ایک سوال
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے مَیں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالتِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے مَیں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالتِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا
بیت المال کے بارے میں اسلام کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وُہ اللّٰہ اور مسلمانوں کا مال ہے اور کسی شخص کو اس پر
اسلام اس اَمر کو حرام نہیں کرتا کہ کسی صنعت یا کسی تجارت کو حکومت اپنے انتظام میں چلائے۔ اگر کوئی صنعت یا تجارت ایسی
اس کے علاوہ اسلام اگرچہ اسے پسند کرتا ہے کہ مالکِ زمین اور مزارع، یا کارخانہ دار اور مزدُور کے درمیان خود باہمی رضا مندی
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اُس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرُّف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے بلکہ اس
اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معین کر دیتا ہے۔ وراثت، ہبہ، کسب۔ وراثت صرف وُہ معتبر ہے جوکسی
اسلام میں اللّٰہ تعالیٰ نے خود وُہ حدود قائم کر دیے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین
اب مَیں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وُہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر
درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وُہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود، کسی فرعون اور کسی چنگیز خاں کے دَور میں بھی نہ رہی
اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وُہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حُریّتِ فرد، فراخ
یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دُوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم
یہ دونوں اُمور… یعنی دُنیا میں انسانی شخصیت کی نشوونما اور آخرت میں انسان کی جواب دہی… اِسی بات کے طالب ہیں کہ دُنیا میں
پھر یہ تمام افراد فردًا فردًا خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہر ایک کواس دُنیا میں ایک خاص مدتِ امتحان (جو ہر فرد کے
ہر انسانی معاشرہ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس مرکب کا ہر فرد ذی روح، ذی عقل اور ذی شعور
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ عدل اجتماعی درحقیقت ہے کس چیز کا نام اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے۔
دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینا ضروری ہے وُہ یہ ہے کہ جو شخص ’’اسلام میں عدل ہے‘‘ کہتا ہے وُہ حقیقت سے
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو مَیں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وُہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں بھی
مَیں اس مختصر مقالے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عدالتِ اجتماعیہ درحقیقت نا م کس چیز کا ہے اور اس کے قیام کی صحیح
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اُس کے رسُول کی سُنّت میں ایک دائمی وابدی ہدایت موجود ہے
پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وُہی شیطان ایک دُوسرا فریب اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نام سے بنا لایا اور اب اس
اِنھی دھوکوں میں سے ایک بہت بڑا دھوکا وُہ ہے جو موجودہ زمانے میں اجتماعی عدل (Social Justice) کے نام سے بنی نوع انسان کو
انسان کو اللّٰہ تعالیٰ نے جس احسنِ تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وُہ عریاں فساد
(یہ مقالہ ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں حج کے موقع پر موتمر عالمِ اسلامی کے اجتماع منعقدہ مکہ معظمہ میں پڑھا گیا تھا)
Crafted With by Designkaar