مجالسِ قانون ساز میں عورتوں کی شرکت کا مسئلہ
ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں کی رکنیتِ مجالسِ قانون ساز میں مانع ہیں؟
ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں کی رکنیتِ مجالسِ قانون ساز میں مانع ہیں؟
تقریر کے بعد حاضرین کی طرف سے جو سوالات کیے گئے اور ان کے جو جوابات دیے گئے ان میں سے خاص خاص سوالات وجوابات
ان حقوق کے مقابلے میں شہریوں پر ریاست کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے پہلا حق اطاعت کا ہے جس کے لیے
اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔شہریوں کا اوّلین حق اسلام
ا ب شہریت کے مسئلے کو لیجیے ۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست
ان اوصاف (Qualifications) کا سوال اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دستور کے چلنے
ا س کے بعد تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی شکل اور نوعیت کیا ہے۔ اس باب میں ہم خلافتِ راشدہ
انتخاب امیر کے بعددوسرا اہم مسئلہ اہل الحل والعقد (یعنی مجلسِ شوریٰ کے ارکان) کا ہے کہ وہ کیسے چنے جائیں گے اور کون کون
جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں، ہمارے موجودہ اسلامی معاشرے کا آغاز مکے میں کفر کے ماحول میں ہوا تھا اور اس ماحول سے
ان بنیادی امور کی توضیح کے بعد ہمارے سامنے پانچواں سوال آتا ہے۔ یہ کہ جو ریاست ان بنیادوں پر تعمیر ہو اس کا نظام
ا ب اس مسئلے کو لیجیے کہ اسلام وہ کون سے بنیادی مقاصد (Objectives) پیش کرتا ہے جن کے لیے ایک اسلامی ریاست کو کام
اس سلسلے میں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام میں ریاست کے ان تینوں اعضاء کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس باب میں
رہی عدلیہ (Judiciary) جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضا‘‘ کی ہم معنی ہے اور اس کا دائرہِ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیّت کا اصول آپ
اب انتظامیہ کو لیجیے۔ ایک اسلامی ریاست میں انتظامیہ (Executive) کا اصل کام احکامِ الٰہی کو نافذ کرنا اور ان کے نفاذ کے لیے ملک
مقننہ (Legislature) وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں کی قدیم اصطلاح میں ’’اہل الحل والعقد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے معاملے میں یہ بات بالکل
یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ ریاست کے مخلف اعضاء (Organs of the State) کے اختیارات اور حدودِ عمل کیا ہیں۔
خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ
س نیابت کے لفظ سے آپ کا ذہن ظل اللہ اور پاپائیت اور بادشاہوں کے خدائی حقوق (Divine Rights of the king) کی طرف منتقل
اس اہم ترین دستوری مسئلے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ پھر سیاسی حاکمیت (Political Sovereignty) کس کی
دنیا میں اللہ کی اس قانونی حاکمیّت کے نمائندے انبیاء علیہم السلام ہیں یعنی جس ذریعے سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے
ان وجوہ سے اسلام میں یہ قطعی طور پر طے کر دیا گیا ہے کہ قانونی حاکمیّت اسی کی مانی جائے جس کی واقعی حاکمیّت
پھر تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض حق اور باطل کی بحث نظر انداز کرکے حاکمیّت کا منصب کسی انسانی اقتدار کو دے
پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت نفس الامری سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر کسی غیر اللہ کو یہ حاکمانہ حیثیت دے
اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حاکمیّت فی الواقع انسانی دائرے میں موجود بھی ہے؟ اور ہے تو وہ کہاں
علم سیاست کی اصطلاح میں یہ لفظ اقتدار اعلیٰ اوراقتدار مطلق کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ کسی شخص یا مجموعۂِ اشخاص یا ادارے کے
سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی ریاست کا دستور ’’حاکمیّت‘‘ کا مقام کس کو دیتا ہے۔اس کا قطعی اور ناطق جواب قرآن
اب میں دستور کے چند بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کو لے کر مختصراً یہ بتائوں گا کہ اسلام کے اصلی مآخذ میں ان کے
چوتھی مشکل ایک اور ہے وہ اب بڑھتے بڑھتے ایک لطیفے اور مذاق کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ حال ہی میں یہ ایک نرالا
تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کافی مدت سے بڑی ناقص ہو رہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں علوم دینی پڑھتے ہیں وہ
دوسری دقّت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ دستور اور
سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں وہ اب
جہاں تک اسلامی دستور کے ان مآخذ کا تعلق ہے، یہ سب تحریری شکل میں موجود ہیں۔ قرآن لکھا ہوا ہے۔ سنت رسولؐ اور تعامل
اسلام کے غیر تحریری دستور کے مآخذ چار ہیں:۔۱۔ قرآن مجیداس کا سب سے پہلا مآخذ قرآن مجید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکام
ہمارے سامنے اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے اس کی نوعیت کو پہلے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس
(یہ تقریر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو بار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر جناب محمد محسن صاحب صدیقی کی دعوت پر وکلاء کے ایک اجتماع میں
Crafted With by Designkaar