تبلیغ کفر کے باب میں اسلامی رویے کی معقولیت
سائل کا آخری سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کے دائرے میں تبلیغ کفر کی اجازت نہیں ہے تو عقلی حیثیت سے اس ممانعت
سائل کا آخری سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کے دائرے میں تبلیغ کفر کی اجازت نہیں ہے تو عقلی حیثیت سے اس ممانعت
اس سلسلے میں ایک آخری سوال اور باقی رہ جاتا ہے جو ’’قتل مُرتد‘‘ کے حکم پر بہت سے دماغوں میں تشویش پیدا کرتا ہے۔
پچھلے صفحات میں ہم نے دنیا کے دوسرے نظاموں سے سزائے ارتداد کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ایک اور الجھن کو بھی رفع
یہاں پہنچ کر ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال الجھن پیدا کرنے لگتا ہے کہ ابتداء ً کافر ہونے اور اسلام سے مرتد
یہ ایک جداگانہ بحث ہے کہ ایک اسٹیٹ کا وجود بجائے خود جائز ہے یا نہیں۔ اس معاملہ میں ہمارا اور دنیوی ریاستوں (Secular States)
برطانیہ کے بعد اب دنیا کے دوسرے علم بردار جمہوریت ملک امریکا کو لیجیے۔ اس کے قوانین اگرچہ تفصیلات میں کسی حد تک برطانیہ سے
مثال کے طور پر انگلستان کو لیجیے۔ انگریزی قانون جن لوگوں سے بحث کرتا ہے وہ دو بڑی قسموں پر تقسیم ہوتے ہیں: ایک برطانوی
یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا مذہبی ریاست بجائے خود صحیح ہے یا نہیں۔ چونکہ اہل مغرب کی پشت پر پاپایان روم کی ایک
اوپر ہم نے قتل مرتد پر اعتراض کرنے والوں کے جو دلائل نقل کیے ہیں اور ان کے جواب میں اپنی طرف سے جو دلائل
قتل مرتد کو جو شخص یہ معنی پہناتا ہے کہ یہ محض ایک رائے کو اختیار کرنے کے بعد اسے بدل دینے کی سزا ہے
حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اسی معنی میں ایک ’’مذہب‘‘ کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج تک بولا
قتل ِ مرتد پر زیادہ سے زیادہ جو اعتراضات ممکن ہیں وہ یہ ہیں:اوّلاً، یہ چیز آزادی ضمیر کے خلاف ہے۔ ہر انسان کو یہ
اب ہمیں سوال کے دوسرے پہلو سے بحث کرنی ہے، یعنی یہ کہ اگر اسلام میں واقعی مرتد کی سزا قتل ہے اور وہ فی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں حکومت کی مستقل پالیسی یہی تھی جو اوپر بیان ہوئی۔ عرب میں مسیلمہ، اسود
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی جو آزادی بخشی گئی ہے اور جزیہ کے معاوضے میں ان کی جان
اسلام جس غرض کے لیے اپنی حکومت قائم کرتا ہے وہ محض انتظام ملکی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک واضح اور متعین مقصد ہے
اس سوال کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی موقف کو اور اسلامی حکومت کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اسلام
یہاں تک ہماری بحث پہلے سوال سے متعلق تھی، یعنی یہ کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے یا نہیں۔ اب ہم دوسرے سوال
اب بحث طویل ہو جائے گی اگر ہم پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک کے فقہا کی تحریریں مسلسل نقل کریں۔
مگر ان سب نظیروں سے بڑھ کر وزنی نظیر اہل رِدّہ کے خلاف حضرت ابوبکرؓ صدیق کا جہاد ہے۔ اس میں صحابہ کرام کی پوری
اس کے بعد دَور خلافت راشدہ کے نظائر ملاحظہ ہوں:(۱) حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ایک عورت جس کا نام ام قرفہ تھا اسلام لانے
یہ تو ہے قرآن کا حکم۔ اب حدیث کی طرف آیئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(۱) من بدل دینہ فاقتلوہ ۔’’جو شخص
ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو
یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اُس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہو
یہ مختصر مضمون ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا اور رسالہ ترجمان القرآن کے اکتوبر ۱۹۴۲ء سے جون ۱۹۴۳ء تک کے پرچوں میں
دین سے ناواقفیت کی بنا پر اس وقت مسلمانوں میں جس بڑے پیمانہ پر فتنۂ ارتداد پھیل گیا ہے اس کے پیش نظر اس مسئلہ
Crafted With by Designkaar