استدراک
اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدد اصحاب نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ اسلامی جماعت کو قوم کے بجائے پارٹی کہنے سے اس
اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدد اصحاب نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ اسلامی جماعت کو قوم کے بجائے پارٹی کہنے سے اس
زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت
اب مجھے چند الفاظ مولانا سندھی کے اس آخری فقرے کے متعلق بھی عرض کرنے ہیں جس میں انھوں نے نکر اور پتلون اور ہیٹ
وہ محض طفلانہ خام خیالی ہے جس کی بنا پر اس ملک کے سیاسی لیڈر بغیر سوچے سمجھے رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اجنبی طاقت
اچھا اب اس سوال پر غور کیجیے کہ یہاں ایک تہذیبی قومیت کس طرح پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے اِمکانی نتائج کیا ہوں گے؟جس
اس تجزیہ کو سامنے رکھ کر ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالیے۔کیا فی الواقع یہاں نیشنلزم کی بنیاد موجود ہے؟ بلاشبہ سیاسی قومیت یہاں ضرور
کسی ملک میں نیشنلزم پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پہلے سے ایک قومیت موجود ہو یا اگر وہ پہلے سے موجود نہیں
پچھلے صفحات میں یہ بات اصولی حیثیت سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ اجتماعیات میں نیشنلزم کا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر سے کُلی
اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ میں آزادی اور ترقی اور وقار و شرف حاصل کرنے کا ایک ہی مجرب نسخہ دنیا کی قوموں
یورپین اصول پر جب نیشنلزم کو ترقی دی جائے گی تو وہ بالآخر اسی مقام پر پہنچ کر دم لے گی جو لوگ ابھی بیچ
میں نے مغربی نیشنلزم اور اس کے اندازِ فکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہلِ مغرب کے الفاظ
یہ تو وہ بات تھی جو نیشنلزم کے بالکل ابتدائی مفہوم پر غور کرنے سے نکلتی ہے۔ اب ہمیں ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھنا
سرسری نظر میں جو شخص نیشنلزم کے معنی اور اس کی حقیقت پر غور کرے گا اس سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی کہ
۱- ’’اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے اور چھاتا چلا جارہا ہے
جناب مولانا عبیداللہ سندھی ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد جب ہندوستان واپس تشریف لائے تو جمعیت علمائے بنگال نے ان کو اپنے کلکتہ
مولانا نے اپنے ذہن میں ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے جس کے حدود انھوں نے تمام شرعی شرائط کو ملحوظ
معنی قومیت کی تشریح کے لیے ان عبارات پر پھر ایک نظر ڈال لیجیے جو اسی مضمون میں لارڈ برائس کی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘
مولانا ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:’’(متَّحدہ وطنی قومیت) کی مخالفت کا فتویٰ صرف اس بنا پر کہ وطنیت کا مفہوم مغرب کی اصطلاح میں آج
پھر مولانا اس متَّحدہ قومیت کے جواز میں ایک اور دلیل پیش فرماتے ہیں اور وہ یہ ہے:’’ہم روزانہ مفاد ہائے مشترکہ کے لیے ہیئاتِ
آگے چل کر مولانا دعویٰ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے مدینہ طیبہ میں یہود اور مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت بنائی تھی، اور اس کے ثبوت
اس کے بعد مولانا لُغت عربی کی طرف رجوع فرماتے ہیں اور شواہد سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ عربی زبان میں قوم کے معنی
مولانا فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ لیکن یہ ایک قطعی غلط اور سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ پوری انسانی تاریخ
اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ مولانا اپنے مُدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے مشہور اور بیّن واقعات کو بھی صاف نظرانداز کرجاتے
ایک مصنف کی تصنیف میں سب سے پہلے جس چیز کو تلاش کرنا چاہیے، وہ اس کا زاویۂ نظر ہے۔ اس لیے کہ اپنے موضوع
اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب ، صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔{ مجلس قاسم العلوم دیوبند
(یہ ایک مختصر تقریر ہے جو ربیع الاوّل ۵۳ھ میں انجمن مجددیہ حیدرآباد کے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی گئی تھی)الحمد للّٰہ رب العٰلمین
آج مغربی قوموں سے سبق سیکھ کر ہر جگہ کے مسلمان نسلیت اور وطنیت کے راگ الاپ رہے ہیں۔ عرب عربیت پر ناز کر رہا
یہ فتنہ جس کے ظاہر ہونے کا سیّدالکونینؐ کو اندیشہ تھا، حقیقت میں ویسا ہی مہلک ثابت ہوا جیسا آپؐ نے فرمایا تھا۔ قرنِ اوّل
رسول اللہﷺ کو اپنے آخری زمانہ میں سب سے زیادہ خطرہ جس چیز کا تھا وہ یہی تھی کہ کہیں مسلمانوں میں جاہلی عصبیتیں پیدا
ان شواہد سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی قومیّت کی تعمیر میں نسل و وطن اور زبان و رنگ کا قطعاً
پھر جنگ ِ بدر اور جنگ ِ اُحد میں مہاجرین مکہ دین کی خاطر خود اپنے رشتہ داروں سے لڑے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن
دوسری طرف اہلِ مدینہ نے رسول اکرمﷺاور مہاجرین کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے جان و مال خدمت ِ اقدس میں پیش کر دیے۔
اس جماعت نے اسلام کے تبر(کلہاڑے) سے عصبیت کے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جو نسل اور وطن، رنگ اور زبان وغیرہ کے نام
اس جماعت میں جس کی شیرازہ بندی اسلام کے تعلق کی بنا پر کی گئی تھی خون اور خاک، رنگ اور زبان کی کوئی تمیز
یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اسلام نے تمام انسانی اور مادی رشتوں کو قطع کردیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس نے مسلمانوں کو صلہ رحمی
اس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادی، حسی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دُنیا کی مختلف قومیتوں
اس بیان سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کے بعد اسلام کی دعوتِ حق کا اگر کوئی
اسلام جب ظاہر ہوا تو اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی نسل و وطن کے تعصبات و امتیازات تھے۔رسول اللہ ﷺکی اپنی
ٹھیک یہی بات ہے جو اسلام کہتاہے۔ اس نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادی اور حسی فرق کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ کہتا
اس تنقید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نسلِ انسانی میں یہ جتنی تفریقیں کی گئی ہیں ان کے لیے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔
نظامِ حکومت کا اِشتِراک بجائے خود ایک ناپائیدار اور ضعیف البیان چیز ہے اور اس کی بناپر ہرگز کسی مستحکم قومیّت کی تعمیر ممکن نہیں
معاشی اَغراض کا اِشتِراک انسانی خود غرضی کا ایک ناجائز بچہ ہے۔ قدرت نے اس کو ہرگز پیدا نہیں کیا۔ آدمی کا بچہ کام کرنے
انسانی جماعتوں میں رنگ کا امتیاز سب سے زیادہ لغو اور مہمل چیز ہے۔ رنگ محض جسم کی صفت ہے، مگر انسان کو انسان ہونے
اِشتِراکِ زبان کا فائدہ صرف اس قدر ہے کہ جو لوگ ایک زبان بولتے ہیں وہ باہمی تفاہُم اور تبادلۂ خیالات کے زیادہ مواقع رکھتے
مرزبوم کے اِشتِراک کی حقیقت اس سے زیادہ موہوم ہے، انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اس کا رقبہ یقینًا ایک گز مربع سے زیادہ
نسلیّت کیا ہے؟ محض خون کا اِشتِراک۔ اس کا نقطۂ آغاز ماں اور باپ کا نطفہ ہے جس سے چند انسانوں میں خونی رشتہ پیدا
تھوڑی دیر کے لیے اس پہلو سے قطع نظر کرلیجیے۔ یہ جتنے اِشتِراکات آج قومیت کی بنیاد بنے ہوئے ہیں ان کو خود ان کی
اس قسم کی قومیت کا فطری اِقتضا یہ ہے کہ وہ انسان میں جاہلانہ عصبیت پیدا کرے۔ وہ ایک قوم کو دوسری قوم سے مخالفت
یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ بنیادیں جن پر دنیا کی مختلف قومیتیں تعمیر کی گئی ہیں، انھوں نے بڑی قوت کے ساتھ جماعتوں کی
قومیت کا قیام وحدت و اشتراک کی کسی ایک جہت سے ہوتا ہے، خواہ وہ کوئی جہت ہو۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس میں
اس میں شک نہیں کہ قومیت کی ابتداء ایک معصوم جذبہ سے ہوتی ہے، یعنی اس کا مقصد اوّل یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص
وحشت سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اُٹھتے ہی ضروری ہوجاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو اور مشترک
قوم، قومیّت اور قوم پرستی کے الفاظ آج کل بکثرت لوگوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں، لیکن کم لوگ ہیں جن کے ذہن میں
Crafted With by Designkaar