ہمارا لائحۂ عمل
ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے چار
ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے چار
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلام
حضرات! یہ ہے تفصیلی جائزہ ہماری پچھلی تاریخ کا اور ہماری موجودہ حالت کا۔ یہ جائزہ میں نے کسی کو مطعون کرنے کے لیے نہیں
ہمارے ہاں ایک دوسرے گروہ کا ردِّ عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ پہلا گروہ اگر آنے والے سیلاب میں بہہ نکلا تو یہ دوسراگروہ
ہم میں سے ایک گروہ کا ردِّعمل یہ تھا کہ یہ طاقت اور ترقی یافتہ قوم جو ہم پرحکم ران بن کر آئی ہے، اس
اس کے بعد ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا ہے کہ اس غالب تہذیب کے ہجوم کا ردِّ عمل ہمارے ہاں کس کس شکل میں ہوا
پھر انھوں نے اپنے سیاسی نظرئیے اور سیاسی ادارے بھی ہم پر مسلّط کیے جو ہمارے دین اور ہماری دنیاکے لیے کسی دوسری چیز سے
انھوں نے اپنے اخلاقی مفاسد اور معاشرتی طور طریقے ہم پر مسلط کیے اور اس طرح مسلّط کیے کہ ان کے ہاں تقرب کا مقام
انھوں نے اپنے قوانین ہم پر مسلّط کیے اور ان سے صرف عملاً ہی ہمارے نظام تمدن و معاشرت کی شکل وصورت کو تبدیل نہ
انھوں نے اپنا معاشی نظام اپنے معاشی فلسفے اورنظریات سمیت ہم پر مسلّط کیا اور اس طرح مسلّط کیا کہ رزق کے دروازے بس اسی
انھوں نے اپنی تعلیم ہم پر مسلط کی، اور اس طرح مسلط کی کہ رزق کی کنجیاں ہی لے کر اپنی تعلیم گاہوں کے دروازوں
یہ سیاست تھی، یہ اخلاقیات تھے، یہ فلسفے تھے اور مذہب کے بارے میں یہ خیالات تھے ان لوگوں کے جو ہماری تاریخ کے منحوس
یہ تھے وہ اخلاقیات جو فاتحانہ رعب داب کے ساتھ آئے اور ہم پر حکم ران ہوئے۔ اب اس سیاسی نظام کو لیجئے جو یہاں
یہ تھے وہ فلسفے اور وہ عقائد وافکار جو فاتح تہذیب کے ساتھ آئے اور ہم پر مسلط ہوئے۔ اب دیکھیے کہ اخلاق کے معاملے
اسی کا ہم جنس ایک اور فلسفہ تھا جو ڈارون ہی کے زمانے میں مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے بطن سے نکلا۔ اس کی
دوسرا فلسفہ جو انیسویں صدی میں ابھرا اور انسانی ذہنوں پر چھایا وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا پیدا کردہ تھا۔ مجھے یہاں ان کے
ان میں سے پہلا نظریہ وہ ہے جو ہیگل نے تاریخ انسانی کی تعبیر کے سلسلے میں پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے
یہ تو تھا مذہب کے بارے میں اس آنے والی فاتح تہذیب کا رویہ، اب دیکھیے کہ اس کا اپنا فلسفۂ حیات کیا تھا جسے
جن صدیوں میں ہم مسلسل انحطاط کی طرف جا رہے تھے، ٹھیک وہی صدیاں تھیں، جن میں یورپ نشاۃ جدیدہ کی ایک نئی تحریک کے
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ قوم جو مغرب سے آ کر ہم پر مسلّط ہوئی، جس کی طاقت سے ہم مغلوب ہوئے اور جس
اس کے بعد جب ذہنی حیثیت سے ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی صدیوں سے ہمارے ہاں علمی
یہ تھی ہماری مذہبی حالت جس نے انیسویں صدی میں ہم کو غلامی کی منزل تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ لیا تھا اور آج
اس کی تحقیق کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اُس وقت کی دینی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ ہمارے لیے سب سے
پچھلی صدی میں جو غلامی ہم پر مسلّط ہوئی تھی وہ درحقیقت ہمارے صدیوں کے مسلسل مذہبی، اخلاقی، ذہنی انحطاط کا نتیجہ تھی۔ مختلف حیثیتوں
اس توضیح کے بعد ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے وضاحت کے ساتھ اپنی قوم کی موجودہ خرابیوں کا جائزہ لیا ہے،
لیکن اس پروگرام کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں پیدا ہو سکتی
(یہ وہ تقریر ہے جو ۱۱؍نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں کی گئی تھی) حمد وثنا کے بعد!حاضرین وحضرات! میں
Crafted With by Designkaar