امام حسین کا مومنانہ کردار
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رُونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رُونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر
مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ
چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسولؐ کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے
پانچواں اُصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے، جس میں کوئی چیز حق کی راہ
چوتھا اُصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا، یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے
اس دستور کا تیسرا اُصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو اسلام نے ہر
دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ اُن لوگوں سے کیا جائے جن کے علم،
دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے
یہ تو تھا رُوح و مزاج، مقصد اور نظریّے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ اور ان برائیوں
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سربراہی میں ریاست
وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکم رانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسولؐ اور قرآن
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سُنّی بھی، امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار
یہ تقریر لاہور میں شیعہ، سُنّی حضرات کی ایک مشترکہ نشست میں کی گئی تھی‘ جو ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کی اشاعت ماہ جولائی ۱۹۶۰
Crafted With by Designkaar