تخفیفات کی چند شکلیں (مسئلۂ سود میں)
مذکورہ بالا قواعد کو ذہنی نشین کرلینے کے بعد غور کیجئے کہ موجودہو حالات میں سود کے مسئلے میں احکامِ شریعت کے اندر کس حد
مذکورہ بالا قواعد کو ذہنی نشین کرلینے کے بعد غور کیجئے کہ موجودہو حالات میں سود کے مسئلے میں احکامِ شریعت کے اندر کس حد
اسلامی قانون میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے
احوال اور حوادث کے جو تغیرات، احکام میں تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے مقتضی ہوں ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرزِ قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے تا کہ موقع و محل کے
مزاجِ شریعت کو سمجھنے کے بعد دوسری اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق
فروعی قوانین مدوّن کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مزاجِ شریعت کو اچھی طرح سمجھ لیا
پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیر احوال اور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اصولِ شرع کے
اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدوّن
ہمارے جدت پسند حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اگر اس کاا تباع کیا جائے اور ان کی خواہشات کے مطابق احکام کی تدوین
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور
سوال: ’’آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market) سے
سوال: ’’انشورنس کے مسئلے میں مجھے تردد لاحق ہے، اور صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آسکا کہ آیا بیمہ کرانا اسلامی نقطہ نظر سے
اس کے برعکس ہم یہ چاہتے ہیں کہ جب تک اجتماعی انصاف کا اسلامی نظام قائم نہ ہو، اس مصیبت زدہ طبقے کی تکالیف کو
لیکن جب تک نظامِ زندگی میں یہ ہمہ پہلو اور یہ بنیادی تبدیلی نہ ہو، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ جس حد تک بھی انصاف
اس وقت ہماری حقیقی ضرورت یہ ہے کہ سارا نظامِ زندگی تبدیل کیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا کوئی تکلیف، کوئی شکایت اور کوئی
اس وقت ہمارے ملک میں جو معاشی نظام رائج ہے وہ صرف انگریزی دورِ حکومت ہی کی یادگار نہیں ہے بلکہ انگریزوں سے بھی پہلے
اس وقت صنعتی مزدور (Industrial labourers) اور کاشتکار جن مشکلات میں گرفتار اور جن مسائل سے دوچار ہیں ان کی اصل وجہ معاشی نظام کی
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے میں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالتِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا
بیت المال کے بارے میں اسلام کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اللہ اور مسلمانوں کا مال ہے اور کسی شخص کو اس پر
اسلام اس امر کو حرام نہیں کرتا کہ کسی صنعت یا کسی تجارت کو حکومت اپنے انتظام میں چلائے۔ اگر کوئی صنعت یا تجارت ایسی
اس کے علاوہ اسلام اگرچہ اس کو پسند کرتا ہے کہ مالکِ زمین اور مزارع، یا کارخانہ دار اور مزدور کے درمیان خود باہمی رضا
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے ۔
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے بلکہ اس
اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معین کر دیتا ہے: وراثت، ہبہ، کسب۔ وراثت صرف وہ معتبر ہے جو
اسلام میں اللہ تعالیٰ نے خود وہ حدود قائم کر دیئے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین
اب میں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر
درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود، کسی فرعون اور کسی چنگیز خاں کے دور میں بھی نہ رہی
اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حریت فرد، فراخ
یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم
یہ دونوں امور۔ یعنی دنیا میں انسانی شخصیت کا نشوونما، اور آخرت میں انسان کی جواب دہی… اسی بات کی طالب ہیں کہ دنیا میں
پھر یہ تمام افراد فرداً فرداً خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہر ایک کو اس دنیا میں ایک خاص مدت امتحان (جو ہر فرد
ہر انسانی معاشرہ ہزاروں ، لاکھوں اور کروڑوں افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس مرکب کا ہر فرد ذی روح، ذی عقل اور ذی
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ عدلِ اجتماعی درحقیقت ہے کس چیز کا نام اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے۔
دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص ’’اسلام میں عدل ہے‘‘ کہتا ہے وہ حقیقت سے
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو میں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں ہی
میں اس مختصر مقالے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عدالتِ اجتماعیہ درحقیقت نام کس چیز کا ہے اور اس کے قیام کی صحیح صورت
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں ایک دائمی و ابدی ہدایت موجود
پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہی شیطان ایک دوسرا فریب اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نام سے بنا لایا اور اب اس
انھی دھوکوں میں سے ایک بہت بڑا دھوکا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں اجتماعی عدل (social justice) کے نام سے بنی نوع انسان کو
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد
سوال: کیا اسلام میں زکوٰۃ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس عائد کرنا بھی جائز ہے؟‘‘ جواب: جی ہاں۔ اسلامی ریاست میں یہ دونوں
سوال: ’’موجودہ آزاد تمدنی دور میں بھی کیا غرباء اور مساکین کے لیے امراء اور رؤساء سے زکوۃ فنڈ جبراً وصول کیا جانا مناسب ہوگا،
سوال: ’’تمام کتبِ فقہ میں مذکور ہے کہ چاندی کا نصابِ زکوٰۃ دو سو درہم، (52½تولہ) ہے اور سونے کا 20 دینار (7½ تولہ)۔ اور
سوال: ’’دو آدمی شرکت میں کاروبار شروع کرتے ہیں۔ شریک اول سرمایہ لگاتے ہیں اور محنت بھی کرتے ہیں۔ شریک ثانی صرف محنت کے شریک
سوال: کسی مشترک کاروبار، مثلاً کسی کمپنی کے حصص کی زکوٰۃ کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ حصہ بجائے خود تو کوئی قیمتی چیز نہیں
سوال: زکوٰۃ کے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضور اکرمؐ نے
(۱) زکوٰۃ کی تعریف کیا ہے؟(۲) کن کن لوگوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں عورتوں، نابالغوں، قیدیوں، مسافروں، فاتر العقل افراد اور
قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ حق دار بیا ن کیے گئے ہیں جن کی تفصیل سورئہ توبہ آیت 60 میں اس طرح بیان کی
زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں:(۱) سورئہ بقرہ میں فرمایا:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ
قرآن مجید میں زکوٰۃ اور صدقات کے لیے جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ’’خدا کی راہ میں
قدیم زمانے سے تمام انبیاء کی امتوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم لازمی طور پر دیا گیا ہے، اور دین اسلام کبھی کسی نبی
زکوٰۃ کے معنی ہیں پاکی اور صفائی۔ اپنے مال میں سے ایک حصہ حاجتمندوں اور مسکینوں کے لیے نکالنے کو زکوٰۃ اس لیے کہا گیا
نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلے میں نماز کے بعد روزے کا نام
سوال: کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کر کے ترقی نہیں کرسکتا، غیر ممالک سے مطلق
بینکنگ کے متعلق جو بحث ہم اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں کر چکے ہیں اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کام
مالیاتِ قرض کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیشِ نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلے
اب رہے بین الاقوامی قرضے، تو اس معاملہ میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خور دنیا میں ہم اپنی قومی ضرورت
تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو کبھی وقتی حوادث کے لیے، اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے، اور
اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں
موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور یہ وہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے، اور
پہلے قرض کے شعبے کو لیجئے، کیوں کہ لوگ سب سے بڑھ کر جس شک میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ سود کے بند
جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسداد کرنا چاہتا ہو اُسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہوگا۔ سود کی
اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں بے شمار خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے
اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کر دیا جائے جو نہ صرف اس معاملے
اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ کیا فی الواقع سود کو ساقط کر کے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جاسکتا ہے
فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ۰ۭ وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۰ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ
آیئے اب ہم ان میں سے ایک ایک ’’فائدے‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آیا فی الحقیقت وہ کوئی فائدہ اور ضرورت
اس کے بعد سود کے وکلاء یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سود ایک معاشی ضرورت ہے اور کچھ فوائد ایسے ہیں جو اس کے
مہاجنی کاروبار میں ایک مہاجن بالعموم یہ دیکھتا ہے کہ جو شخص اس سے قرض مانگنے آیا ہے وہ کس حد تک غریب ہے، کتنا
یہ ہے ان دلائل کی کل کائنات جو سود خوری کے وکیل اس کو عقل و انصاف کی رو سے ایک جائز و مناسب چیز
آخری توجیہہ میں ذرا زیادہ ذہانت صرف کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:انسان فطرۃً حاضر کے فائدے، لطف، لذت اور آسودگی کو
ایک اور گروہ کہتا ہے کہ نفع آوری سرمایہ کی ذاتی صفت ہے، لہٰذا ایک شخص کا دوسرے کے فراہم کردہ سرمایہ کو استعمال کرنا
اس تنقید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادی النظر میں سود کہ ایک معقول چیز قرار دینے کے لیے جو دلائل کافی
اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے جس دلیل سے ہم کو سابقہ پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے
اب تک ہم نے مسئلۂ زیر بحث کے بارے میں صرف قرآن و سنت کی تعلیمات پیش کی ہیں۔ اب ہم اس پر عقلی نقطۂ
قرآن میں اور بھی بہت سے گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے، اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں، لیکن اتنے سخت الفاظ کسی
یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان وجوہ کے علاوہ حرمتِ سود
اب اس امر پر غور کیجئے کہ بیع اور ربوٰا میں اصولی فرق کیا ہے، ربوٰا کی خصوصیات کیا ہیں جن کی وجہ سے اس
زمانہ جاہلیت میں ’’الرِّبٰوا‘‘ کا اطلاق جس طرزِ معاملہ پر ہوتا تھا، اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں۔قتادہؒ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰا
قرآن مجید میں سود کے لیے ’’ربوٰا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ ’ر ب و‘ ہے جس کے معنی میں زیادَت،
سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن اور سنت کی رُو سے ’’سود‘‘ کیا شے ہے، اس کے حدود کیا ہیں،
[اس موضوع پر مولانا مودودی صاحب نے ایک مبسوط کتاب تحریر کی ہے جس میں عقلی ، تاریخی اور شرعی نقطۂ نظر سے مسئلۂ سود
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ
– بٹائی کا یہ طریقہ اصولاً صحیح ہے کہ پیداوار جو کچھ بھی ہو اس میں سے مالک زمین اور کاشت کار متناسب طریق پر
سوال: ایک مقامی عالم نے جماعت کا منشور پڑھ کر دو سوالات کیے ہیں۔ ان کا جواب عنایت فرمایا جائے:۱۔ زرعی اصلاحات کے سلسلے میں
اب ذرا اس معاملے کو ایک دوسرے رخ سے بھی دیکھیے۔ اسلام کے احکام ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متناقض و متصادم
یہ شواہد و نظائر اس پورے دور کے عملدرآمد کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس میں قرآن کے منشا کی تفسیر خود قرآن کے لانے
موخر الذکر دونوں اصولوں کی بنیاد اس پور ے طرزِ عمل پر قائم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء نے
یہ عطائے زمین کا طریقہ محض شاہانہ بخشش و انعام کی نوعیت نہ رکھتا تھا بلکہ اس کے چند قواعد تھے جو ہم کو احادیث
پھر ’’موات‘‘ اور ’’خالصہ‘‘ دونوں طرح کی زمینوں میں سے بکثرت قطعات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی لوگوں کو عطا فرمائے، اور
’’موات‘‘ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدیم ترین اصول کی تجدید فرمائی جس سے دنیا میں ملکیت ِ زمین کا
مذکورہ بالا تین قسمیں تو ان اراضی کی تھیں جو پہلے سے مختلف قسم کے لوگوں کی ملکیت میں تھیں اور اسلامی نظام قائم ہونے
رہے وہ لوگ جو آخر وقت تک مقابلہ کریں اور بزورِ شمشیر مغلوب ہوں، تو ان کے بارے میں تین مختلف طرزِ عمل ہم کو
دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا مگر مصالحانہ طریقے سے اسلامی حکومت کے تابع بن کر رہنا قبول
پہلی قسم کی املاک کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اصول پر عمل فرمایا وہ یہ تھا:اِنَّ الْقَوْمَ اِذَا اَسْلَمُوْا اَحْرَزُوْا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں زمین کا انتظام کس طریقے پر کیا گیا تھا، اس کو سمجھنے کے لیے
سب سے پہلے میں یہ قاعدہ کلیہ آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب کسی رواجِ عام کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے تو
[زمین کی ملکیت کا مسئلہ دورِ حاضر کے چند مہتم بالشان مسائل میں سے ایک ہے۔ اس پر اس قدر بحث و مباحثہ ہوا ہے
قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاo وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا
كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌoالانعام 142:6کھائو ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰيo طٰہٰ131:20اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۰ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الروم38:30پس (اے مومن) رشتے دار کو اس کا حق دے
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَo النحل90:16اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم
’’ہم نے اس کتاب کے مختلف ابواب میں تفہیم القرآن کے حواشی سے متعلقہ مباحث مناسب مقام پر شامل کر دیئے ہیں۔ لیکن اس کے
آخری سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی نظام کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب یہ ہے کہ بالکل
تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا ہم بلا سود معاشی نظام قائم کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً کرسکتے ہیں۔
اب دوسرا سوال لیجئے ۔ پوچھا گیا ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب
اس مقام کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اسلامی فقہ میں مزارعت اور مضاربت کا جو قانون بیان کیاگیا ہے
اس کے علاوہ اسلام نے ایک قانونِ میراث بھی بنا دیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک شخص کم یا زیادہ، جو کچھ
اس رضاکارانہ انفاق کے بعد ایک چیز اور ہے جسے اسلام میں لازم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے زکوٰۃ جو جمع شدہ سرمایوں
پھر اسلام انفرادی دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی
اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی (equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (equitable) تقسیم چاہتا ہے۔ اس
اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائعِ پیداوار (Means of production) اور
یہ تین چیزیں ہیں جن کو آپ نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ آپ کی سمجھ میں
یسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے، اس لیے وہ انسانی معاشرے کو
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے
اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف
اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔
پہلے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ آیا اسلام نے کوئی معاشی نظام تجویزکیا ہے اور اگر کیا ہے تو اس نظام کا
حضرات، مجھے چند خاص سوالات پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے جنہیں میں سب سے پہلے آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں
ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افرادِ قوم میں گردش دینے اور مال داروں کے مال میں ناداروں کو حصہ دار بنانے کا انتظام
اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ
اپنی ضروریات پر خرچ کرنے اور راہِ خدا میں دینے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی جو دولت کسی ایک جگہ سمٹ کر رہ
جیسا کہ اوپر بیان ہوا، معاشیات میں اسلام جس مطمح نظر کو سامنے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے
جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ عیش و
دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے، کیوں کہ اس سے دولت کی
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے
ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قرآن اس اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کا بار صرف ان لوگوں پر پڑنا چاہیے جو
جو جائیدادیں اور اموال اور آمدنیاں حکومت کی ملک ہوں، ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کا صَرف محض دولت مند
جو لوگ خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنی املاک میں صحیح تصرف نہ کرسکتے ہوں اور ان کو ضائع کر رہے ہوں، یا بجا
قرآن مجید وراثت کا قانون مقرر کرنے کے ساتھ آدمی کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکے کے بارے
کسی مرد یا عورت کی وفات پر اس کے متروکہ مال کے متعلق قرآن کا قانون یہ ہے کہ یہ مال اس کے والدین، اس
ان دونوں مدات سے جو مال حاصل ہو وہ قرآن کی رو سے خزانہ عامہ (public exchequer) کا کوئی حصہ نہیں ہے جس کا مقصد
فرض زکوٰۃ عائد کرنے سے جو فنڈ فراہم ہوتا ہے اس پر قرآن نے ایک اور مد کا اضافہ بھی کیا ہے اور وہ ہے
قرآن نے اس تعلیم و ہدایت سے معاشرے کے افراد میں رضاکارانہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک عام روح پھونک دینے پر ہی اکتفا
یہ راہِ خدا کا خرچ، جسے قرآن کبھی انفاق، کبھی انفاق فی سبیل اللہ، کبھی صدقہ اور کبھی زکوٰۃ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے،
اس عام اور رضا کارانہ انفاق فی سبیل اللہ کے علاوہ قرآن مجید بعض گناہوں یا کوتاہیوں کی تلافی کے لیے مالی کفارے بھی مقرر
معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آدمی کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ
دوسری طرف قرآن مجید اس بات کی بھی سخت مذمت کرتا ہے کہ انسان جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو ناجائز کاموں میں اڑائے،
اس کے ساتھ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ زرپرستی، دولتِ دنیا کی حرص و ہوس، اور خوشحالی پر فخر و غرور انسان کی گمراہی
دولت حاصل کرنے کے غلط طریقوں کو حرام کرنے کے ساتھ قرآن مجید جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو بھی جمع کر کے روک
باطل طریقوں کی پوری تفصیل تو احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور قانونِ اسلامی کی کتابوں میں فقہاء نے بیان کی
اس غرض کے لیے قرآن یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا
قرآن اس حقیقت کو بھی بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے کہ خدا نے دنیا میں اپنی نعمتیں اسی لیے پیدا کی ہیں
قرآن اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے ایک پہلو کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح
اللہ تعالیٰ کی بالاتر ملکیت کے ماتحت اور اس کی عائد کردہ حدود کے اندر قرآن شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے:لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ
اسی بنیاد پر قرآن یہ اصول قائم کرتا ہے کہ انسان ان ذرائع کے اکتساب اور استعمال کے معاملے میں نہ تو آزاد ہونے کا
انسانی معیشت کے بارے میں اولین بنیادی حقیقت، جسے قرآن مجید بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے ، یہ ہے کہ تمام وہ
یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے اس پر غور کیجئے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان
اسلام نے زائد از ضرورت دولت کے جمع کرنے کو معیوب قرا ر دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں کہہ چکا ہوں، اس کا مطالبہ
تاہم مجرد اخلاقی تعلیم کے ذریعے سے، اور سوسائٹی کے اخلاقی اثر اور دبائو سے غیر معمولی حرص و طمع رکھنے والے لوگوں کی کمزوریوں
خرچ کرنے کے جتنے طریقے اخلاق کو نقصان پہنچانے والے ہیں یا جن سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے وہ سب ممنوع ہیں۔ آپ جُوئے
اب دیکھئے۔ جائز ذرائع سے جو کچھ انسان حاصل کرے اس پر اسلام اس شخص کے حقوقِ ملکیت تو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے
سب سے پہلے دولت کمانے کے سوال کو لیجئے۔ اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ خدا کی زمین میں وہ
اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار
پس درحقیقت اشتراکی نظریہ انسان کے معاشی مسئلے کا کوئی صحیح فطری حل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فطری مصنوعی حل ہے۔ اس کے مقابلے
انسانی تمدن و تہذیب کے لیے اس کا نقصان اس قدر زیادہ ہے کہ اگر بالفرض اس نظام کے تحت ضروریاتِ زندگی انصاف کے ساتھ
اول تو یہ اقتدار، اور ایسا مطلق اقتدار وہ چیز ہے جس کے نشے میں بہک کر ظالم و جابر بننے سے رک جانا انسان
یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ وسائل پیدائش سے کام لینے اور پیداوار کو تقسیم کرنے کا انتظام خواہ نظری طور پر (theoratically)
اس مسئلے کے حل کی ایک صورت اشتراکیت نے تجویز کی ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیدائش دولت کے وسائل افراد کی ملکیت سے
اس عالمگیر محاربے میں بینکروں، آڑھتیوں اور صنعت و تجارت کے رئیسوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تمام دنیا کے معاشی اسباب و وسائل پر
پھر یہ محاربہ جتنا جتنا بڑھتا جاتا ہے، مال دار طبقہ تعداد میں کم اور نادار طبقہ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس محاربے
یہ تو شیطانی رہنمائی کے ایک حصے کا نتیجہ تھا۔دوسری رہنمائی کے نتائج اس سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یہ اصول کہ اپنی اصلی ضرورت
پہلی شیطانی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت مندوں نے جماعت کے ان افراد کا حق ماننے سے انکار کر دیا جو دولت کی
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں، اور خرابی کی نوعیت کیا ہے۔نظامِ معیشت کی خرابی کا نقطۂ آغاز خود غرضی
اب اگر ہم اصطلاحی اور فنی پیچیدگیوں سے بچ کر ایک سیدھے سادھے طریقے سے دیکھیں تو انسان کا معاشی مسئلہ ہم کو یہ نظر
اصطلاحات کے چکر اور فنی پیچیدگیوں کے طلسمات نے اس مسئلے کو جس قدر الجھایا ہے اس پر مزید الجھن اس وجہ سے بھی پیدا
(یہ مقالہ 30؍اکتوبر 1941ء کو ’’انجمن اسلامی تاریخ و تمدن‘‘، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں پڑھا گیا تھا۔ (مرتب) موجودہ
(یہ مقدمہ مولانا محترم کی اس تقریر پر مشتمل ہے جو انہوں نے ریڈیو پاکستان، لاہور سے 2؍مارچ 1948ء کو ’’اسلام کے اقتصادی نظام‘‘ کے
اس وقت پوری دنیا میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔اس اضطراب کی تہ میں جو قوتیں کارفرما ہیں اور جن کی
یہ میری ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو پچھلے ۳۰۔۳۵ سال کے دوران میں مختلف مواقع پر میں نے اسلام کے معاشی اصول و احکام
Crafted With by Designkaar