ایمان کے تقاضے
اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں سے آخری سوال پر کچھ گفتگو کرنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کے
اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں سے آخری سوال پر کچھ گفتگو کرنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کے
اب آگے بڑھنے سے پہلے مَیں ایک سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو لازماً اس مرحلے پر پہنچ کر ہر شخص کے دل
یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے وہ تو ہمیں محض اس حد تک پہنچاتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس
اس تصویر کے بالکل برعکس قرآن ہمارے سامنے صورتِ حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا ہی
یہ مختصر اشارات جو میں نے کیے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی یا استدلالی غلطی نہیں کی ہے۔ اور
آخر میں اُس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پچھلے انسانی تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت
اب تیسرے ذریعے کو لیجیے، یعنی وہ علم جو مشاہدات وتجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ میں اس علم کی قدر وقیمت کا اعتراف کرنے میں
پھر عقل کو لیجیے، اس کی تمام بہترین صلاحیتیں مسلّم، انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار اور یہ بھی تسلیم کہ انسان
پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی راہ نما بن سکتی ہے؟ اگرچہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی
انسان کے پاس اپنا ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی اخذ کرنے کے ذرائع چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلا ذریعہ خواہش ہے دوسرا ذریعہ عقل ہے،
انسان کے لیے جس ’’الدین‘‘ کی ضرورت میں نے ابھی ثابت کی ہے اس سے مراد کوئی ایسا تفصیلی ضابطہ نہیں ہے جس میں ہر
یہ ہے اس ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی یا نظامِ زندگی کی نوعیت جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگرانسان خدا
اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفس ِ انسانیت کو اور اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں
ان مہملات اور جدید زمانے کے عالمانہ مہملات میں سے ایک اور بات، جو حقیقت کے اعتبار سے مہمل ترین ہے مگر حیرت ہے کہ
پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جدا گانہ شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی
زندگی کے یہ مختلف پہلو جن میں کوئی ایک طریق اختیار کرنا انسان کے لیے ناگزیر ہے، بجائے خود مستقل شعبے اور ایک دوسرے سے
یہ ظاہر ہے کہ دُنیا میں انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریقِ زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریانہیں
اس تشریح کے بعد قرآن کا دعوٰی بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور وہ یہ ہے:’’نوعِ انسان کے لیے
اب لفظ ’’اِسلام‘‘ کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپر ڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کر لینا، اپنے آپ کو سپرد
عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی غلبہ اور استیلا کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت اور غلامی کے۔
(یہ خطبہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ ، دہلی میں دیا گیا تھا)قرآن جس دعوے کے ساتھ نوعِ انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک
Crafted With by Designkaar