حقوق شہریت
اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔شہریوں کا اولین حق اسلام
اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔شہریوں کا اولین حق اسلام
شہریّت اور اس کی بنیادیں(’’اسلامی دستور کی تدوین ۱؎‘‘ کے موضوع پر مولانا مودودیؒ نے بار ایسوسی ایشن کراچی۔ میں ۲۴ نومبر ۵۲ء کو ایک
حقوق ذمّہ(مولانا مودودیؒ کی تصانیف سے جناب نعیم صدیقی صاحب نے اپنے کتابچے ’’دو دستوری خاکے‘‘۱؎ میں دفعہ وار مرتب کیے ہیں)دفعہ(۱۵) جو شخص اس
آخر میں اس امر کی توضیح بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں کو جو حقوق بھی دے گی بلا اس
صنعت وحرفت، تجارت، زراعت اور دوسرے تمام پیشوں کے دروازے غیر مسلموں کے لیے بالکل کھلے رہیں گے۔ ان میں مسلمانوں کو ایسی کوئی رعایت
چند محفوظ مناصب کے سِوا وہ تمام ملازمتوں میں داخل ہونے کے حقدار ہوں گے اور اس معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی تعصب نہ
انہیں نظامِ تعلیم تو وہی قبول کرنا ہو گا جو ریاست پورے ملک کے لیے بنائے گی‘ لیکن جہاں تک اسلام کی مذہبی تعلیم کا
غیر مسلموں کو اس ریاست میں تحریر و تقریر اور رائے و ضمیر اور اجتماع کی وہی آزادی حاصل ہو گی جو خود مسلمانوں کو
اس کے ساتھ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم گروہوں کے لیے ایک الگ نمائندہ مجلس یا اسمبلی بنا دی جائے تاکہ
سب سے پہلے انتخابات کے سوال کو لیجئے۔ اسلامی حکومت چونکہ ایک اصولی حکومت ہے اس لیے وہ غیر مسلموں کے حق میں رائے دہی
یہاں تک ہم نے اہل الذمّہ کے ان حقوق کا ذکر کیا ہے جو شریعت میں ان کے لیے مقرر ہیں اور جنہیں لازماً ہر
یہ ہیں اس قانون کی تفصیلات جو صدرِ اوّل میں غیر مسلم رعایا کے حقوق وفرائض سے متعلق بنایا گیا تھا۔ اب آگے بڑھنے سے
ذمّی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت کرنا تنہا مسلمانوں کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ
مسلمان تاجروں کی طرح ذمّی تاجروں کے اموالِ تجارت پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جبکہ ان کا راس المال ۲۰۰ درہم تک پہنچ جائے
جزیہ و خراج کے معاملہ میں ذمّیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور رفق کی تاکید کی گئی ہے اور ان
امصارِ مسلمین میں ذمّیوں کے جو قدیم معاہد ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ دوبارہ
مذہبی مراسم اور قومی شعائر کو پبلک میں اعلان و اظہار کے ساتھ ادا کرنے کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اہل الذمّہ خود
ذمّیوں کے شخصی معاملات ان کی اپنی ملّتِ کے قانون (Personal Law) کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا
عقد ذمّہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر اسے توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری
ذمّی کو زبان یا ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا‘ اس کو گالی دینا‘ مارنا پیٹنا‘ یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز ہے جس
دیوانی قانون بھی ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور دونوں کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علیؓ کے ارشاد اموالھم کا موالنا کے
تعزیرات کا قانون ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور اس میں دونوں کا درجہ مسای ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمانوں کو دی
ذمّی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمّی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اُسی طرح
اب ہم ذمّیوں کے وہ حقوق بیان کریں گے جن میں تینوں اقسام کے اہل الذّمہ شریک ہیں۔
دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے ہوں اور جنہوں نے اس وقت ہتھیار ڈالے ہوں جب
یہ لوگ جنگ کے بغیر یا دورانِ جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومت اسلامی سے مخصوص شرائط طے کر لیں،
اسلامی قانون اپنی غیر مسلم رعایا کو تین اقسام پر تقسیم کرتا ہے۔ایک وہ جو کسی صلح نامے کے ذریعے سے اسلامی حکومت کے تحت
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک
Crafted With by Designkaar