہے کہ پہلے تو نیکی اور بھلائی کے
برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے زکوٰۃ کی حقیقت بیان کر چکا ہوں۔ اب میں آپ کے سامنے اس کے
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں بیان کر چکا ہوں کہ نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے اور یہ اتنی بڑی
زکوٰۃ کی اہمیتبرادرانِ اسلام! نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلے میں نماز کے
زکوٰۃ * زکوٰۃ* زکوٰۃ کی حقیقت* اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام* انفاق فی سبیل اللہ کے احکام* زکوٰۃ کے خاص احکام
ہر کام کا ایک مقصد برادرانِ اسلام! ہر کام جو انسان کرتا ہے، اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوا کرتی ہیں۔ ایک چیز
برادرانِ اسلام! دوسری عبادت جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کی ہے روزہ ہے۔ روزے سے مراد یہ ہے کہ صبح سے شام تک
برادرانِ اسلام! آج کے خطبے میں مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ جس نماز کے اس قدر فائدے میں نے کئی خطبوں میں مسلسل
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبوں میں تو میں نے آپ کے سامنے صرف نماز کے فائدے بیان کیے تھے جن سے آپ نے اندازہ کیا ہو
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ نماز کس طرح انسان کو اللہ کی عبادت، یعنی بندگی اور اطاعت کے لیے
برادران اسلام! پچھلے خطبے میں مَیں نے آپ کے سامنے عبادت کا اصل مطلب بیان کیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ اسلام میں
برادرانِ اسلام!پچھلے خطبے میں، میں نے آپ کو دین اور شریعت کا مطلب سمجھایا تھا۔ آج میں آپ کے سامنے ایک اور لفظ کی تشریح
نماز *عبادت* نماز* نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟* نماز باجماعت* نمازیں بے اثر کیوں ہوگئیں؟
برادرانِ اسلام! مذہب کی باتوں میں آپ اکثر دو لفظ سنا کرتے ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ ایک ’دین‘ دوسرے ’شریعت‘۔ لیکن آپ میں سے
برادرانِ اسلام! پچھلے کئی خطبوں سے میں آپ کے سامنے بار بار ایک یہی بات بیان کر رہا ہوں کہ ’اسلام‘ اللہ اور رسول a
برادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ پاک میں فرماتا ہے:قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۙ o لَا شَرِيْكَ لَہٗ۰ۚ وَ بِذٰ
برادرانِ اسلام! پچھلے جمعے کے خطبے میں، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ قرآن کی رُو سے انسان کی گمراہی کے تین سبب ہیں:o
برادرانِ اسلام! آج میں آپ کے سامنے مسلمان کی صفات بیان کروں گا۔ یعنی یہ بتائوں گا کہ مسلمان ہونے کے لیے کم سے کم
اسلام * مسلمان کسے کہتے ہیں؟* ایمان کی کسوٹی* اسلام کا اصلی معیار* خدا کی اطاعت کس لیے؟* دین اور شریعت
برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے کلمۂ طیبہ کا مطلب بیان کر چکا ہوں۔ آج میں اس سوال پر بحث
برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں کلمہ طیبہ کے متعلق میں نے آپ سے کچھ کہا تھا۔ آج پھر اسی کلمہ کی کچھ اور تشریح میں
برادرانِ اسلام! آپ کو معلوم ہے کہ انسان دائرۂ اسلام میں ایک کلمہ پڑھ کر داخل ہوتا ہے اور وہ کلمہ بھی کچھ بہت زیادہ
*قرآن کے ساتھ ہمارا سلوکبرادرانِ اسلام! دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے پاس اللہ کا کلام بالکل محفوظ،
-1مسلم اور کافر میں فرق کیوں؟برادرانِ اسلام! ہر مسلمان اپنے نزدیک یہ سمجھتا ہے اور آپ بھی ضرور ایسا ہی سمجھتے ہوں گے کہ مسلمان
(1)اللہ کا سب سے بڑا احسانبرادرانِ اسلام! ہر مسلمان سچے دل سے یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں خدا کی سب سے بڑی نعمت اسلام
ایمان * مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت* مسلمان اور کافر کا اصلی فرق* سوچنے کی باتیں* کلمہ طیبہ کے معنی* کلمہ طیبہ اور
میرے خطباتِ جمعہ کا یہ مجموعہ سب سے پہلے نومبر۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا۔ نومبر ۱۹۵۱ء تک گیارہ سال کی مدت میں اس کے سات
۱۳۵۷ھ (۱۹۳۸ء) میں جب میں پہلی مرتبہ پنجاب آیا اوردارُ الاسلام (نزد پٹھان کوٹ، مشرقی پنجاب) میں قیام پذیر ہوا تو میں نے وہاں کی
اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جامع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حاصل ہے وہ محتاجِ
(یہ ایک تقریر ہے جو مصنف نے طلبہ کے ایک سالانہ اجتماع کے موقع پر کی تھی۔ اب اسے بعض ضروری تبدیلیوں کے ساتھ کتابی
(ذیل کا مقالہ دراصل وہ میمورنڈم ہے جو مولانا مودودیؒ نے اصلاحِ تعلیم کے سلسلے میں قومی تعلیمی کمیشن کو بھیجا تھا۔ چوں کہ کمیشن
مختلف مسلم ممالک میں اس طرح کی تجویزیں کی جا رہی ہیں کہ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں بنیادی تغیرات کیے جائیں اور ایک ایسے
(یہ وہ تقریر ہے جو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب نے طلبہ کے ایک اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے ۲۵۔ فروری ۱۹۵۲ء کو برکت
(منعقدہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور، ۱۹۴۴ء)اپنے نظریہ تعلیمی کے مطابق ایک درس گاہ اور ایک تربیت گاہ کے قیام کی ضرورت تو ہماری
(یہ خطبہ ۵ ۔جنوری ۱۹۴۱ء کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کی انجمنِ اتحادِ طلبہ کے سامنے پڑھا گیا)حضرات! خوش قسمتی سے آج مجھے اس جگہ
(کچھ مدت ہوئی ایک اسلامیہ کالج کے جلسۂ تقسیم اسناد (convocation) میں مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی
(یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلس اصلاحِ نصاب ودینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس
آج سے تقریباً ۳۵ برس پہلے ۱۹۳۵ء میں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ
یہ حدود و ضوابط اور یہ اصلاحی تدبیریں اگر معیشت کے ان سات فطری اصولوں کے ساتھ جمع کردی جائیں جو ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘
اسلام اس بات کو اصولاً پسند نہیں کرتا کہ حکومت خود ضائع یا تاجر یا زمیندار بنے ۔اس کے نزدیک حکومت کا کام رہنمائی ہے،
اسلام معاشرے اور ریاست کے ذمّے یہ فرض عائد نہیں کرتا کہ وہ اپنے افراد کو روزگار فراہم کرے۔ اس لیے کہ فراہمی روزگار کی
مالیات میں اسلام افراد کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کی آمدنیوں کا جو حصہ ان کی ضروریات سے بچ رہے، اسے
اسلام اشیاء استعمال اور ذرائع پیداوار کے درمیان ان طرح کا کوئی فرق تسلیم نہیں کرتا کہ ایک پر شخصی ملکیت جائز ہو اور دوسرے
اسلام تمام دوسری ملکیتوں کی طرح زمین پر انسان کی شخصی ملکیت تسلیم کرتا ہے جتنی قانونی شکلیں ایک چیز پر کسی شخص کی ملکیت
ٹھیک یہی طریق کار ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ وہ ’’بے قید معیشت‘‘ کو ’’آزاد معیشت‘‘ میں تبدیل کردیتا ہے اور اس آزادی
مذکورہ بالا حقائق کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا پیچھے پلٹ کر ایک نظر پھر ان مباحث پر ڈال لیجئے جو اس کتاب
آئیے اب ہم دیکھیں کہ اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر وہ پیچیدگی کس طرح حل ہوسکتی ہے جسے ہم نے ’’تاریخ کا
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ
اسلام کے اصول پر ہم ان مسائل کو کس طرح حل کرسکتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ایک مرتبہ واضح
پچھلے صفحات میں جو تاریخی بیان پیش کیا گیا ہے اس پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے ایک عام ناظر کے سامنے کئی باتیں بالکل وضاحت
لیکن ان تمام تغیرات، ترمیمات اور اصلاحات کے باوجود ابھی تک نظام سرمایہ داری کے بنیادی عیوب جوں کے توں باقی ہیں۔ابھی تک بیروزگاری کا
اب ہمیں ایک نظریہ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ جن ممالک میں وسیع المشرب جمہوریت کی جڑیں مضبوط تھیں انہوں نے نظام سرمایہ داری
یہ تھیں فاشیت اور نازیت کی برکات، مگر ان برکات کے لیے اٹلی اور جرمنی کو قیمت کیا دینی پڑی؟نازی اور فاشی حضرات نے طبقاتی
فاشی اور نازی حضرات اشتراکیوں کے اس خیال کو رد کر دینے میں بالکل حق بجانب تھے کہ ایک معاشرے اور ایک قوم کے زمیندار
اشتراکی حضرات بالعموم اٹلی کی فاشی اور جرمنی کی نازی تحریک کو سرمایہ داری کی رجعت قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور الزام رکھتے
روس میں اشتراکیت نے اپنا نظام قائم کرنے کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر، جیسے سخت ہولناک ظلم کئے اور پھر اس انقلاب کی کامیابی
جہاں تک ارتقائی سوشلزم کا تعلق ہے اس نے ابھی دنیا میں اپنا کوئی نمونہ پیش نہیں کیا ہے جس کو دیکھ کر ہم پورے
اس نئے مسلک کے مصنفوں نے اپنے حملے کی ابتدا ’’حقوق ملکیت ‘‘ سے کی۔ انہوں نے کہا کہ اصل خرابی کی جڑ یہی بلا
یہ تھے وہ اصل اسباب جن کی وجہ سے صنعتی انقلاب کے پیدا کئے ہوئے نظام تمدن و معیشت میں خرابیاں رونما ہوئیں۔ پچھلے صفات
یہ تھے وہ اصول جن کو پورے زور شور کے ساتھ جدید سرمایہ داری کی پیدائش کے زمانے میں پیش کیا گیا اور چونکہ ان
اس نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا اصولوں پر سوسائٹی کی فلاح و بہبود کا بہترین کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے
نظام سرمایہ داری کے وکیل کہتے ہیں کہ جب کاروبار میں منافع کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ لاگت کم اور پیداوار زیادہ
نظام سرمایہ داری میں ہر کاروباری ادارے کے کارکن دو فریقوں پر منقسم ہوتے ہیں۔ ایک مالک، جو اپنی ذمہ داری پر کسی تجارت یا
نظام سرمایہ داری کے وکلاء کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جو بے قید معیشت میں افراد کی خود غرضی کو بے جا حد
نظام سرمایہ داری اشیاء ضرورت کی پیداوار اور ترقی کے لیے جس چیز پر انحصار کرتا ہے وہ فائدے کی طمع اور نفع کی امید
یعنی افراد کا یہ حق وہ فرداً فرداً یا چھوٹے بڑے گروہوں کی شکل میں مل کر اپنے ذرائع کو جس میدان عمل میں چاہیں
صرف انہی اشیاء کی ملکیت کا حق نہیں جنہیں آدمی خود استعمال کرتا ہے مثلاً کپڑے، برتن، فرنیچر، مکان، سواری، مویشی وغیرہ بلکہ ان اشیاء
جیسا کہ ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں، بے قید معیشت کے ’’وسیع المشرب‘‘ نظریے پر جس معاشی نظام کی عمارت اٹھی اس کا نام
اس دور میں وہی ’’لبرلزم‘‘ جس نے پچھلی لڑائی جیتی تھی، نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اٹھا اور اس نے سیاسیات میں جمہوریت کا
اٹھارویں صدی عیسوی میں مشین کی ایجاد نے اس انقلاب کی رفتار کو بدرجہا زیادہ تیز کردیا جس کی ابتدا نشاۃ ثانیہ کے دور میں
کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سرعنوان تھا ’’لبرلزم‘‘ یعنی ’’وسیع المشربی‘‘۔ نئے دور کے
قریب کے زمانے میں دنیا کی فکری امامت اور عملی تدبیر، دونوں ہی کا سر رشتہ اہل مغرب کے ہاتھ میں رہا ہے۔ اس لیے
یہ مختصر رسالہ میری کتاب ’’سود‘‘ کے ان ابواب کا مجموعہ ہے جو اس سے پہلے کتاب مذکورہ کے حصوہ اول و دوم میں شائع
یہاں تک تو قرآن اس لفظ کو قریب قریب انھی مفہومات میں استعمال کرتا ہے جن میں یہ اہلِ عرب کی بول چال میں مستعمل
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌo وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌo (الذّٰریات۵۱: ۵۔۶)وہ خبر جس سے تمھیں آگاہ کیا جاتا ہے۔ (یعنی زندگی بعد موت) یقینا سچی ہے اور دین
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۰ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ
اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚۖ فَتَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo ہُوَالْـحَيُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظِ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں، یا بالفاظِ دیگر یہ لفظ عربی ذہن
کلامِ عرب میں لفظ دین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔(۱) غلبہ واقتدار،حکم رانی وفرماں روائی، دُوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا، اس پر اپنی
اُوپر کی مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن میں عبادت کا لفظ کہیں غلامی واطاعت کے معنی میں استعمال
قُلْ اِنِّىْ نُہِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَمَّا جَاۗءَنِيَ الْبَيِّنٰتُ مِنْ رَّبِّيْ۰ۡوَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (المومن۴۰: ۶۶)کہو، مجھے تو اس سے
اب تیسرے معنی کی آیات کو لیجیے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے عبادت بمعنی پرستش
اب ان آیات کو لیجیے جن میں عبادت کا لفظ صرف معنی دوم میں استعمال ہوا ہے:اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ۰ۚ
اس لغوی تحقیق کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ پاک میں یہ لفظ
عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیۃ کے اصل معنی خضوع اور تذلّل کے ہیں۔ یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے
گم راہ قوموں کے تخیّلات کی یہ تحقیق جو پچھلے صفحات میں کی گئی ہے۔ اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیتی ہے کہ
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ عرب کے مشرکین جن کی طرف نبی a مبعوث ہوئے، اور جو قرآن کے اوّلین مخاطب تھے، اس باب میں
قومِ فرعون کے بعد ہمارے سامنے بنی اسرائیل اور وہ دوسری قومیں آتی ہیں جنھوں نے یہودیّت اور عیسائیت اختیار کی۔ ان کے متعلق یہ
اب ہمیں فرعون اور اس کی قوم کو دیکھنا چاہیے جس کے باب میں نمرود اور اس کی قوم سے بھی زیادہ غلط فہمیاں پائی
اس کے بعد اہلِ مدین اور اصحاب الایکہ کو لیجیے جن میں حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے متعلق ہمیں معلوم
قومِ ابراہیم ؑ کے بعد ہمارے سامنے وہ قوم آتی ہے جس کی اصلاح پر حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ مامور کیے گئے تھے۔
اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ کی قوم کا نمبر آتا ہے۔ اس قوم کا معاملہ خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ اس کے
اب ثمود کو لیجیے جو عاد کے بعد سب سے بڑی سرکش قوم تھی۔ اصولاًاس کی گم راہی بھی اس قسم کی تھی جو قومِ
قومِ نوحؑ کے بعد قرآن عاد کا ذکر کرتاہے۔ یہ قوم بھی اللہ کی ہستی سے منکر نہ تھی۔ اس کے الٰہ ہونے سے بھی
سب سے پہلی قوم جس کا ذکر قرآن کرتا ہے، حضرت نوحؑ کی قوم ہے۔ قرآن کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ
ان شواہد سے لفظِ رب کے معانی بالکل غیر مشتبہ طور پر معین ہو جاتے ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ربوبیت کے متعلق گم
قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی میں آتا ہے۔ کہیں ان میں سے کوئی ایک یا دو معنی مرادہیں، کہیں اس سے زائد
اس لفظ کا مادّہ رؔ بؔ بؔ ہے جس کا ابتدائی واساسی مفہوم پرورش ہے۔ پھر اسی سے تصرُّف، خبر گیری، اصلاحِ حال اور اتمام
یہی اقتدار کا تصور ہے جس کی بنیاد پر قرآن اپنا سارا زور غیر اللہ کی اِلٰہیّت کے انکار اور صرف اللہ کی الٰہیّت کے
الٰہ کے یہ جتنے مفہومات اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب کے درمیان ایک منطقی ربط ہے۔ جو شخص فوق الطبعی معنی میں کسی کو
اس لغوی تحقیق کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اُلوہیّت کے متعلق اہلِ عرب اوراُممِ قدیمہ کے وہ کیا تصورات تھے جن کی تردید قرآن
اس لفظ کا مادہ ا ل ہ ہے۔ اس مادہ سے جو الفاظ لغت میں آئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:اَلِہَ اذا تحیّر، حیران
الٰہؔ، رَبّؔ، دینؔ اور عبادتؔ، یہ چار لفظ قرآن کی اصطلاحی زبان میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن کی ساری دعوت یہی ہے کہ اللہ
الحمد للہ! امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شاہ کار تصنیف ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کا جدید تحقیق شدہ ایڈیشن شائع ہوگیا ہے جس کو
اُمّتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو اس میں سرِفہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرآنی تعلیمات
یہ ہیں وہ جملہ دلائل جو فاضل جج نے حدیث وسُنّت کے متعلق اپنی رائے کے حق میں پیش کیے ہیں۔ ہم نے ان میں
دوسری بات کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ وصیت کے متعلق جن احادیث کو فاضل جج قرآن میں ترمیم کا ہم معنی قرار دے
پیراگراف ۳۳ میں فاضل جج دو باتیں اور ارشاد فرماتے ہیں جن پر ان کے دلائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلی بات
پیراگراف ۳۱ میں فاضل جج ایک اور دلیل لاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:’’یہ بات کہ محدثین خود اپنی جمع کردہ احادیث کی صحت پر مطمئن
پیرا گراف ۳۰ میں فاضل جج دو اور دلیلیں پیش فرماتے ہیں۔ اول یہ کہ رافع بن خدیجؓ والی روایت میں (جس کا حوالہ انھوں
اس کے بعد پیرا گراف ۲۹ میں فاضل جج فرماتے ہیں:مزید برآں کیا یہ قابل یقین ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے وہ بات فرمائی
پھر پیراگراف ۲۸ میں فاضل جج دو حدیثیں نقل فرماتے ہیں جن میں نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ آپ نے جنت کو دیکھا اور اس
ان امور کو نگاہ میں رکھ کر فردًا فردًا ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے جو فاضل جج نے پیش کی ہیں:O پہلی حدیث میں حضرت
اب ہم اصل بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پیرا گراف ۲۶ میں فاضل جج یکے بعد دیگرے ۹ حدیثیں نقل کرتے چلے گئے ہیں
آگے چل کر فاضل جج فرماتے ہیں کہ احادیث کے مجموعوں میں ایسی حدیثیں بھی موجود ہیں جن کو صحیح ماننا سخت مشکل ہے۔ اس
ان سب کے علاوہ ایک نہایت اہم بات اور بھی ہے جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں اورجنھوں نے محض
یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحابہؓ کے لیے خاص طور پر نبیﷺ کی احادیث کو ٹھیک ٹھیک یاد
اب ہمیں فاضل جج کے آخری دو نکتوں کو لینا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے عربوں کا حافظہ جیسا کچھ قوی ہے، پہلی
آگے چل کر فاضل جج نے اپنے نکتہ ششم میں احادیث کے ’’انتہائی مشکوک‘‘ اور ’’ناقابل اعتماد‘‘ ہونے کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے
یہی دَور تھا جس میں حدیث کے مجموعے لکھنے اور مرتب کرنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے
اس کے بعد ان تابعین کو دیکھیے جنہوں نے صحابہ کرامؓ سے سیرت پاکؐ کا علم حاصل کیا اور بعد کی نسلوں تک اس کو
عقل گواہی دیتی ہے کہ ایسا ضرور ہوا ہو گا اورتاریخ گواہی دیتی ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے۔ آج حدیث کا جو
پھر نکتہ نمبر۴ کے آخر میں فاضل جج کا یہ ارشاد کہ ’’احادیث نہ یاد کی گئیں، نہ محفوظ کی گئیں، بلکہ وہ ان لوگوں
فاضل جج بار بار لکھنے کے مسئلے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لکھنا اور محفوظ کرنا گویا
اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ایک مسئلے میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی صاف صاف تصریحات موجود ہوں
اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ نبیﷺ اپنی احادیث کی نشرواشاعت کے لیے تاکید فرماتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ آپؐ نے ان
یہ تو ہے معاملہ کتابتِ حدیث کا، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، اہلِ عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے
مدینہ طیبہ پہنچنے کے تھوڑی مدت بعد آپﷺ نے اپنے اصحاب اور ان کے بچوں کو لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوانے کا خود اہتمام فرمایا،
اب ہم فاضل جج کے نکات نمبر ۲‘۳ اور ۴ کو لیتے ہیں۔ ان نکات میں ان کے استدلال کا سارا انحصار تین باتوں پر
فاضل جج نے اس بات کو بڑی اہمیت دی ہے کہ ہزار در ہزار حدیثیں گھڑی گئیں اور اس بات پر بڑا زور دیا ہے
فاضل جج کی ایک اوربات جو سخت غلط فہمی پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’امام بخاریؒ نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے صرف
یہ ۹ نکات ہم نے فاضل جج کے اپنے الفاظ میں، ان کی اپنی ترتیب کے ساتھ نقل کر دیے ہیں۔ اب ہم ان کا
اس کے بعد پیراگراف ۲۵ میں فاضل جج وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بِنا پر ان کے نزدیک احادیث ناقابل اعتماد بھی ہیں،
اس کے بعد فاضل جج امام ابوحنیفہؒ کے مسلک سے استناد فرماتے ہیں ان کاارشاد ہے:مگر ابوحنیفہؒ نے، جو ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور جن
اس اصولی بحث کے بعد پیراگراف ۲۴ میں فاضل جج یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ خلفائے راشدین نے اگر اپنے دور حکومت میں سُنّت کا
فاضل جج کا ارشاد ہے کہ زیادہ سے زیادہ جو فائدہ حضورﷺ کے اقوال وافعال اور کردار سے اُٹھایا جا سکتا ہے وہ صرف یہ
حضورﷺ کے اتباع کا جو حکم قرآن میں دیا گیا ہے اس کو فاضل جج اس معنی میں لیتے ہیں کہ ’’ہم بھی ویسے ہی
فاضل جج فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے کوئی گناہ نہیں کیا مگر وہ غلطیاں کر سکتے تھے اور یہ حقیقت
پھر فاضل موصوف کا یہ ارشاد شدت کے ساتھ نظر ثانی کا محتاج ہے کہ رسول اللّٰہﷺ ’’ماسوا اس وحی کے جو ان کے پاس
فاضل جج کا یہ ارشاد لفظاً بالکل صحیح ہے کہ رسول کریم ﷺ ’’مسلمانوں کو اس سے زیادہ کوئی چیز نہ دے سکتے تھے جو
ہم بڑے ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ درحقیقت ان تمام عبارتوں میں خلط مبحث زیادہ اور اصل مسئلہ زیر بحث سے تعرض بہت
یہ اندازِ بحث محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ پیرا گراف ۲۱ سے جو بحث شروع ہوتی ہے اس کو پڑھ کر معلوم ہو جاتا ہے
آخری نمونۂ اجتہاد فاضل جج نے ایسے بچوں کی حضانت کے مسئلے میں کرکے بتایا ہے جن کی مائیں اپنے شوہروں سے جدا ہو چکی
اس کے بعد فاضل جج نے سورۂ مائدہ کی آیت ۳۸۔۳۹ کو لیا ہے اور اس میں بطور نمونہ یہ اجتہاد کرکے بتایا ہے کہ
دوسری آیت جسے سورۂ نسا کی آیت نمبر ۳ کے ساتھ ملا کر پڑھنے اور اس سے ایک حکم نکالنے کی فاضل جج نے کوشش
پھر فاضل جج فرماتے ہیں:اس آیت کو قرآن کی دوسری دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی آیت سورۂ نور
تیسری بات فاضل جج یہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیوں
دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ’’از راہ قیاس ایسی شادی کو (یعنی ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ شادی کو )یتیموں کے فائدے
تعجب ہے کہ فاضل جج کو اپنے ان دونوں فقروں میں تضاد کیوں نہ محسوس ہوا۔ پہلے فقرے میں جو اصولی بات انھوں نے خود
اس کے بعد پیراگراف ص ۲۵۶ میں فاضل جج نے خود قرآن مجید کی بعض آیات کی تعبیر کرکے اپنے اجتہاد کے چند نمونے پیش
اوپر کے تیرہ فقروں میں ہم نے اپنی حد تک پوری کوشش کی ہے کہ فاضل جج کے تمام بنیادی نظریات کا ایک صحیح خلاصہ
اس کے بعد پیرا گراف ص ۲۶۱ تک فاضل جج نے اِسلامی قانون کے متعلق اپنے کچھ تصورات بیان فرمائے ہیں جو علی الترتیب حسب
اب ہم اس فیصلے کے اصولی مباحث پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں جیسا کہ اس کے مطالعے سے ناظرین کے سامنے آ چکا ہے۔ یہ
اس سلسلے میں قبل اس کے کہ ہم اصل فیصلے پر تبصرہ شروع کریں، دو اصولی سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں:۱۔ پہلا سوال عدالت کے
از:ابو الاعلیٰ مودودیکچھ مدت سے ہمارے بعض حاکمانِ عدالت کی تقریروں اور تحریروں میں سُنّت کی صحت پر شکوک کے اظہار اور اس کو اِسلامی
ترجمہ : از ملک غلام علی صاحبجناب جسٹس محمد شفیع صاحب، جج مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جس فیصلے کے بیش تر حصے کا ترجمہ
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ ’’احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے جن سُنّتوں کی شہادت ملتی ہے، ان کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک قسم
اعتراض: آپ کہتے ہیں کہ ’’عربی زبان میں وحی کے معنی اشارۂ لطیف کے ہیں۔‘‘ سوال ’’وحی‘‘ کے لغوی معنی کے متعلق نہیں، سوال اس
اعتراض: آپ نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ’’وحی لازمًا الفاظ کی صورت میں ہی نہیں ہوتی، وہ ایک خیال کی شکل میں بھی
اعتراض: آخر کی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ:اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَالانفال 9:8جب تم اپنے رب
اعتراض: چھٹی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے:وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ
اعتراض: پانچویں آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ حضورﷺ نے جب بنی نضیر کے خلاف فوج کشی کی تو اس وقت گرد وپیش
اعتراض: آپ پوچھتے ہیں کہ اللّٰہ نے نبی اکرم ﷺ کو جو حکم دیا تھا کہ تم زید کی بیوی سے نکاح کر لو تو
اعتراض: سورۂ تحریم کی آیت آپ نے یوں پیش کی ہے:نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔
اعتراض: آپ نے تو یہاں تک دردیدہ دہنی سے کام لیا ہے کہ یہ کہتے ہوئے بھی نہ شرمائے کہ جب تک حکومت حاصل نہیں
اعتراض:آپ کے بیان سے حضورﷺ پر جھوٹ کا جو الزام آتا ہے یہ آپ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ آپ تو اپنے جھوٹوں
اعتراض: جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضورﷺکو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ یہ معاملہ آخر تک یوں ہو گا تو پھر صحابہؓ کے دریافت کرنے
اعتراض: جو واقعہ آپ نے شروع سے آخر تک لکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ (۱)رسول اللّٰہﷺ کو شروع ہی سے اللّٰہ کی
اعتراض: آپ نے لکھا ہے:رسول اللّٰہ ﷺ مدینے میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللّٰہ کا طواف کیا
اعتراض: آپ نے اپنے ترجمے کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضورؐ کا یہ خواب بھی از قبیلِ وحی تھا۔
اعتراض: دوسری آیت آپ نے یہ پیش کی ہے :لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۰ۙ
اعتراض: یہ بات کہ اس نئے قبلے کا حکم ہی خدا کی طرف سے آیا تھا، پہلے قبلے کا نہیں، دو ہی آیات کے بعد
اعتراض: اگر تسلیم کیا جائے کہ پہلا قبلہ خدا نے مقرر کیا تھا تو اس ٹکڑے کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے کہ ’’ہم نے
اعتراض: آپ نے تحویل قبلہ والی آیت اور اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ
اعتراض: آگے چل کر آپ فرماتے ہیں ’’پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی۔‘‘
سوال: آپ فرماتے ہیں:پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا بھی ذکر کرتا ہے جو اللّٰہ نے کتاب کے ساتھ نازل کی ہے، اور وہ
اعتراض: قرآن ہی کے حکمت ہونے کے تمام دلائل سے بڑھ کر وہ دلیل ہے جو سورۂ احزاب کی اس آیت میں موجود ہے جسے
اعتراض: آپ نے یہ دلیل دی ہے کہ خدا نے ’’کتاب وحکمت‘‘ دونوں کو منزّل من اللّٰہ کہا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور
اعتراض: آپ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں صرف وہی وحی درج ہے جو حضرت جبریل کی وساطت سے حضورﷺ پر نازل ہوئی تھی۔
اعتراض: جو وحی انبیائے کرام کو ملتی تھی اس کی مختلف قسموں کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ نہ ہی قرآن میں کہیں یہ
اعتراض: آپ نے وحی خداوندی کی مختلف اقسام کے ثبوت میں سورۃ الشورٰی کی آیت ۵۱ پیش فرمائی ہے اس کا ترجمہ آپ نے یہ
اعتراض: ساری بحث کا مدار اس سوال پر ہے کہ کیا رسول اللّٰہ ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ ساری کی ساری قرآن
اعتراض: ایک سوال یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سُنّت قرآنی احکام واصول کی تشریح ہے یا وہ قرآنی احکام کی فہرست میں اضافہ بھی
اعتراض: اس کے تو آپ خود بھی قائل ہیں کہ شریعت کا ایک حتمی فیصلہ بھی حالات کے سازگار ہونے تک ملتوی رکھا جا سکتا
اعتراض: آپ نے میری اس بات کا بھی مذاق اڑایا ہے کہ قرآن کے جو احکام بعض شرائط سے مشروط ہوں جب وہ شرائط باقی
اعتراض: رسول اللّٰہﷺ نے لوگوں کے وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے انھیں خدمات کی نسبت سے بدل دیا۔ یہ اور اس
اعتراض: نبی اکرم ﷺکے زمانے میں مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ لیکن حضرت عمرؓنے اپنے عہد میں اس سسٹم کو ختم
اعتراض: حضورﷺ کے زمانے میں مؤلفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے امداد دی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں اسے ختم کر
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ میں کوئی مثال پیش کروں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے کے کسی فیصلے کو خلفائے راشدین نے بدلا ہو۔
اعتراض: میں نے لکھا تھا کہ کئی ایسے فیصلے جو رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں ہوئے لیکن حضورﷺ کے بعد جب تغیراتِ حالات کا
اعتراض:آپ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی نبوت کی پوری زندگی میں جو کچھ کیا، یا فرمایا وہ وحی کی بِنا پر تھا لیکن دجال
اعتراض: اگر حضورﷺ کی ہر بات وحی پر مبنی ہوتی تھی تو حضورﷺ کی ایک لغزش بھی دین کے سارے نظام کو درہم برہم کرنے
اعتراض: آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضورﷺ سے صرف چند لغزشیں ہوئی تھیں۔ یعنی آپ کا خیال یہ ہے کہ اگر حضورﷺ سے زیادہ
اعتراض: آپ کے دعوے کے مطابق حضورﷺ کا ہر فیصلہ وحی پر مبنی ہونا چاہیے، لیکن آپ کو خود اس کا اعتراف ہے کہ آپ
اعتراض: آپ نے لکھا ہے کہ ’’کیا آپ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں قرآن کے کسی حصے کی تعبیر
اعتراض: اگر بحیثیت صدر ریاست رسول اللّٰہ ﷺ کا ہر حکم وحی پر مبنی ہوتا تھا تو پھر آپ کو مشورے کا حکم کیوں دیا
اعتراض: یہ جو میں نے کہا ہے کہ ’’خدا اور رسول‘‘ سے مراد اِسلامی نظام ہے تو یہ میری اختراع نہیں۔ اس کے مجرم آپ
اعتراض: نزول قرآن کے وقت دُنیا میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبے بن گئے تھے۔ مذہبی امور میں مذہبی پیشوائوں کی اطاعت ہوتی
اعتراض: آپ نے ترجمان القرآن کے متعدد اوراق اس بحث میں ضائع کر دیے کہ حضور ﷺ کو اِسلامی ریاست کا صدر یا مسلمانوں کا
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ سُننِ ثابتہ کے اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے (پاکستان میں صحیح اِسلامی آئین کے مطابق) قانون سازی کے مسئلے کا
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں۔ پھر بھی ان کا کام کیسے چل رہا ہے۔ کیا آپ کو
اعتراض: قرآن کے متن سے احکام اخذ کرنے میں اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب دین ایک اجتماعی نظام کی جگہ انفرادی چیز بن گیا۔
اعتراض: متن اور اس کی تعبیرات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ قرآن کریم کے متن میں کسی ایک حرف کے متعلق بھی شک و شبہے
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر سُنّت کے متن میں اس قدر اختلافات ہیں تو قرآن کی تعبیر میں بھی تو بے شمار اختلافات ہو
اعتراض:اگر آپ یہ کہیں کہ حدیث پر مبنی اختلافات جزئیات کے معمولی اختلافات ہیں، ان سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو میں پوچھنا
اعتراض:آپ فرماتے ہیں کہ سُنّت کے محفوظ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وضو، پنج وقتہ نماز، اذان، عیدین کی نمازیں، نکاح وطلاق ووراثت کے
اعتراض:احادیث کے ’’طریقِ حفاظت‘‘ کی کم زوری کے تو آپ خود بھی قائل ہیں جب آپ لکھتے ہیں:بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم
اعتراض: قرآن کے متعلق تو اللّٰہ تعالیٰ نے شروع میں ہی یہ کہہ دیا کہ ذَالِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہ ِکہ اس کتاب میں شک وشبہے
اعتراض: وحی کا دوسرا حصہ، جس کی حفاظت کے متعلق آپ اب فرماتے ہیں کہ ’’اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کار فرما
اعتراض: اگر وحی منزَّل من اللّٰہ کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وحی متلو یا وحی جلی اور دوسری وحی غیر متلو یا وحی خفی، تو
اعتراض: اگر حضور ﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت اور شخصی حیثیت میں فرق کیا جائے تو لازمًا اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان
اعتراض: ایک طرف آپ تفہیمات میں فرماتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق براہِ راست دین اور شریعت سے ہے
اعتراض: جن باتوں کے متعلق آپ تسلیم کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے انھیں بحیثیت رسولﷺ ارشاد فرمایا یا کیا تھا، ان کے اتباع میں
اعتراض:اپنی کتاب تفہیمات میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ قرآن میں کہیں کوئی خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بِنا
اعتراض: آپ لکھتے ہیں کہآپ نے یہ مراسلت واقعی بات سمجھنے کے لیے کی ہوتی تو سیدھی بات سیدھی طرح آپ کی سمجھ میں آ
اعتراض:’’آپ نے خط وکتابت کی ابتدا میں مجھے بزم طلوع اِسلام کا نمایاں فرد قرار دیا تھا۔ اس پر میں نے آپ کو لکھا تھا
پچھلی مراسلت کے بعد ڈاکٹر عبدالودود صاحب کا جو طویل خط وصول ہوا تھا، اسے رسالہ ترجمان القرآن کے منصب رسالت نمبر میں شائع کیاجا
آپ کا آٹھواں سوال یہ ہے:رسول اللّٰہ (ﷺ) نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں کیا کسی زمانے
آپ کا ساتواں سوال یہ ہے:’’اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق یہ کہہ دے کہ وہ ’’منزل من اللّٰہ‘‘ نہیں ہے
آپ کا چھٹا سوال یہ ہے:’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعض ارشادات وحی الٰہی تھے اور بعض وحی نہ تھے تو آپ فرمائیں
آپ کا چوتھا سوال یہ ہے:قرآن کے لفظ کی جگہ عربی کا دوسرا لفظ جو اس کے مرادفُ المعنیٰ ہو، رکھ دیا جائے تو کیا
آپ کا تیسرا سوال یہ ہے:وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا نے
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ:قرآن نے جہاں مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورۂ
آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ :جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے
محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ!عنایت نامہ مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۶۰ء کو ملا۔ کچھ خرابیٔ صحت اور کچھ مصروفیت کے باعث جواب ذرا تاخیر سے دے
صفحاتِ گزشتہ میں ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے سامنے آچکی ہے، اس کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور
اب صرف آپ کا آخری نکتہ باقی ہے جسے آپ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:اگر فرض کر لیا جائے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں
آ پ کا نکتہ نمبر ۹ یہ ہے:حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی الکتاب کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد
آٹھویں نکتے میں آپ فرماتے ہیں کہ:اگر حضورﷺ نے یہ سارا کام بشر (یعنی ایک عام غیر معصوم بشر)کی حیثیت سے نہیں، بلکہ نبیﷺ کی
ساتواں نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ حضور ﷺ نظام مملکت کی سرانجام دہی میں ایک بشرکی حیثیت
آپ کا چھٹا نکتہ آپ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضورﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی
پانچواں نکتہ آپ یہ ارشاد فرماتے ہیں:چوں کہ دین کا تقاضا یہ تھا کہ کتاب پر عمل اجتماعی شکل میں ہو، اور یہ ہو نہیں
آپ کا چوتھا نکتہ آپ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ:ان تمام اعمال میں جو حضور ﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کیے
تیسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ سُنّتِ رسولﷺ کا اتباع یہ ہے کہ جو کام حضورﷺ نے کیا، وہی ہم کریں، نہ
دوسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں ہے کہ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں حضورﷺ نے جو کچھ
آپ کی عقل وضمیر سے یہ مخلصانہ اپیل کرنے کے بعد اب میں آپ کے پیش کردہ خیالات کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ آپ
محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہعنایت نامہ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۶۰ ء ملا۔ اس تازہ عنایت نامے میں آپ نے اپنے پیش کردہ ابتدائی چار
مولانایٔ محترم! السلام علیکمآپ کا خط مورخہ ۸ ؍اگست ملا۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد بات ذرا اطمینان سے ہو سکے گی۔ آپ
صحیح اور غلط تصوّر کا فرقصفحاتِ گزشتہ میں سُنّت کی آئینی حیثیت کے متعلق ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے ملاحظے
آخری بات مجھے یہ عرض کرنی ہے کہ اپنے پہلے عنایت نامے کو آپ نے اس فقرے پر ختم فرمایا تھا:چوں کہ آئین کے سلسلے
چوتھا نکتہ جو آپ نے خلاصے کے طور پر میرے مضامین سے نکالا ہے، یہ ہے:احادیث کے اس طرح پرکھنے کے بعد بھی یہ نہیں
یہ جن عبارتوں کا عجیب اور انتہائی مسخ شدہ خلاصہ آپ نے نکالا ہے انھیں میں لفظ بلفظ یہاں نقل کیے دیتا ہوں تاکہ جو
آپ کا اخذ کردہ تیسرا نکتہ یہ ہے:آپ نے فرمایا ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے صحیح احادیث کو الگ کیا جائے گا۔ اس
دوسرا نکتہ جو آپ نے میرے ان مضامین سے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے:آپ نے فرمایا ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں کہ جس
اسی سلسلے میں آپ نے ایک اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ’’نہ سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘ یہ بات
ب۔یہ نتیجہ آپ نے بالکل غلط نکالا ہے کہ سُنّت قرآنی احکام واصول کی شارح اس معنی میں ہے کہ ’’وہ قرآن کے علاوہ دین
الف۔ یہ بات مسلمات شریعت میں ہے کہ سُنّت واجب الاتباع صرف وہی اقوال وافعال رسولa ہیں جو حضورa نے رسولa کی حیثیت سے کیے
یہ خلاصہ جو آپ نے میرے کلام سے نکالا ہے اس کا پہلا جز ہی غلط ہے۔ میرے ان مضامین میں، جن سے آپ یہ
آپ نے یہ فرمایا ہے کہ :نبی اکرم a نے ۲۳ برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن مجید کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا،
اس کے بعد آپ مجھے یہ یقین دلا کر کہ اس مراسلت سے آپ کا مقصد مناظرہ بازی نہیں بلکہ بات کا سمجھنا ہے، میرے
اس کے بعد میں آپ کے دوسرے عنایت نامے کو لیتا ہوں۔ اس میں آپ شکایت فرماتے ہیں کہ آپ کے پہلے خط کے جواب
اس کے علاوہ میری مذکورۂ بالا عبارات میں چند امور اور بھی ہیں جن سے آپ نے صرفِ نظر کرکے اصل مسائل سے پیچھا چھڑانے
آپ کا تیسرا سوال یہ تھا:کیا سُنّت رسول اللّٰہa کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ اور شک وتنقید
آپ کا دوسرا سوال یہ تھا:کیا قرآن کی طرح ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سُنّتِ رسول اللّٰہa مرتب شکل میں موجود
آپ نے چار سوالات اس بِنا پر اُٹھائے تھے کہ ہم نے آئین کمیشن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ’’اِسلامی آئین کی اساس کے
محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہآپ کا عنایت نامہ مورخہ ۲۴؍مئی ۶۰ء ڈاک سے مل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ ۲۸؍ مئی
مولانائے محترم! زید مجدکمالسلام علیکم۔ گرامی نامہ ملا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے اس کا علم ہے کہ اس قسم
مکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہعنایت نامہ مورخہ ۲۱؍ مئی ۱۹۶۰ء وصول ہوا۔ آپ نے جو سوالات کیے ہیں۔ وہ آج پہلی مرتبہ آپ نے پیش
مخدوم ومحترم مولانا! دام ظلکمالسلام علیکم۔ دستوری تدوین کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سچے مسلمان کی دینی امنگوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے
ایک اَہم مراسلتذیل میں وہ مراسلت درج کی جا رہی ہے جو بزم طلوع اِسلام کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف
انکارِ سُنّت کا فتنہ اِسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔
کتاب کی تدوین میں بہتری کے لیے زیر نظر اشاعت میں ذیل کی تبدیلیاں کی گئی ہیں:۱۔ کچھ آیات قرآنی کے تراجم، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اس کتاب کے مضامین اس سے پہلے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے خاص نمبر (منصبِ رسالت نمبر،ستمبر۱۹۶۱ء) میں شائع ہو چکے ہیں۔ اب ہم انھی
یہ ہے وہ نقطہ عدل اورمقامِ توسط جس کی دنیا اپنی ترقی اور خوش حالی، اخلاقی امن کے لیے محتاج اور سخت محتاج ہے۔ جیسا
لباس اور ستر کے حدود مقرر کرنے کے بعد آخری حکم جو عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے:وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ
قرآن مجید کی جن آیات میں پردہ کے احکام بیان ہوئے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۰ۭ
۱۔ اساسی نظریاتیہ بات اسلام کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے قانون کی حکمت پر بھی خود ہی روشنی ڈالتا ہے۔ معاشرت میں
گزشتہ صفحات میں خالص علمی تحقیق اور سائنٹیفک مشاہدات و تجربات کی مدد سے ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسانی
فطرت نے تمام انواع کی طرح انسان کو بھی ’’زوجین‘‘ یعنی دو ایسی صنفوں کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ایک دوسرے کی جانب
ہمارے ملک میں اور اسی طرح دوسرے مشرقی ممالک میں بھی جو لوگ پردے کی مخالفت کرتے ہیں ان کے سامنے دراصل زندگی کا یہی
۱۔امریکاہم نے محض تاریخی بیان کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے فرانس کے نظریات اور فرانس ہی کے نتائج بیان کیے ہیں۔ لیکن یہ گمان
لٹریچر پیش قدمی کرتا ہے۔ رائے عام اس کے پیچھے آتی ہے۔ آخر میں اجتماعی اَخلاق، سوسائٹی کے ضوابط اور حکومت کے قوانین سب سپر
پردے کی مخالفت جن وجوہ سے کی جاتی ہے وہ محض سلبی نوعیت ہی کے نہیں ہیں بلکہ دراصل ایک ثبوتی و ایجابی بنیاد پر
اِفراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان
یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ تاریخ سے اس کی مثالیں زیادہ تفصیل کے ساتھ دی جا سکیں مگر توضیحِ مدعا کے لیے دو چارمثالیں
انسانی تمدن کے سب سے مقدم اور سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلے دو ہیں۔ جن کے صحیح اور متوازن حل پر انسان کی فلاح و
الحمد للہ! ’’پردہ‘‘ کا جدید اڈیشن شائع ہوگیا ہے۔ جس کو درج ذیل خوبیوں سے مزین کرنے کی کوشش کی گئی ہے:۱۔ حوالہ جات کی
پردے کے مسئلے پر اب سے چار سال پہلے مَیں نے ایک سلسلہ مضامین لکھا تھا جو ’’ترجمان القرآن‘‘ کے کئی نمبروں میں شائع ہوا
مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہلِ مشرق کی عمومًا اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصًا جس طرح خیرہ کیا ہے وہ
اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے‘ نہ وہ محض چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اوررسموں کا مجموعہ ہے‘ بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک
یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلسِ اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس
مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت
دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان و رُ خَّج ({ FR 980 })کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل
ہماری روز مرہ کی بول چال میں بعض ایسے الفاظ اور فقرے رائج ہیں جن کو بولتا تو ہر شخص ہے‘مگر سمجھتے بہت کم ہیں۔
اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے
قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں
قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے:ایک: طبقہ عوامدوسرا: طبقہ خواص۔طبقۂ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے
اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے، لیکن دونوں کے محرکات اورطریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا
مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس (منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء) میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصے
ماہ جون ۱۹۳۳ء کے نگار میں حضرت نیاز فتح پوری نے ترجمان القرآن پر ایک مفصل تبصرہ فرمایا ہے جس کے لیے میں ان کا
عقلیت (rationalism) اور فطریت (naturalism) یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زور شور سے دے رہی ہے۔
اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا
خطباتِ خالدہ ادیب خانمترکی کی مشہور فاضل و مجاہد خاتون خالدہ ادیب خانم اب سے کچھ مدت قبل جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر ہندستان تشریف
جنوری(۱۹۳۸ئ) کے آخری ہفتے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کانووکیشن (جلسہ تقسیم اسناد) کے موقع پر لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیا ہے‘ وہ درحقیقت
سیاست‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور علوم و فنون کے میدانوں میں مغربی قوموں کے حیرت انگیز اقدامات کو دیکھ کر دل اور دماغ سخت
گزشتہ ماہ دسمبر ۱۹۳۳ء کی ابتدا میں امریکہ کے قانونِ تحریمِ خمر({ FR 1026 }) (prohibition law) کی تنسیخ کا باقاعدہ اعلان ہوگیا اور تقریباً
مشرق ہو یا مغرب‘ مسلمان ہو یا غیر مسلم‘ بلا اِستثنا({ FR 1016 }) سب ایک ہی مصیبت میں گرفتار ہیں‘ اور وہ یہ ہے
دنیائے اسلام کا بیش تر حصہ اُن ممالک پر مشتمل ہے جو صدرِ اوّل({ FR 1008 }) کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے ہیں۔
حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و استیلا({ FR 997 }) کی دو قسمیں ہیں:٭ ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ٭ دوسرا سیاسی اور مادی غلبہپہلی
تجدید و احیائے دین اور قیامِ نظامِ اسلامی کے مقصد کے پیش نظر بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں متکلم اسلام اور مسلم
اس مجموعے میں وہ چھوٹے چھوٹے مضامین یک جا کر دیے گئے ہیں جو میں نے اسلام اور مغربی تہذیب کے تصادم سے پیدا شدہ
سوال: چند حضرات نے جو نہایت دین دار و مخلص ہیں، تجدید و احیائے دین کی ان سطور کے متعلق جو آپ نے امام مہدی
سوال: ’’ظہور مہدی کے متعلق آپ نے رسالہ تجدید و احیائے دین میں جو کچھ لکھا ہے اس میں اختلاف کا پہلو یہ ہے کہ
سوال: آپ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ آپ دراصل خود مجددیا مہدی ہونے کے مدعی ہیں، یا درپردہ اپنے آپ کو مجدد
سوال: ’’میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی
سوال: ’’آپ نے اپنے رسالہ ترجمان القرآن بابت ماہ جنوری،فروری ۱۹۵۱ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ:’’پچھلے زمانہ کے بعض
سوال : ’’کتاب ’’تجدید واحیائے دین ‘‘ جس قدر بلند پایہ ہے اس کا اندازہ تو ’’ کارِ تجدید کی نوعیت‘‘ کے عنوان سے تحریر
جیسا کہ دیباچہ طبع پنجم میں عرض کیا جا چکا ہے، اس کتاب کے ساتھ یہ ضمیمہ اس غرض کے لیے لگایا جا رہا ہے
اس آخری مجددانہ تحریک کی ناکامی کے اسباب پر بحث کرنا عموماً ان حضرات کے مذاق کے خلاف ہے جو بزرگوں کا ذکر عقیدت ہی
یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ کھڑی
نظام اسلامی کے اس قدر معقول اور اتنے مرتب خاکے کا پیش ہو جانا بجائے خود اس امر کی پوری ضمانت ہے کہ وہ تمام
تعمیر کے سلسلہ میں ان کا پہلا اہم کام یہ ہے کہ وہ فقہ میں ایک نہایت معتدل مسلک پیش کرتے ہیں جس میں ایک
پہلے عنوان کے سلسلہ میں شاہ صاحب نے پوری تاریخ اِسلام پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، شاہ صاحب پہلے شخص
حضرت مجدد الف ثانی ؒکی وفات کے بعد اور عالم گیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے نواحِ دہلی میں شاہ ولی اللّٰہ صاحب
ساتویں صدی میں فتنہ تاتار نے ہندوکش سے اُس پار کی دُنیا کو تو بالکل تاخت و تاراج کر دیا، مگر ہندوستان اس کی دست
امام غزالی ؒکے ڈیڑھ سو برس بعد ساتویں صدی کے نصف آخر میں امام ابن تیمیہؒپیدا ہوئے۔({ FR 6716 }) یہ وہ زمانہ تھا کہ
عمر بن عبدالعزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیّت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور
عمر ؒثانی کی وفات کے بعد اگرچہ سیاسی اقتدار کی کنجیاں پھر اِسلام سے جاہلیّت کی طرف منتقل ہو گئیں اور سیاسی پہلو میں اس
اِسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبدالعزیز ہیں۔({ FR 6711 }) شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالا تو اپنے باپ کو مصر
تاریخی ترتیب کو چھوڑ کر مستقبل کے مجددِ اعظم کا ذکر مَیں نے پہلے اس لیے کر دیا کہ لوگ پہلے مجدد کامل کے مرتبہ
مسلمانوں میں جو لوگ الامام المہدی کی آمد کے قائل ہیں وہ بھی ان متجد دین سے جو اس کے قائل نہیں ہیں، اپنی غلط
لیکن وہ بنیادی چیز جو مجدد کو نبی سے جدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ نبی اپنے منصب پر ا مرِ تشریعی سے مامور
مجدد نبی نہیں ہوتا مگر اپنے مزاج میں مزاجِ نبوت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ نہایت صاف دماغ ، حقیقت رس نظر ، ہر قسم
اب قبل اس کے کہ ہم مجدّدینِ اُمت کے کارناموں کا جائزہ لیں ہمیں خود اس کار تجدید کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔تجدُّد اور
یہی وہ چیز ہے جس کی خبر مخبر صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث میں دی ہے جو ابو دائود میں حضرت ابو ہریرہؓ
انھی تینوں اقسام کی جاہلیتوں کے ہجوم سے اِسلام کو نکالنا اور پھر سے چمکا دینا وہ کام تھا جس کے لیے دین کو مجددین
مگر ایک طرف حکومت اسلامی کی تیز رفتار وسعت کی وجہ سے کام روزبروز زیادہ سخت ہوتا جا رہا تھا اور دوسری طرف حضرت عثمان
خاتم النبیین سیّدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ سارا کام ۲۳ سال کی مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا۔ آپ کے بعد
فی الجملہ تمام انبیا کے کام پر مجموعی حیثیت سے جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اس کام کی نوعیت یہ پائی جاتی ہے:۱۔ عام
اسی تہذیب و تمدن کو دُنیا میں قائم کرنے کے لیے انبیا علیہم السلام پے در پے بھیجے گئے تھے۔رہبانی تہذیب کو مستثنیٰ کرکے ہر
چوتھا مابعدالطبیعی نظریہ وہ ہے جسے انبیا علیہم السلام نے پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:یہ سارا عالم ہست و بودجو ہمارے گرد
تیسرا مابعدالطبیعی نظریہ رہبانیت پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دُنیا اور یہ جسمانی وجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب
دوسرا مابعدالطبیعی نظریہ شرک کے اصول پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام اتفاقی تو نہیں ہے اور نہ
ان میں سے پہلے نظریے کو ہم جاہلیّتِ خالصہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے:کائنات کا یہ سارا نظام ایک اِتفاقی
جزئیات و فروع سے قطع نظر، اُصولی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو انسان اور کائنات کے متعلق چار مابعدالطبیعی نظریے قائم ہو سکتے ہیں
دُنیا میں انسان کی زِندگی کے لیے جو نظام نامہ بھی بنایا جائے گا اس کی ابتدا لا محالہ بعدالطبیعی یا الٰہیاتی مسائل سے ہو
حال میں اس کتاب کو فتنہ جو حضرات نے خاص طور پر اپنی عنایات کا ہدف بنایا ہے۔ اس لیے مَیں نے نظرثانی کرکے اس
اِسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’’مجدّد‘‘ بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب کی یہ بلند پایہ تالیف فنِ تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے نازک مسئلہ
اسلامی ریاستبدعنوانی اور آمریت سے بچنے کا [واحد]ذریعہ ہے۔برطانوی کیتھولک راہبہ کیرن آرمسٹرانگ (karen Armstrong) کا اِعترافاسلامی نظامِ حکومت کے متعلق اِس اِعتراف کا اِظہارکرنے
پاکستان کے ۳۱ معتمد علمائے کرام کامتفقہ فیصلہ ۱۲تا ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ۔ مطابق ۲۱تا ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء کو کراچی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے
اس مقالےمیں مجھے آپ کے سامنے اس عمل (process)کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجے کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی
آخر میں ہم مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ مقالہ دے رہے ہیںجو موصوف نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں انجمن اسلامی تاریخ
(قرآن کی روشنی میں) ۱۔ حکومت کا مقصدقرآن کی نگاہ میں حکومت کا مقصد نیکی‘ انصاف اور قانونِ الٰہی کا قیام ہے:اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي
اس حصے کا آخری مضمون: اسلامی ریاست کے رہنما اصول ہے۔ یہ مضمون مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ان حواشی سے مرتب کیا گیا
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد
اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عدلِ اجتماعی اور کفالت ِ عامہ کا نظام قائم کرے اوراپنے حدود میں رہنے والے ہر متنفس
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک اصولی
دستوری مسائل میں سب سے پیچیدہ مسئلہ اقلیتوں کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے
جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے‘ انسان کے بنیادی حقوق کا تصور ہمارے لیے کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے لوگوں
ایک مدت سے سوال زیر بحث ہے کہ آیا اسلام نے کچھ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی ہے یا نہیں۔ جو لوگ صرف مغرب
تعبیر ِ دستور کا حق۲۱۷؎سوال: دستور کی تعبیر کا حق کس کو ہونا چاہیے؟ مقننہ کو یا عدلیہ کو؟ سابق دستور میں یہ حق عدلیہ
سوال: اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو‘ مثلاً عیسائی‘ یہودی‘ بدھ‘ جین‘ پارسی‘ ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟
سوال: میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔ سال گذشتہ صوبے کی ہندو مہاسبھا کا پروپیگنڈا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب
مجالسِ قانون ساز میں عورتوں کی شرکت کا مسئلہ۲۰۷؎ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں
یہ ایک سوال نامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے۔
لادینی جمہوریت‘ تھیاکریسی اور اسلامی ریاستاسلامی ریاست‘ جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے‘ نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (theocracy)
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ان مختلف دستوری‘ سیاسی (نظری) مسائل پر وقتاً فوقتاً روشنی ڈالی ہے جو ملک میں دستوری بحث کے دوران
سوال: قرآن مجید میں ارشاد ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ
پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے مطالبے سے اسلامی قانون سازی کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک
اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل کیا ہے اور اس میں اجتہاد کا کیا مقام ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ
جنوری ۱۹۵۸ء میں لاہور میں بین الاقوامی اسلامی مجلس مذاکرہ کا اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں مغربی مستشرقین اور اسلامی دنیا کے مفکرین نے
یہ ہیں وہ اصول حکمرانی جن پر دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حکومت کا نظام قائم ہوا اور چلا‘ نبی اکرم صلی
ظہور اسلام کے ساتھ جو مسلم معاشرہ وجود میں آیا اور پھر ہجرت کے بعد سیاسی طاقت حاصل کرکے جس ریاست کی شکل اس نے
پچھلے ابواب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں مختلف پہلوئوں سے بحث ہو چکی ہے۔ اب اس مثالی دور کا ایک نظری
٭ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِo الذاریات19:51ان کے مالوں میں حق تھا مدد مانگنے والے کے لیے اور رزق سے محروم رہ جانے والے کے
۱۔ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ النساء58:4اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ الحج41:22(یہ مسلمان وہ لوگ ہیں) جن کو اگر ہم زمین میں
۱۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ النساء34:4مرد عورتوں پر قوام ہیں۔۲۔ لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً۔ (بخاری)وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملات
رئیس حکومت‘ وزراء‘ اہلِ شوریٰ اور حکام کے انتخاب میں کیا امور ملحوظ رہنے چاہییں‘ اس باب میں قرآن و سنت کی ہدایات یہ ہیں:۱۔
اجتماعی خلافت کے مذکورہ بالا تقاضے کو قرآن ان الفاظ میں واضح طور پر بیان کرتا ہے:وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۰۠ الشوریٰ38:42اور ان کاکام آپس کے مشورے
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ النور55:24اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم
انبیاء علیہم السلام بالعموم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص اللہ تعالیٰ کی اس سیاسی اور قانونی حاکمیت کے مظہر ہیں۔ یعنی اللہ کی
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یوسف40:12حکم نہیں ہے مگر صرف اللہ کے لیے، اس کا فرمان ہے کہ
اس وقت جب کہ ملک کے دستور کی ترتیب آخری مراحل میں ہے‘ اہلِ علم کا فرض ہے کہ دستور ساز اسمبلی کو ایک صحیح
یہ مقالہ ۱۹۵۲ء کے اواخر میں سپرد قلم کیا گیا تھا۔ اس وقت ایک مشہور وکیل اورصاحبِ قلم نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قرآن
ان حقوق کے مقابلے میں شہریوں پر ریاست کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے پہلا حق اطاعت کا ہے جس کے لیے
اس کے بعد مجھے بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (fundamental rights) کیا قراردیے گئے ہیں:۱۔ شہریوں کا اولین حق اسلام میں
اب شہریت کے مسئلے کو لیجیے۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا
یہ اوصاف (qualifications)کا سوال اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ حتیٰ کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دستور کے چلنے یا
ان بنیادی امور کی توضیح کے بعد ہمارے سامنے پانچواں سوال آتا ہے، یہ کہ جو ریاست ان بنیادوں پر تعمیر ہو اس کا نظام
اب اس مسئلے کو لے لیجیے کہ اسلام وہ کون سے بنیادی مقاصد (objectives)پیش کرتا ہے جن کے لیے ایک اسلامی ریاست کو کام کرنا
یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ ریاست کے مختلف اعضا (organs of the state)کے اختیارات اور حدود عمل کیا ہیں۔مجالسِ قانون
خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ
سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی ریاست کا دستور ’’حاکمیت‘‘ کا مقام کس کو دیتا ہے؟اس کا قطعی اور ناطق جواب قرآن
میں سب سے پہلے دستور و ریاست کے چند بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کو لے کر مختصراً یہ بتائوں گا کہ اسلام کے اصلی
۲۴ /نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلامی دستور کے موضوع پر ایک محفل مذاکرہ میں
ذیل میں جسٹس ایس اے رحمان صاحب کے ایک خط پر مصنف کا تبصرہ درج کیا جارہا ہے۔ وہ خط دراصل اس مراسلت کا ایک
چوتھا مآخذ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں کیے
تیسرا۹۱؎ مآخذ خلافتِ راشدہ کا تعامل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی اسٹیٹ کو خلفائے راشدین نے جس طرح چلایا، اس
دوسرا۸۵؎ ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید
اس کا سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہے۔ اسلام۸۰؎ کی اصطلاح میں ’کتاب‘ سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی رہنمائی کے لیے
اسلامی ریاست وہ ریاست ہے جو حاکمیتِ الٰہی اور خلافتِ علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام کو اس کے تمام تضمنات کے ساتھ قائم کرنے کی
کتاب کے اس دوسرے حصے میں ہم اسلامی ریاست کے بنیادی اصول اور اس کے نظام کار کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ اس سے
زمانۂ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’قوم‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت
وحشت ۵۶؎ سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اٹھتے ہی ضروری ہو جاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو،
تقسیم ملک سے پہلے متحدہ ہندستان کے سیاسی مباحث میں سب سے اہم مسئلہ قومیت کا تصور رہا ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے اپنا جداگانہ تصور
خلافت کی بحث میں سب سے پہلے ہم کو لغت عرب کی طرف رجوع کرکے یہ تحقیق کرنا چاہیے کہ کیا فی الواقع عربی زبان
اسلام کے سیاسی نظریے ہی میں نہیں، اُس کے پورے نظام حیات میں انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کو ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ پچھلے
مندرجہ بالا تصورِ حاکمیت و خلافت کا فطری اور منطقی تقاضا یہ ہے کہ اطاعت اور وفاداری کا مرجع بھی خالق اور اس کی ہدایات
اسلام کا تصور حاکمیت بہت صاف اور واضح ہے۔ خدا اس کائنات کا خالق ہے اور وہی اس کا حاکمِ اعلیٰ بھی۔ اقتدار اعلیٰ صرف
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ۔بنی اسرائیل17:80اور دعا کرو کہ پروردگار!مجھ کو جہاں
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۔ النور24:2زانی عورت
قرآن اس دنیا میں انسان کے صحیح مقام اور زندگی کے متعلق اس کے پورے نظریے کو ایک آیت میں بیان کرتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی
سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہونا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے، یا نہ لائے‘ مگر اس کتاب کو
علم سیاست کا اصل موضوع: فرد اور ریاست کے باہم تعلق کا مسئلہ ہے۔ اس علم کے چند بنیادی سوال یہ ہیں:۱۔ ریاست کی ضرورت
قرآن کریم اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جس میں خالقِ ارض و سما نے زندگی کے تمام بنیادی مسائل کے متعلق اپنی ہدایت مکمل
اب میں آپ کے سامنے اسلامی ریاست کی ترکیب اور اس کے طرز عمل کی تھوڑی سی تشریح کروں گا۔ یہ بات میں آپ سے
(الف) ایجابی اور ہمہ گیر ریاستان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جس ریاست کا تخیل پیش کررہا
ایک شخص بیک نظر ان خصوصیات کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ یہ مغربی طرز کی لادینی جمہوریت (secular democracy)نہیں ہے۔ اس لیے کہ
انبیاء علیہم السلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام مرتب کیا اس کا مرکز و محور‘ اس کی روح اور اس کا جوہر یہی
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اسلام محض چند منتشر خیالات اور منتشر طریق ہائے عمل کا مجموعہ نہیں ہے جس
ہندستان میں مسلمانوں کی جدید سیاسی بیداری اپنے جلو میں نت نئے مسائل لائی۔ ان میں سب سے زیادہ اہم یہ تھا کہ مستقبل میں
مسلمانوں کا سیاسی نظام کیا ہو؟ ہر مسلمان کی یہ دلی خواہش تھی اور ہے کہ اس کا اجتماعی نظام اسلام کی بنیادوں پر قائم
گذشتہ مضمون’سورۂ یوسف کے متعلق چند سوالات‘ کی اشاعت کے کچھ مدت بعد ایک مشہور بزرگ نے (جن کا اب انتقال ہو چکا ہے اور
ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب لکھتے ۱۷؎ ہیں سورۂ یوسف سے متعلق آپ کے فہم قرآنی سے مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔ قرآن کریم
اوپر کی بحث سے اسلامی ریاست کی ضرورت واضح ہو چکی ہے، لیکن چونکہ مختلف وجوہ سے دین و سیاست کی تفریق کے شیطانی فلسفے
ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے‘ اگر وہ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں،اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس غرض کے لیے بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مذہب کے اس جاہلی تصور
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصور یہ تھا کہ: زندگی کے بہت سے شعبوں
اسلام کے سیاسی نظام کے مطالعے میں جو سوال سب سے پہلے ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا تصور مذہب کیا
از: مرتبانسان نے اپنی اجتماعی زندگی کی ترتیب و تہذیب کے لیے جو ادارے قائم کیے ہیں ان میں ریاست کا ادارہ سب سے اہم
از: مصنفپچھلے بیس پچیس سال کے دوران میں، مجھے اسلام کے سیاسی نظام پر بہت کچھ لکھنے اور کہنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے
اب مَیں اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک شُبہ کو صاف کر دنیا ضروری سمجھتا ہوں جو غالباً آپ میں سے ہر ایک
صاحبو! اس معاملہ میں ایک اور پہلو بھی ہے جسے میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آدمی کو قابو میں رکھنے
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے ؟ میرے
آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوا اپنی زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔ذرا
صاحبو! یہاں صرف حق ہی کا سوال نہیں ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کیا انسان بادشاہی یا قانون سازی
آپ سوال کریں گے کہ اس واقعہ کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے؟ مَیں چند لفظوں میں اس کی تشریح کیے دیتاہوں۔ اگر کسی
صاحبو! یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دنیا کا پورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دنیا سے الگ نہیں ہیں بلکہ اس کے
اچھا اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی،خواہ
ہستی باری تعالیٰ صاحبو! اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دُکان ایسی ہے جس کا کوئی دُکان دار نہیں ہے، نہ
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم ہمہ جہت نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دین کا فہم بھی عطا فرمایا تھا اور اسے
اس سے بھی زیادہ ایک نرالا اعتراض یہ سننے میں آیا کہ ’’ تم نے بیت المال کیوں بنایا؟‘‘ اس قسم کے اعتراضات سن کر
ایک نرالا اعتراض یہاں یہ بھی سننے میں آیا کہ ’’جو شخص اس طرح جماعت کا سربراہِ کار چنا جائے، اُسے زکوٰۃ وصول کرنے کا
لیکن اسلام کے پورے نظام پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دین مسلمانوں کے ہر اجتماعی کام میں نظم
ہم سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنی جماعت کے لیڈر کے لیے ’’امیر‘‘ کا لفظ کیوں اختیار کیا ؟ امیر یا
ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمھیں یہی کام کرنا تھا تو ضرور کرتے، مگر تم نے ایک الگ جماعت، مستقل نام کے ساتھ
یہ ارکان، ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرتے ہیں، نہ اس بنا پر کہ امارت اُس کا کوئی ذاتی حق ہے، بلکہ اِس بنا
یہاں دعوت کسی شخص یا اشخاص کی طرف نہیں ہے، بلکہ اُس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رُو سے ہر مسلمان کا مقصد
امارت کے باب میں کبھی ہم کسی غلو کے مُرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ ہماری یہ تحریک کسی شخصیت کے بل پر نہیں اٹھی ہے جس
اپنی جماعت کے بارے میں بھی ہم نے کوئی غلو نہیں کیا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف ہماری جماعت میں دائر
اجتہادی مسائل میں ہم تمام، اُن مذاہب و مسائل کو برحق تسلیم کرتے ہیں جن کے لیے قواعدِ شریعت میںگنجائش ہے۔ ہم ہر ایک کا
کہا جاتا ہے کہ تمھاری یہ جماعت، اسلام میں ایک نئے فرقے کی بِنا ڈال رہی ہے۔ یہ بات جو لوگ کہتے ہیں انھیں شاید
حضرات! بس یہ ہے ہمارا مقصد اور یہ ہے ہمارا پروگرام ۔ ہمیں اُمید نہ تھی کہ یہ چیز بھی ایسی ہو سکتی ہے جس
اس طرح جو لوگ ہمارے نظام جماعت میں شامل ہوتے ہیں، اُن کے لیے ہمارے پاس صرف یہ کام ہے کہ وہ اپنے قوَل اور
اب مَیں اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ جو لوگ ہماری جماعت کو پسند کرکے اس میں داخل ہوتے ہیں، ان سے
اس میں شک نہیں کہ ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لیے مختلف جماعتیں بننا، بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے، اور اس میں
جو لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور اس فہم سے اُن کے اندر مسلمان ہونے کی ذِمّہ داری کا احساس، اس حد
یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اقامتِ دین اور دعوتِ دین کی جدوجہد کے لیے ترتیب یہ
یہی جماعتِ اسلامی کے قیام کی واحد غرض ہے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جو طریقہ ہم نے اختیارکیا ہے وہ یہ ہے
اب مَیں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اُٹھے ہیں۔ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو
مَیں آپ کا سخت بد خواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر، آپ کو صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل
حضرات! یہ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں
یہ تو اس جرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اِس سے سخت تر سزا کا اندیشہ
یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو
اب عملی شہادت کی طرف آئیے۔ اس کا حال، قولی شہادت سے بدتر ہے۔ بلاشبہ کہیں کہیں، کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے
پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجیے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر، زبان و قلم سے اسلام
پھر یہ بھی عرض کر دوں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جب کہ ایک اسٹیٹ انھی اصولوں
رہی عملی شہادت، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اُن اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جنھیں ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا
قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دُنیا پر اُس حق کو واضح کریں جو انبیاکے ذریعے ہمیں پہنچا ہے۔
حضرات! یہ ہے شہادتِ حق کی وہ نازک ذِمّہ داری، جو مجھ پر ، آپ پر، اور اُن سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو
پھر انبیاکے ذریعے سے، جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا، وہ ایک اُمّت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی
یہ شہادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض، قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوعِ انسانی کے لیے، اللہ تعالیٰ نے بازپُرس اور جزا و سزا کا جو قانون
یہ شہادت جس کی ذِمّہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے ، اِس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے
یہ آپ کی اُمّت کا عین مقصدِ وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ
وہ ذِمّہ داریاں کیا ہیں؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خدا پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں
ہماری دعوت کا خطاب، ایک تو: ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں۔ دُوسرے: اُن تمام بند گانِ خدا سے جو مسلمان نہیں
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کو دو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں۔ایک حصہ: اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس
ساری تعریف اُس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق و مالک اور حاکم ہے، جو کمال درجے کی حکمت، قدرت اور رحمت
تحریکِ اِسلامی کے قیام کو، ابھی صرف ۵ سال ہوئے تھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، گردے کی پتھری کے آپریشن کے بعد آرام کے
حضرات! اب میں ایک آخری بات کہہ کر اپنی تقریر ختم کروں گا۔ عام مسلمانوں کے ذہن پر مدتوں کے غلَط تصوّرات کی وجہ سے
اب احسان کو لیجیے جو اِسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان دراصل اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کے دین کے ساتھ قلبی
تقوٰی کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقوٰی ہے کیا چیز؟ تقوٰی حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی
ایمان کی یہ بنیادیں جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، جب مکمل اور گہری ہو جاتی ہیں، تب ان پر اِسلام
اس سلسلے میں سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اِسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید ورسالت کے اقرار کا
جس چیز کو ہم اِسلامی اَخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی رُو سے دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے: ۱۔ ایمان، ۲۔اسلام،
مادی طاقت اور اَخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میں قرآن اور تاریخ کے غائر مطالعے سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں وہ یہ
اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللّٰہ کو بیان کیے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب
اب اَخلاقیات کے دُوسرے شعبے کو لیجیے، جسے میں ’’اِسلامی اَخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیرکر رہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اَخلاقیات سے الگ کوئی چیز
بنیادی انسانی اَخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اَخلاقی وجود کی اساس(۴) قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں
یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر اس کی کامیابی وناکامی اور اس کے عروج وزوال
اپنی سعی کے اس مقصد ومنتہا( آخری (۲)پاکیزہ لوگ (۳) کوشش) کو سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں اُس سُنّت اللہ کو سمجھنے کی کوشش
اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر بات ہے
انسانی زندگی کے مسائل میں جس کو تھوڑی سی بصیرت حاصل ہو، وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے
رفقاوحاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ’’انقلابِ امامت‘‘ ہے۔ یعنی دُنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے
ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں کی رکنیتِ مجالسِ قانون ساز میں مانع ہیں؟
تقریر کے بعد حاضرین کی طرف سے جو سوالات کیے گئے اور ان کے جو جوابات دیے گئے ان میں سے خاص خاص سوالات وجوابات
ان حقوق کے مقابلے میں شہریوں پر ریاست کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے پہلا حق اطاعت کا ہے جس کے لیے
اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔شہریوں کا اوّلین حق اسلام
ا ب شہریت کے مسئلے کو لیجیے ۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست
ان اوصاف (Qualifications) کا سوال اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دستور کے چلنے
ا س کے بعد تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی شکل اور نوعیت کیا ہے۔ اس باب میں ہم خلافتِ راشدہ
انتخاب امیر کے بعددوسرا اہم مسئلہ اہل الحل والعقد (یعنی مجلسِ شوریٰ کے ارکان) کا ہے کہ وہ کیسے چنے جائیں گے اور کون کون
جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں، ہمارے موجودہ اسلامی معاشرے کا آغاز مکے میں کفر کے ماحول میں ہوا تھا اور اس ماحول سے
ان بنیادی امور کی توضیح کے بعد ہمارے سامنے پانچواں سوال آتا ہے۔ یہ کہ جو ریاست ان بنیادوں پر تعمیر ہو اس کا نظام
ا ب اس مسئلے کو لیجیے کہ اسلام وہ کون سے بنیادی مقاصد (Objectives) پیش کرتا ہے جن کے لیے ایک اسلامی ریاست کو کام
اس سلسلے میں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام میں ریاست کے ان تینوں اعضاء کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس باب میں
رہی عدلیہ (Judiciary) جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضا‘‘ کی ہم معنی ہے اور اس کا دائرہِ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیّت کا اصول آپ
اب انتظامیہ کو لیجیے۔ ایک اسلامی ریاست میں انتظامیہ (Executive) کا اصل کام احکامِ الٰہی کو نافذ کرنا اور ان کے نفاذ کے لیے ملک
مقننہ (Legislature) وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں کی قدیم اصطلاح میں ’’اہل الحل والعقد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے معاملے میں یہ بات بالکل
یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ ریاست کے مخلف اعضاء (Organs of the State) کے اختیارات اور حدودِ عمل کیا ہیں۔
خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ
س نیابت کے لفظ سے آپ کا ذہن ظل اللہ اور پاپائیت اور بادشاہوں کے خدائی حقوق (Divine Rights of the king) کی طرف منتقل
اس اہم ترین دستوری مسئلے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ پھر سیاسی حاکمیت (Political Sovereignty) کس کی
دنیا میں اللہ کی اس قانونی حاکمیّت کے نمائندے انبیاء علیہم السلام ہیں یعنی جس ذریعے سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے
ان وجوہ سے اسلام میں یہ قطعی طور پر طے کر دیا گیا ہے کہ قانونی حاکمیّت اسی کی مانی جائے جس کی واقعی حاکمیّت
پھر تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض حق اور باطل کی بحث نظر انداز کرکے حاکمیّت کا منصب کسی انسانی اقتدار کو دے
پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت نفس الامری سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر کسی غیر اللہ کو یہ حاکمانہ حیثیت دے
اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حاکمیّت فی الواقع انسانی دائرے میں موجود بھی ہے؟ اور ہے تو وہ کہاں
علم سیاست کی اصطلاح میں یہ لفظ اقتدار اعلیٰ اوراقتدار مطلق کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ کسی شخص یا مجموعۂِ اشخاص یا ادارے کے
سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی ریاست کا دستور ’’حاکمیّت‘‘ کا مقام کس کو دیتا ہے۔اس کا قطعی اور ناطق جواب قرآن
اب میں دستور کے چند بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کو لے کر مختصراً یہ بتائوں گا کہ اسلام کے اصلی مآخذ میں ان کے
چوتھی مشکل ایک اور ہے وہ اب بڑھتے بڑھتے ایک لطیفے اور مذاق کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ حال ہی میں یہ ایک نرالا
تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کافی مدت سے بڑی ناقص ہو رہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں علوم دینی پڑھتے ہیں وہ
دوسری دقّت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ دستور اور
سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں وہ اب
جہاں تک اسلامی دستور کے ان مآخذ کا تعلق ہے، یہ سب تحریری شکل میں موجود ہیں۔ قرآن لکھا ہوا ہے۔ سنت رسولؐ اور تعامل
اسلام کے غیر تحریری دستور کے مآخذ چار ہیں:۔۱۔ قرآن مجیداس کا سب سے پہلا مآخذ قرآن مجید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکام
ہمارے سامنے اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے اس کی نوعیت کو پہلے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس
(یہ تقریر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو بار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر جناب محمد محسن صاحب صدیقی کی دعوت پر وکلاء کے ایک اجتماع میں
جہاں تک انگریزی زبان کی تعلیم کا تعلق ہے جدید علوم کے حصول کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی شخص بھی انصاف
ہمارے ملک میں یہ عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف تو قومی اتحاد کی ضرورت کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے اور دوسری
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے یہ اسی قدر ضروری ہے جتنی مردوں کی تعلیم۔ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پسماندہ
یہ ہے میرے نزدیک اس نظامِ تعلیم کا نقشہ جو موجودہ مذہبی تعلیم اور دنیوی تعلیم کے نظام کو ختم کرکے اس ملک میں قائم
اعلیٰ تعلیم کے بعد اختصاصی تعلیم کو لیجئے جس کا مقصود کسی ایک شعبۂ علم میں کمال پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جس
اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کو لیجئے۔ اس مرحلے میں ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے لیے ایک عام نصاب ہو جو تمام طلبہ
اس کے بعد اب ہائی سکول کی تعلیم کو لیجئے۔ اس مرحلے میں سب سے پہلی چیز جسے میں ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے
سب سے پہلے ابتدائی تعلیم کو لیجئے جو اس عمارت کی بیناد ہے۔ اس تعلیم میں وہ سب مضامین پڑھائیے جو آج آپ کے پرائمری
ا ن اصولی باتوں کی وضاحت کے بعد اب میں تفصیل کے ساتھ بتائوں گاکہ وہ اسلامی نظام تعلیم جس کو ہم یہاں قائم کرنا
تیسری بنیادی چیز جو نئے نظام تعلیم میں ملحوظ رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس میں تشکیلِ سیرت کو کتابی علم سے زیادہ اہمیت
دوسری چیز جو ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں بطور اصول کے پیش نظر رکھنی چاہیے اور اس کی بنیاد پر ہمارا سارا نظامِ تعلیم بننا
اس نئے نظامِ تعلیم کی تشکیل میں اولین چیز جسے ہم کو سب سے پہلے طے کرنا چاہیے یہ ہے کہ ہمارے پیشِ نظر تعلیم
اگر ہمیں اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کی اصلاح کرنی ہے تو پھر ہم کو ایک انقلابی قدم اٹھانا ہو گا۔ درحقیت اب یہ ناگزیر ہو
اس کے بعد اس نظامِ تعلیم کو لیجئے جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا۔ دنیا میں جو بھی نظامِ تعلیم قائم کیا جائے، اس میں
جہاں تک ہمارے پرانے نظامِ تعلیم کا تعلق ہے ‘اس کے متعلق یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ہماری قدیم مذہبی تعلیم کا نظام تھا۔
(ذیل کا مقالہ دراصل وہ میمورینڈم ہے جو مولانا مودودیؒ نے اصلاح تعلیم کے سلسلے میں قومی تعلیمی کمیشن کو بھیجا تھا۔ چونکہ کمیشن کے
جو شخص بھی ان احادیث کو پڑھے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ ان میں کسی ’’مسیح موعود‘‘ یا مثیل مسیح‘‘ یا ’’بروزِ مسیح‘‘
(۱) عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لَیُوشِکَنَّ ان ینزلَ فیکم ابنُ مریم حَکما عدلا فیکسر الصلیب
نئی نبوت کی طرف بلانے والے حضرات عام طور پر ناواقف مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ احادیث میں ’’مسیح موعود‘‘ کے آنے کی خبر دی
تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اٹھ کھڑا
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت
پہلی بات یہ ہے کہ نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے۔ قرآن مجید کی رُو سے یہ اسلام کے اُن بنیادی عقائد
اجماع صحابہ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جس چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دورِ صحابہ کے بعد کے علمائے
قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں اہم ترین حیثیت صحابہ کرام کے اجماع کی ہے۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت
قرآن کے سیاق و سباق اورلغت کے لحاظ سے اس لفظ کا جو مفہوم ہے اس کی تائید نبیﷺ کی تشریحات کرتی ہیں۔ مثال کے
پس جہاں تک سیاق و سباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبیین کے معنی
ایک گروہ جس نے اس دَور میں نئی نبوت کا فتنہ عظیم کھڑا کیا ہے، لفظ خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کی مُہر‘‘ کرتا ہےاور
آیت سورہ الاحزابمَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًاo الاحزاب 40:33(لوگو) محمد تمہارے مردوں میں
موجودہ زمانے میں اسلام کے خلاف جو فتنے رونما ہوئے ہیں اُن میں سے ایک بڑا فتنہ وہ نئی نبوت ہے جس کا دعویٰ اس
اس اجتماعی عبادت کا تیسرا زبردست کام یہ ہے کہ یہ عارضی طور پر تمام لوگوں کو ایک سطح پر لے آتی ہے۔ اگرچہ امیر
اجتماعی عمل کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں میں فطری اور اصلی وحدت پیدا ہوتی ہے۔ نسل یا زبان یا مرزبوم
اجتماعی عمل کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ اس سے ایک خاص قسم کی نفسیاتی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک شخص انفرادی طور پر
نماز کی طرح روزہ بھی بجائے خود ایک انفرادی فعل ہے، لیکن جس طرح نماز کے ساتھ جماعت کی شرط لگا کر اسے انفرادی سے
یہاں تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تعلق افراد کی تربیت سے تھا۔ اب روزے کے اجتماعی پہلو کی طرف توجہ کرنے سے
اس تربیت کے ضابطہ میں کسنے کے لیے صرف دو خواہشوں کو منتخب کیا گیا ہے یعنی شہوت شکم اور شہوتِ فرج۔ اور ان کے
یہ تقوٰی ہی دراصل اسلامی سیرت کی جان ہے۔ جس نوعیت کا کیریکٹر اسلام ہر مسلمان فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی
احساس بندگی کے ساتھ خود بخود جو چیز لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جس
اس نظام تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقہ سے انسان
روزے کا قانون یہ ہے کہ آخر شب طلوع سحر کی پہلی علامات ظاہر ہوتے ہی آدمی پر یکایک کھانا پینا اور مباشرت کرنا حرام
ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ انھیں حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا اس رکن کو
یہ اجتماعی عبادت ایک امام (leader) کے بغیر انجام نہیں پاتی۔ دو آدمی بھی اگر فر ض نماز پڑھیں تو لازم ہے کہ ان میں
صف بندی کے ان تمام فائدوں کو وہ دعائیں دو آتشہ کر دیتی ہیں، جو نماز میں خدا سے مانگی جاتی ہیں۔ سب یک زبان
یہ صرف مسجد میں جمع ہونے کی برکتیں ہیں۔ اب دیکھیے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں کتنی برکات پوشیدہ ہیں۔سب مسلمان مسجد میں
یہ محض اذان کا فائدہ تھا۔ اب آپ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور صرف جمع ہونے ہی میں بے شمار فائدے ہیں۔ یہاں جو
نماز انفرادی سیرت کی تعمیر کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہے۔ وہ اس اجتماعی نظام کا پورا ڈھانچا بناتی ہے، اسے قائم کرتی اور
اب ہمیں نماز کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالنی چاہیے۔ یہ ظاہر ہے کہ انفرادی سیرت تنہا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ
یہاں تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے، یہ نماز کے فوائد و منافع کا صرف ایک پہلو ہے۔ یعنی یہ کہ نماز افراد کس
تعمیر سیرت کے ساتھ ساتھ نماز انسان میں ضبط نفس (control)کی طاقت بھی پیدا کرتی ہے جس کے بغیر سیرت کا مدعا حاصل نہیں ہوسکتا۔
نماز کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کی سیرت کو اس خاص ڈھنگ پر تیار کرتی ہے جو اسلامی زندگی بسر کرنے،
پھر چونکہ آپ کو اس زندگی میں ہر قدم پر خدا کے احکام بجا لانا ہیں، خدا کی سپرد کی ہوئی خدمات اس کے مقرر
یاد دہانیانسان کی زندگی کو عبادت میں تبدیل کرنے کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے
قرآن کی رو سے عبادت وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِo الذّٰریٰت56:51میں نے
اس کتاب کا یہ نیا ایڈیشن پیش ِ خدمت ہے۔ ہم نے اپنی روایات کے مطابق اس کتاب کے ظاہری حسن کو اس کے معنوی
جس موضوع پر اس رسالہ میں بحث کی گئی ہے، اس پر اس سے پہلے مَیں اپنے ’’خطبات‘‘ میں روشنی ڈال چکا ہوں، لیکن وہاں
لیکن امام ابوحنیفہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے انھیں اسلامی تاریخ میں لازوال عظمت عطا کی ، یہ تھا کہ انھوں نے اس
اس طرح امام نے شیعہ وخوارج اور معتزلہ ومرجیہ کی انتہائی آراء کے درمیان ایک ایسا متوازن عقیدہ پیش کیا جو مسلم معاشرے کو انتشار
"” ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لیے گناہ نقصان دہ نہیں ہے ، اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مومن دوزخ میں
"”ہم کسی مسلمان کو کسی گناہ کی بناپر ،خواہ وہ کیسا ہی بڑا گناہ ہو ، کافر نہیں قرار دیتے جب تک کہ وہ اس
"” ایمان نا م ہے اقرار اور تصدیق کا ۔””[25] الوصیہ میں اس کی تشریح امام نے اس طرح کی ہے :”” ایمان زبان سے
"”ہم صحابہ رضی اللہ عنھم کا ذکر بھلائی کے سوا اور کسی طرح نہیں کرتے ۔””[22] عقید طحاویہ میں اس کی مزید تفصیل یہ ہے
"” رسول اللہ ﷺ کے بعد افضل الناس ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان بن
امام ابو حنیفہ ؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے "” الفقہ الاکبر [17]”” لکھ کر ان مذہبی فرقوں کے مقابلے میں عقیدہ اہل السنت والجماعت
اب ہم سب سے پہلے ان مسائل کو لیں گے جن کے متعلق امام کے خیالات ان کے اپنے قلم سے ثبت کیے ہوئے موجود
امام کا اسم گرامی نعمان بن ثابت تھا۔ عراق کے دارالحکومت کوفہ میں ان کی پیدائش معتبر روایات کے مطابق 80 ھ ( 699ء) میں
"اس سے پہلے ان صفحات میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ ملوکیت کا آغاز ہوتے ہی امت کی قیادت دو حصون میں بٹ گئی
ان متحارب اور متشدد گروہوں کے درمیان مسلمانوں کا سواد ِ اعظم اپنے خیالات میں انھی نظریات اور اصولوں پر قائم تھا جو خلفائے راشدین
اسی ہنگامہ خیز دور میں ایک چوتھا طرزِ فکر پیدا ہوا جس کو اسلامی تاریخ میں "”اعتزال "” کا نام دیا گیا ہے ۔ اگرچہ
شیعوں او رخارجیوں کے انتہائی متضاد نظریات کا رد عمل ایک تیسرے گروہ کی پیدائش کی صورت میں ہو ا جسے مرجیہ کے نام سے
شیعوں کے بالکل برعکس دوسرا گروہ خوارج کا تھا ۔ یہ گروہ جنگ صفین کے زمانے میں ا س وقت پیدا ہوا جب حضرت علی
حامیان علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ابتدا میں شیعان علی کہاجاتا تھا ۔ بعد میں اصطلاحا انھیں صرف شیعہ کہاجانے لگا۔ اگرچہ نبی ﷺ
"خلافت راشدہ کا زوال جن حالات میں اورجن اسباب سے ہوا ان کے نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی تھا کہ امت مسلمہ
یہ پالیسی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں شروع ہوگئی تھی ۔امام زہری ؒ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور چاروں
سب سے بڑی مصیبت جو ملوکیت کےدور میں مسلمانوں پر آئی وہ یہ تھی کہ اس دور میں قانون کی بالاتری کا اصول توڑ دیا
ایک اور عظیم تغیر جو اس دور ملوکیت میں رونما ہوا وہ یہ تھا کہ اس قوم ، نسل ، وطن اور قبیلے کی وہ
اسلام ریاست کے بنیادی قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے لیا جائے
قضا(judiciary) کی انتظامیہ سے آزادی کا اصول بھی اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں میں سے تھا ۔ خلافت راشدہ میں قاضیوں کاتقرر اگرچہ خلفاء ہی
اس دور کے تغیرات میں سے ایک اور اہم تغیر یہ تھا کہ مسلمانوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کرلی
تیسری اہم تبدیلی بیت المال کے متعلق خلفاء کا طرز عمل میں رونماہوئی ۔بیت المال کا اسلامی تصور یہ تھا کہ وہ خلیفہ اور اس
دوسری نمایاں تبدیلی یہ تھی کہ دور ملوکیت کے آغاز ہی سے بادشاہ قسم کے خلفاء نے قیصر وکسرٰی کا سا طرز زندگی اختیار کرلیا
اولین بنیادی تبدیلی اس دستور قاعدے میں ہوئی جس کے مطابق کسی شخص کو امت کا سربراہ بنایا جاتا تھا ۔خلافت راشدہ میں وہ قاعدہ
” اس سے پہلے ان صفحات میں ہم تفصیل کے ساتھ یہ بیان کرچکے ہیں کہ خلافت کس طرح ، کن مراحل سے گزری ہوئی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینے میں سراسیمگی پھیل گئی ، کیونکہ امت یکایک بے سردار اور مملکت بے سربراہ وہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پالیسی کا یہ پہلو بلاشبہ غلط تھا ، اور غلط کام بہرحال غلط ہے ، خواہ وہ کسی نے
اس تغیر کا آغاز ٹھیک اسی مقام سے ہوا جہاں سے اس کے رونما ہونے کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اندیشہ تھا۔اپنی وفات
"خلافت راشدہ ، جس کے امتیازی خصائص اور بنیادی اصول گزشتہ صفحات مٰیں بیان کیے گئے ہیں ، حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ
اس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء پر
اسلام کے ابتدائی دور کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانے میں ٹھیک ٹھیک اسلام کے اصول اور اس کی روح کے مطابق
یہ خلفاء اپنی ذات کو بھی قانون سے بالاتر نہیں رکھتے تھے بلکہ قانون کی نگاہ میں اپنے آپ کو اور مملکت کے ایک عام
ان لوگوں کا تصور حکومت کیا تھا ۔ فرماں روا ہونے کی حیثیت سے یہ اپنے مقام اور اپنے فرائض کے متعلق کیا خیال رکھتے
بیت المال کو وہ خدا اور خلق کی امانت سمجھتے تھے ۔ اس میں قانون کے خلاف کچھ آنے اور اس میں سے قانون کے
یہ چاروں خلفاء حکومت کے انتظام اور قانون سازی کے معاملے میں قوم کے اہل الرائے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کام نہیں کرتے تھے
نبی ﷺ کی جانشینی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تجویز کیا اور مدینے کے تمام
"صفحاتِ گزشتہ میں اسلام کے جو اصولِ حکمرانی بیان کیے گئے ہیں ۔ نبی ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کی حکومت ابھی اصولوں پر قائم
اس ریاست کے قواعد میں آخری قاعدہ ، جو اس کو صحیح راستے پر قائم رکھنے کا ضامن تھا ، یہ تھا کہ مسلم معاشر
اس ریاست میں حکمران اور اس کی حکومت کا اولین فریضہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی نظام ِزندگی کو کسی رد وبدل
یہ قاعدہ بھی اس ریاست کے قواعد میں سے تھا کہ حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب کے لئے عموما اور خلافت کے لئے خصوصا وہ
اس ریاست کا پانچواں اہم قاعدہ یہ تھا کہ سربراہ ِریاست مسلمانوں کے مشورے اور ان کے رضامندی سے مقرر ہونا چاہیے ، اور اسے
چوتھا اہم قاعدہ جس پر یہ ریاست قائم ہوئی تھی ، یہ تھا کہ حکومت اور اس کے اختیارات اور اموال ،خدا اور مسلمانوں کی
اسی قاعدے کی فرع یہ تیسرا قاعدہ ہے جو اس ریاست کے مسلمات میں سے تھا کہ تمام مسلمانوں کے حقوق بلالحاظ رنگ ونسل وزبان
دوسرا قاعدہ جس پر اس ریاست کی بنا رکھی گئی تھی ،یہ تھا کہ قرآن وسنت کا دیا ہوا قانون سب کے لئے یکساں ہے
اس ریاست کا اولین بنیادی قاعدہ یہ تھا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالٰی کی ہے ،اور اہل ایمان کی حکومت دراصل "”خلافت "”ہے جسے مطلق
"پچھلے باب میں قرآنِ مجید کی جو سیاسی تعلیمات بیان کی گئی ہیں ،نبی ﷺ کا کام انھی کو عملی جامہ پہنانا تھا ۔آپ کی
خدا کا وہ قانون ،جس کی پیروی کا اوپر کی آیتوں میں حکم دیا گیا ہے ،انسان تک اس کے پہنچنے کا ذریعہ صرف خداکا
ان وجوہ سے قرآن فیصلہ کرتا ہے کہ اطاعت خالصتا اللہ کی اور پیروی اسی کے قانون کی ہونی چاہیے ۔اس کو چھوڑ کر دوسروں
کائنات کے اسی تصور کی بیناد پر قرآن کہتا ہے کہ انسانوں کا حقیقی فرماں روا اور حاکم بھی وہی ہے جو کائنات کا حاکم
تصورِ کائنات سیاست کے متعلق قرآن کا نظریہ اس کے اساسی تصور کائنات پر مبنی ہے جسے نگاہ میں رکھنا اس نظریے کو ٹھیک ٹھیک
"کتاب کے فاضل مصنف مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک تاریخ ساز انسان کی حیثیت سے معروف ومتعارف ہیں
Crafted With by Designkaar