دو ٹوک بات
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے ہم نئے دَور کے ان مجتہدین سے ایک بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتے ہیں:اوّل یہ کہ
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے ہم نئے دَور کے ان مجتہدین سے ایک بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتے ہیں:اوّل یہ کہ
ان تمام غلط تاویلات اور من گھڑت شرطوں کے بعد آخری سہارا اس واقعے سے لیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
بعض حضرات انھی خارجی اثرات سے متاثر ہو کر تعددِ ازواج کی اجازت کو صرف اُن حالات تک محدود رکھنے پر اصرار کرتے ہیں جب
آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس طرح کی تاویلات کرنے والے حضرات کو ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی
ایک اور تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۳ تعددِ ازواج کو زیادہ سے زیادہ بس مباح ہی قرار دیتی
اس سے بھی زیادہ مضحکہ انگیز استدلال یہ لوگ سورۂ نساء کی آیت نمبر۱۲۹ سے کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:وَلَنْ تَسْتَطِیَعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا
چوتھی چیز متجد دین کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ:’’سورۂ نور کی آیت نمبر۳۳ میں طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ
تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ:’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیونکہ میں اس
دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ:’’ایک سے زائد نکاح اگر کیے بھی جائیں تو ان کو لازمًا یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے،
اپنے اس بے بنیاد دعوے پر یہ لوگ تاویلات کی جو عمارت کھڑی کرتے ہیں اس کا ہر جُز خود اس دعوے سے بھی زیادہ
اس آیت کے الفاظ پر بار بار غور کیجیے۔ اس میں کہیں کوئی اشارہ اور کنایہ تک آپ ایسا نہ پائیں گے جس سے یہ
قرآن مجید کی وہ اصل آیت، جو اسلام کے قانون تعددِ ازواج کی بنیاد ہے، سورۂ نساء کے آغاز میں ہم کو حسب ذیل الفاظ
آج کل ایک گروہ یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ تعدد ازواج کے متعلق اسلامی قانون کا جو
Crafted With by Designkaar