جبرو قدر
[ایک تقریر جو 23 اکتوبر 1942ء کو نشر گاہِ لاہور سے نشر کی گئی](باجازت آل انڈیا ریڈیو) کیا ہماری تقدیر پہلے سے مقرر ہے؟ کیا
[ایک تقریر جو 23 اکتوبر 1942ء کو نشر گاہِ لاہور سے نشر کی گئی](باجازت آل انڈیا ریڈیو) کیا ہماری تقدیر پہلے سے مقرر ہے؟ کیا
یہیں سے یہ نکتہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ حقیقی عدل کرنے والا بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ
قرآن اس مسئلے کو اور زیادہ کھول کر بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے انسان کی فطرت میں بھلے اور برے دونوں
قرآن ہمیں خبر دیتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے دنیا میں مخلوقات کی جتنی انواع موجود تھیں وہ سب اپنی فطرت کے لحاظ
پچھلی بحث سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کے متعلق جو اشارات مختلف مواقع پر کیے
یہ مقدمہ ذہن نشین کر لینے کے بعد اب اس سوال کی طرف آیئے کہ قرآنِ مجید خاص تقدیر کے مسئلے پر بحث کیے بغیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی زندگی کے تمام معاملات میں یہی روح پھونکنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے کیونکہ اس سے اخلاق
اس سے یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ قضا و قدر کے مسئلے پر جو اشارات کلام اللہ میں آئے ہیں ان کا اصل
اس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآنِ کریم میں نہ صرف مسئلہ جبر و قدر، بلکہ
پچھلے صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اب تک انسان نے اس
متکلمین اسلام کے ان دونوں گروہوں کی تقریریں دیکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مسئلہ ’’جبروقدر‘‘ کو حل کرنے میں دونوں کو ناکامی
لطف یہ ہے کہ جبریہ بھی اپنے مذہب کے حق میں قرآنِ مجید ہی سے ثبوت پیش کرتے ہیں اور ایک دو نہیں سینکڑوں آیتیں
دوسری طرف جبریہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی چیز اللہ کے ارادے کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ عام اس سے کہ وہ اشیا
اس مذہب کی تائید میں معتزلہ نے قرآنِ مجید کی بہت سی آیات سے استدلال کیا ہے، مثلاً:۱) وہ آیات جن میں بندوں کے افعال
معتزلہ اور بعض دوسرے فرقوں کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا، اس کو افعال پر قدرت بخشی اور نیکی و
متکلمین اسلام کے اس بارے میں دو مشہور مذہب ہیں جو قدریہ اور جبریہ کہلاتے ہیں۔ یہاں اُن کی تمام بحثوں کو نقل کرنا بہت
جن مسائل کا تعلق امور ماورائے طبیعت سے ہے ان کے بارے میں اسلام کی صحیح تعلیم یہ ہے کہ جس چیز کا جاننا اور
اب اس مسئلہ کا آخری پہلو باقی رہ گیا ہے اور وہ دینیاتی پہلو ہے۔ دینیات میں یہ مسئلہ قریب قریب اسی حیثیت سے آتا
اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ علم الاخلاق جبریت و قدریت کے درمیان فیصلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خالص اخلاقی دلائل و
خالص اخلاقیات کے دائرے میں انسان کے مجبور یا مختار ہونے کا سوال اس حیثیت سے نہیں آتا کہ ظاہری حالات کی تہ میں باطنی
اس مختصر بیان سے واضح ہو گیا کہ وہی سائنس جس پر انسان نے اپنے تفوق اور اپنے افتخار کی بنیاد رکھی ہے، کس طرح
طبیعیات میں یہ مسئلہ اس پہلو سے آتا ہے کہ تمام کائنات کی طرح انسان کے افعال بھی سلسلۂ اسباب سے وابستہ ہیں اور اس
لیکن اس بحث میں قدریت کی بہ نسبت جبریت کا پلڑا جھک جانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فلسفے نے اس گتھی کو سلجھا
مابعد الطبیعات (Metaphysics) میں جبر و قدر کا مسئلہ دو پہلوئوں سے آتا ہے:اوّل: قدرت سے مراد ہم یہ لیتے ہیں کہ فاعل ایک ایسی
لیکن جب انسان غور و فکر کر کے ظواہر اشیا کی تہ میں پوشیدہ حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر
ہر شخص بلا کسی غور و فکر کے محض وجدانی طور پر یہ تصور رکھنا ہے کہ انسان اپنی ارادی حرکات و سکنات میں آزاد
جہاں تک پیش کردہ سوال کا تعلق ہے اس کے جواب میں تو صرف اسی قدر کافی ہو سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی آیات
اس مختصر رسالے کی تقریب یہ ہے کہ ۱۳۵۲ھ (۱۹۳۳ء) میںجب میں نے ترجمانُ القرآن نیا نیا جاری کیا تھا، ایک صاحب نے مجھے ایک
مسئلہ جبر و قدر کا فلاسفہ ، ہمیشہ سے محبوب و معرکہ آرا موضوع رہا ہےاور زمانۂ قدیم سے آج تک اس موضوع پر جتنی
Crafted With by Designkaar