قادیانی مسئلہ اوراس کاصحیح حل
گذشتہ ماہ مئی ۱۹۷۴ء کے حادثہ ربوہ(اب چناب نگر) پرمسلمانوںمیںجوردعمل واقع ہوااورغلام احمدی امت کوامت محمدیہ علیٰ صاحب ہاالصلوۃ والسلام سے الگ کرنے کے لیے
گذشتہ ماہ مئی ۱۹۷۴ء کے حادثہ ربوہ(اب چناب نگر) پرمسلمانوںمیںجوردعمل واقع ہوااورغلام احمدی امت کوامت محمدیہ علیٰ صاحب ہاالصلوۃ والسلام سے الگ کرنے کے لیے
فیصلہنقل فیصلہ ازعدالت شیخ محمداکبرصاحب پی سی ایس ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی ‘ مورخہ ۳جون ۱۹۵۵ء دراپیل ہائے دیوانی نمبر۳۳‘۳۴‘۱۹۵۵ء ازمسماۃ امتہ الکریم بنام لیفٹیننٹ
۲۴/جولائی ۱۹۲۶ء کوموضع مہاندتحصیل احمدپورشرقیہ ریاست بہاولپورکے ایک باشندے مولوی الٰہی بخش نے اپنی لڑکی غلام عائشہ کی طرف سے احمدپورشرقیہ کی ماتحت عدالت میںعبدالرزاق
’’میراذہن یہ سوچنے پرمجبورہے کہ قادیانیت پرمیرے مضمون سے‘جومحض ایک مذہبی اصول کی جدیدطرزپرتشریح سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔پنڈت جی اورقادیانی حضرات دونوںشایداس لیے بوکھلاگئے
(روزنامہ اسٹیٹسمین نے ڈاکٹر محمد اقبال کا ایک مضمون بعنوان ’’قادیانی اور راسخ العقیدہ مسلمان ‘‘ ادارتی تنقید کے ساتھ شائع کیاتھا۔ مندرجہ ذیل خط
’’تاریخی طور پر اسلام کے اندر سے اٹھنے والا ہر وہ مذہبی گروہ جس کی بنیاد ایک نئی نبوت کے دعوے پر رکھی گئی ہو
(۱) ’’بنیادی اصولوںکی رپور ٹ میں علمائکی طرف سے پیش کردہ ترامیم ‘‘پاکستان کے مختلف مکاتیب فکر کی نمائندگی کرنے والے تینتیس نامور علمائ دستور
۱۶۔’’اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے صاف حکم دیا کہ غیر احمدیوں کے ساتھ ہمارے کوئی تعلقات ان کی غمی اور شادی کے معاملات
۵۔ ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا ، وہ خدااور رسول کی
۱۔ ’’یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لیے محدث ہو کر آیاہے او رمحدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتاہے۔
اس امر میں بھی مرزا صاحب کاموقف مختلف رہا ہے کہ جو لوگ ان کو نہ مانیں ان کی پوزیشن کیاہے۔ اس سلسلے میں مختلف
مرزاصاحب نے خودیہ اصول بھی بصراحت بیان کیاہے کہ ایک نبی ایک امت وجودمیںلاتاہے اورپھرانھوںنے خودہی اپنی جماعت کوامت کہابھی ہے۔اس کے ثبوت میںچندعبارات درج
۶۔’’اوریہی عیسیٰ ہے جس کاانتظارتھا‘اورالہامی عبارتوںمیںمریم اورعیسیٰ سے میںہی مرادہوں۔میری نسبت ہی کہاگیاکہ ہم اس کونشان بنادیںگے اورنیزکہاگیاکہ یہ وہی عیسیٰ ابن مریم ہے جوآنے
۱۔’’اس عاجزنے جومثیل موعودہونے کادعویٰ کیاہے‘جس کوکم فہم لوگ مسیح موعودخیال کربیٹھے ہیں‘یہ کوئی نیادعویٰ نہیںہے جوآج ہی میرے منہ سے سناگیا ہو… میںنے یہ
مسیح علیہ السلام اوران کی آمدثانی اورخوداپنے مسیح موعودہونے کے باب میں مرزاصاحب کاموقف مختلف مراحل میںمختلف رہاہے۔اس کانقشہ ذیل میںملاحظہ ہو۔
۹۔’’یہ کس قدرلغواورباطل عقیدہ ہے کہ ایساخیال کیاجائے کہ بعدآنحضورؐکے وحی الٰہی کادروازہ ہمیشہ کے لیے بندہوگیااورآئندہ کوقیامت تک اس کی کوئی بھی امیدنہیں۔ صرف
۶۔’’ہم بھی نبوت کے مدعی پرلعنت بھیجتے ہیںاورلاالہ الاّاللہ محمدرسول اللہ کے قائل ہیں اورآنحضرتؐ کی ختم نبوت پرایمان رکھتے ہیںاوروحی نبوت نہیںبلکہ وحی ولایت
۱۔’’اگرہم اپنے نبیؐ کے بعدکسی نبی کاظہورجائزقراردیںتوگویاہم باب وحی بندہو جانے کے بعداس کاکھلناجائزقراردیںگے اوریہ صحیح نہیں‘جیساکہ مسلمانوں پر ظاہر ہے۔ اورہمارے رسول اللہ ؐکے
(۱۱)ختم نبوت کی طرح وحی اورنزول جبرئیل کے متعلق مرزاصاحب کاموقف مختلف مراحل میںپیہم بدلتارہاہے جس کی کیفیت ذیل میںدرج کی جاتی ہے۔
۶۔’’میںظلی طورمحمدؐہوں‘پس اس طورسے خاتم النبیین کی مہر نہیںٹوٹی کیونکہ محمدؐکی نبوت محمد تک ہی محدودرہی ‘یعنی بہرحال محمدؐہی نبی رہانہ اورکوئی۔یعنی جب کہ میںبروزی
۵۔ ’’خدا نے ایسا کیاکہ اپنی حکمت اور لطف سے آپ کے (یعنی محمدؐ کے) بعد تیرہ سو برس تک اس لفظ (یعنی نبوت )
۳۔ ’’اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا ، یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو
۱۔ ’’اگر ایک امتی کو ، جو محض پیروی آنحضرت ؐ سے درجہ وحی اور الہام اور نبوت کا پاتاہے ، نبی کے نام کااعزاز
(۱۰) ان مختلف دعوئوں کو نبھانے کے لیے مرزا صاحب نے اور ان کی جماعت نے مختلف مواقع پر ختم نبوت کی جو مختلف تاویلیں
(۱) اس امت میں نبی کانام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں۔ (حقیقۃ الوحی
’’دنیامیںکوئی نبی نہیںگزراجس کانام مجھے نہیںدیاگیا۔سوجیساکہ براہین احمدیہ میں خدانے فرمایاہے میںآدم ہوں‘میںنوح ہوں‘میںابراہیم ہوں‘میںاسحاق ہوں‘ میں یعقوب ہوں‘میںاسماعیل ہوں‘میںموسیٰ ہوں‘میںدائودہوں‘میںعیسیٰ ابن مریم ہوں‘ میں
’’میںبموجب آیت واخرین منھم لمایلحقوابھم بروزی طورپروہی خاتم الانبیا ہوںاورخدانے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میںمیرانام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے
’’جس طرح حقیقی اورمستقل نبوتیں،نبوت کی اقسام ہیںاسی طرح ظلی اوربروزی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے…مسیح موعودکاظلی نبی ہونامسیح موعودسے نبوت کونہیں چھینتابلکہ
’’یہ بھی توسمجھوکہ شریعت کیاچیزہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چندامرونہی بیان کیے اوراپنی امت کے لیے ایک قانون مقررکیاوہی صاحب شریعت ہوگیا…
’’اب بجزمحمدی نبوت کے سب نبوتیںبندہیں۔شریعت والانبی کوئی نہیںآسکتااور بغیرشریعت کے نبی ہونہیںسکتامگروہی جوپہلے سے امتی ہے‘پس اس بناپرمیںامتی بھی ہوں اورنبی بھی۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ‘مرزاغلام
’’بعدمیںخداکی وحی بارش کی طرح میرے پرنازل ہوئی۔اس نے مجھے اس عقیدے پرقائم نہ رہنے دیااورصریح طورپرنبی کاخطاب مجھے دیاگیا۔مگراس طرح سے کہ ایک پہلوسے
۶۔پھرمرزاصاحب نے نبوت کادعویٰ کیااوراس دعوے کی بھی ایک شکل نہ تھی بلکہ مختلف مواقع پرمتعددشکلیں تھیں۔
(۸) مرزا صاحب کی جن تحریرات سے مسلمانوں کے دلوں میں یہ شبہ پیداہواتھا کہ وہ نبوت کے مدعی ہیں یا دعویٰ کرنے والے ہیں
(۷) ختم نبوت کے متعلق مرزا صاحب کا ابتدائی عقیدہ وہی تھا جو تمام مسلمانوں کاہے ، یعنی یہ کہ محمدﷺ پر نبوت ختم ہوگئی
(۱) ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۸ء : اس دور میں مرزا صاحب محض ایک مبلغ اسلام اور غیر مسلم حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت
(مرزا غلام احمد صاحب کی تحریک کے مختلف مراحل ، ان میں مرزا صاحب کے مختلف دعوے اور قادیانی عقیدہ وعمل پر ان دعوئوں کے
وکونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامتہ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر۔(روح المعانی جلد
اذا لم یعرف الرجل ان محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم اخر الانبیاء فلیس بمسلم ولو قال انا رسول اللّٰہ اوقال بالفارسیتہ من پیغمبرم یریدبہ من پیغمبرم
وقال اھل السنۃ والجماعت لانبی بعد نبینا لقولہ تعالیٰ ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین وقولہ علیہ السلام لانبی بعدی ومن قال بعد نبینانبی یکفر
ودعویٰ النبوۃ بعد نبیناصلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالاجماع۔(شرح فقہ اکبر، ص ۲۰۲)اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے باجماع
اذالم یعرف ان محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخرالانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات (الاشباہ والنظائر، کتاب السیر،باب الردۃ) (ص ۱۷۹)اگر آدمی یہ نہ سمجھے
ان کل من ادعی ھذاالمقام بعدہ فھوکذاب افاک دجال ضال مضل۔(تفسیر القرآن جلد ۳ ، ص ۴۹۴)ہر وہ شخص جو نبی اکرم ﷺ کے بعد
وکذالک من قال …او ان بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا غیرعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فانہ لایختلف اثنان فی تکفیرہ(الملل والنحل،جلد۳ ، ص
ومن ادعی النبوۃ لنفسہ اوجوز اکتسابھاوالبلوغ بصفاء القلب الٰی مرتبتھاکالفلاسفۃ وغلاۃ والمتصوفۃ وکذٰلک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لمیدعی النبوۃ…فھولاء کلھم کفار مکذبون
ان الامۃ فھمت بالاجماع من ھذا اللفظ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا اوعدم رسول بعدہ ابداوانہ لیس فی تاویل ولاتخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلامہ
وان الوحی قد انقطع مذمات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، برھان ذٰلک ان الوحی لا یکون الا الی نبی وقد قال عزوجل ماکان محمد ابا
وتنبارجل فی زمن ابی حنیفۃ وقال امھلونی حتیٰ اجی بالعلامات فقال ابوحنیفۃ من طلب منہ علامۃ فقد کفر لقولہ علیہ السلام لانبی بعدی۔ روح البیان
عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور مدعی نبوت کی تکفیر کے باب میں علما اُمت کے اقوال
صاحب تفسیر ’’روح المعانی ‘‘ متوفی ۱۲۷۰ھ/۱۸۵۳ءوالمراد بالنبی ماھواعم من الرسول فیلزم من کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین کونہ خاتم المرسلین والمراد یکون
قراء الجمہور خاتم بکسر التاء وقراء عاصم بفتح تاومعنی القراۃ الاولیٰ انہ ختمھم ای جاء اخرھم ومعنی القراۃ الثانیۃ انہ صار کالخاتم لھم الذی یختمون
وخاتم النبیین‘قراء عاصم بفتح التاء وھوآلۃ الختم بمعنی مایختم بہ کا لطابع بمعنی مایطبع بہ والمعنی وکان اخرھم الذی ختموابہ وبالفا ر سیۃ مہرپیغمبراں‘یعنی بدومہرکردہ
وکان اللّٰہ بکل شئی علیماای علیما بان لانبی بعدہ واذانزل عیسیٰ یحکم بشریعتہ۔ (ص ۷۶۸)یعنی اللہ اس بات کوجانتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
فھٰذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ واذاکان لانبی بعدہ فلارسول بالطریق الاولیٰ والاخریٰ لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی
وخاتم النبیین‘ختم اللّٰہ بہ النبوۃ فلانبوۃ بعدہ ولامعہ…وکان اللّٰہ بکل شی ئٍ علیما‘ای دخل فی علمہ ان لانبی بعدہ۔ (ص ۴۷۱۔۴۷۲)وخاتم النبیین‘یعنی اللہ نے آپﷺ
صاحب’’مدارک التنزیل‘‘ متوفی ۷۱۰ھ /۱۳۱۰ء۔وخاتم النبیین…ای اخرھم‘یعنی لاینباء احدبعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ وحین ینزل عاملاًعلیٰ شریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم کانہ بعض امتہ۔(ص۴۷۱)وخاتم النبیین
ای اخرھم الذی ختمھم اوختموا۔ولایقدح فیہ نزول عیسیٰ بعدہ لانہ اذانزل کان علی دینہ۔ (جلد۴‘صفحہ۱۶۴)یعنی آپ انبیا میںسب سے آخری ہیںجس نے ان پرمہرکردی یاجس
وخاتم النبیین وذٰلک لان النبی الذی یکون بعدہ نبی ان ترک شیئًا من النصیحۃ والبیان یستدرکہ من یاتی بعدہ وامامن لانبی بعدہ یکون اشفق علیٰ
تفسیرکشاف۴۶۷ھ/۱۰۷۵ء۔۵۳۸ھ/۱۱۴۴ءفان قلت کیف کان اخرالانبیاء وعیسیٰ ینزل فی اخرالزمان قلت معنیٰ کونہ اخرالانبیاء انہ لاینبااحدبعدہ وعیسیٰ ممن نبی قبلہ وحین ینزل ینزل عاملاعلی شریعۃ محمدمصلیاالیٰ
ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیھافلا تفتح لا حدبعدہ‘الی قیام الساعۃ…واختلفت القراء فی قراۃ قولہ وخاتم النبیین فقراذٰلک قراء الامصارسوی الحسن
(آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین کی تفسیرمیںتیسری صدی ہجری سے تیرھویںصدی ہجری تک کے تمام اکابرمفسرین کے اقوال)
(۱) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء کلماھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفائ۔(بخاری‘کتاب المناقب ‘باب ماذکرعن بنی اسرائیل)نبی
ثم انہ علیہ السلام حین ینزل باق علیٰ نبوت السابقۃ لم یعزل عنھابحال لکنہ لایتعبدبھالنسخھافی حقہ وحق غیرہ وتکلیفہ باحکام ھذہ الشریعۃ اصلاوفرعافلایکون الیہ علیہ
وقدثبت فی الاحادیث الصحیحۃ ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی اخرالزمان…ویحکم بین العبادبالشریعۃ المحمدیۃ۔ (فتح القدیر)احادیث صحیحہ میںثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آخرزمانے میںنازل
وعیسیٰ اذانزل یحکم بشرعہ…وارادۃ اللّٰہ ان لا ینسخ شریعتہ بل من شرفہ نسخھالجمیع الشرائع ولھذااذاانزل عیسیٰ انمایحکم بھا۔(شرح مواہب اللدنیہ جلد۳،ص۱۱۶)اورعیسیٰ علیہ السلام جب نازل
بتحقیق ثابت شدہ است باحادیث صحیحہ کہ عیسیٰ فرودمی آیدومی باشدتابع دین محمدوحکم می کند‘بشریعت آنحضرتﷺ۔ (اشعتہ اللمعات شرح مشکوۃ جلد۴۔صفحہ۳۷۳)احادیث صحیحہ سے بتحقیق ثابت
الذی نص علیہ العلماء بل اجمعواعلیہ انہ یحکم بشریعۃ محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی ملتہ…وفی حدیث۔ابن عساکرالاان ابن مریم لیس بینی وبینہ نبی ولارسول الاانہ
خاتم النبیین ای‘اخرھم الذی ختمھم اوختموابہ ولایقدح فیہ نزول عیسیٰ بعدہ لانہ اذاانزل یکون علی دینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع ان المرادانہ اخرمن نبی۔
وفی کتاب الفتن لابی نعیم ’’ینزل ابن مریم فیجدخلیفتھم یصلی بھم فیتاخرفیقول للخلیفتہ صل فقدرضی اللّٰہ عنک فانی انمابعثت وزیر ولم ابعث امیرا…لاینزل بشریعۃ متجددۃ
ن قلت قدصح ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی آخرالزمان بعدہ وہو نبی‘قلت انی عیسیٰ علیہ السلام ممن نبی قبلہ وحین ینزل فی اخر الزمان
ینزل عیسیٰ ابن مریم حکماای حاکمابھذہ الشریعۃ ولاینزل برسالۃ مستقلۃ وشریعۃ ناسخۃ بل ہوحاکم بن حکام ھذا الامتہ۔(شرح مسلم جلد۲‘ص۱۸۹)عیسیٰ ابن مریم حکم بن کرنازل
قال بعض المتکلمین انہ لا یمنع نزولہ من السماء الی الدنیا‘الاانہ انماینزل عنہ ارتفاع التکالیف اوبحیث لایعرف‘ اذلونزل مع بقاء التکلیف علی وجہ یعرف انہ
لایقدح فی کونہ خاتم الانبیاء والمرسلین نزول عیسیٰ بعدہ لانہ یکون علی دینہ مع ان المرادانہ اخرمن نبی (المحلی،جلد۵،ص:۲۶۷)نبی اکرم ﷺکے خاتم الانبیا والمرسلین ہونے
فقہا،محدثین اورمفسرین کی تصریحات اس باب میںکہ عیسیٰ علیہ السلام کادوبارہ نزول نبی ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگابلکہ وہ محمدﷺ کے پیروکی حیثیت سے
(۹) لولم یبق من الدنیا الا یوم لیبعث اللّٰہ عزوجل رجلامنا یملاھاعدلا کما ملئت جورا۔ (مسنداحمد،بسلسلہ روایت علی ؓ)ترجمہ: اگر دنیا کے ختم ہونے میں
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذارایتم الرایات السود قد جائت من قبل خراسان فاتوھافان فیھاخلیفۃ اللہ المھدی۔(مسنداحمد‘بسلسلہ مرویات ثوبان بیہقی ‘دلائل النبوۃ۔اسی
اس باب میںدوقسم کی احادیث ہیں۔ایک وہ جن میںمہدی کاذکرلفظ ’’مہدی‘‘ کی صراحت کے ساتھ کیاگیاہے۔دوسری وہ جن میںلفظ مہدی استعمال کیے بغیرایک خلیفہ عادل
عن سفینۃ مولٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ اللّٰہ تعالیٰ عندعقبۃ افیق۔(مسنداحمد‘مرویات سفینہ)ترجمہ:رسول اللہ ﷺکے آزادکردہ
(۱۶) عن سمرۃ بن جندب عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی حدیث طویل)فیصبح فیھم عیسٰی ابن مریم فیھزمہ اللّٰہ وجنودہ حتیٰ ان اجزم الحائط
(۱۵)سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول…وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عنہ صلوۃ الفجرفیقول لہ امیرھم یاروح اللّٰہ تقدم‘صل‘ فیقول ھذہ الامۃ لامراء بعضھم علی
(۱۴) عن ابی امامۃ الباھلی (فی حدیث من ذکرالدجال)فبینماامامھم قدتقدم یصلی بھم الصبح اذنزل علیہم عیسیٰ ابن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی قہقری لیقدم
(۱۳) سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لد۔(امام احمدنے مسندمیںیہ حدیث چارطریقوں(یعنی چارسندوں)سے روایت کی ہے۔نیزترمذی نے بھی اسے نقل
(۱۲)عن ثوبان مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عصابتان من امتی احزرھمااللّٰہ تعالیٰ من النار‘عصابۃ تغزواالھند‘وعصابۃ تکون مع
(۱۱) عن حذیفۃ بن اسیدالغفاری قال اطلع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علینا ونحن نتذاکر فقال ماتزکرون قالوانذکر الساعتہ قال انھا لن تقوم حتیٰ ترون
(۱۰) عن عبداللّٰہ ابن عمرو قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لاادری اربعین یوما او اربعین شہرا
(۹) عن نواس بن سمعان (فی قصۃ الدجال) فبینماھوکذالک اذ بعث اللّٰہ المسیح ابن مریم فینزل عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھروذتین واضعا کفیہ علی
(۶)عن جابر بن عبداللّٰہ قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ… فینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فیقول امیرھم تعال فصل فیقول لاان بعضکم علی بعض امراء
(۱) عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب
’’ہمیں خبر ملی کہ ۹۰ ہزار آدمیوں کا ایک جلوس اب قبرستان کی طرف ان لوگوں کی لاشیں لے کر جارہاہے جن کو وہ شہید
’’مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے صورت حال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ کوئی سیاسی لیڈر یہ کہنے کی طاقت نہ
’’یہ بات اکثر لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کوئی گورنمنٹ، خواہ وہ کسی پارٹی کی ہو ، ان سفارشات (یعنی مطالبات ) کو نہیں مان
’’مگر اس تحریک سے محض امن و انتظام (law and order)کے دائرہ عمل میں عہدہ برا ہونے کی کوشش کرکے اس کو فنا کردینا نہ
’’صوبہ کی حکومت نے اس ایجی ٹیشن کامقابلہ کرنے کے لیے کوئی نظریاتی (ideological)کوشش نہیں کی۔ ‘‘’’حکومت پنجاب نے اس نظریاتی موقف (ideological stand)کے متعلق
’’پاکستان بھر میں میرے سوا مسلم لیگ کے کسی سیاسی کارکن نے یہ ہمت نہ کی کہ پبلک میں نکل کر آتا اور ان مطالبات
’’مرکزی حکومت نے مارشل لا کے اعلان سے پہلے ۱۹۵۳ء میں ان مطالبات کے متعلق کوئی اعلان شائع نہیں کیا۔ ‘‘’’میں نے کبھی مطالبات کو
’’اس ملک کی پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ سیکریٹریٹ کے کلرک دفتروں سے باہر نکل آئیں اور مظاہرہ کریں اور چیف سیکرٹری ،
’’اگر برسراقتدار حکومت ان مطالبات کو رد کرنے کا فیصلہ صادر کردے تو مسلمانوں کی اکثریت اس کی مخالف ہوجائے۔ اس صورت حال کے پیش
’’سیکریٹریٹ تک نے ہڑتال کردی ۔ ‘‘’’۹۰ہزار آدمیوں کا جلوس ان لوگوں کاجنازہ لے کر چلا جنھیں وہ شہید کہتے تھے۔‘‘
’’مطالبات بجا طور پر یابے جاطور پر ،ایک ایسے عقیدے پر مبنی تھے جس کی پشت پر پبلک کی عام تائید تھی ۔ ‘‘’’میں مسلم
’’تقریباً ‘‘ تمام علما ان مطالبات کے حق میں متفق تھے ، اگرچہ وہ اس امر میں متفق نہ تھے کہ الٹی میٹم دینا یاڈائریکٹ
(۱۷)آٹھویںنکتے کومحترم عدالت نے جن الفاظ میںبیان فرمایاہے اس سے یہ بات واضح نہیںہوتی کہ آیاڈائریکٹ ایکشن کے جوازوعدم جوازپراصولی حیثیت سے بحث مطلوب ہے
(۱۶)نکتہ ہفتم متعددسوالات پرمشتمل ہے جن پرہم الگ الگ بحث کریںگے۔۱۔یہ امرکہ ایک اسلامی ریاست میںغیرمسلم کلیدی مناسب پرفائزنہیںہوسکتا‘ قرآن کی صریح ہدایات پرمبنی ہے۔قرآن
(۱۴)ختم نبوت کی یہ تعبیرکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی اورکسی نوعیت کانبی نہیںآسکتا، اوریہ کہ آپﷺ آخری نبی ہیںجن کے بعدنبوت ورسالت
(۱۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی مختلف طریقوںسے آتی تھی۔اس کی تفصیل علامہ ابن قیم نے زادالمعادمیںاس طرح کی ہے:۱۔سچاخواب، یہ نبی صلی اللہ
(۱۲)قرآن اورسنت کے کسی حکم کومنسوخ کرنا‘یاکسی حکم میںردوبدل کرناعیسیٰ ابن مریم اورمہدی‘دونوںکے اختیارات سے قطعاًخارج ہے۔ ضمیمہ۱‘۲‘۳‘ میںجواحادیث اور اقوال علما جمع کیے گئے
(۱۱)جہاںتک حضرت مسیح کے نزول کاتعلق ہے‘علمائے اسلام یہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ نزول نبی کی حیثیت میںنہیںہوگا(ملاحظہ ہوضمیمہ ۳)۔بلکہ شرح عقائد نسفی‘ تفسیر
(۱۰)یہ بات کہ مسیح موعودجن کے آنے کی مسلمان توقع رکھتے ہیںعیسیٰ ابن مریم ہی ہیں‘ان تمام روایات سے جوضمیمہ نمبر۱میں، اوران تمام اقوال علما
(۶)’’مہدی‘‘کے مسئلے کی نوعیت نزول مسیح کے مسئلے سے بہت مختلف ہے۔اس مسئلے میںدوقسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ایک وہ جن میںلفظ ’’مہدی‘‘کی تصریح ہے۔دوسری
(۱) مسیح علیہ السلام کانزول ثانی مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس کی بنیادقرآن، حدیث اور اجماع اُمت پر ہے۔ قرآن
تحقیقاتی عدالت نے اپنی تفتیش کے دوران میںتحقیقاتی کارروائی میںشامل ہونے والے جملہ فریقوںکونوٹس دیاتھاکہ وہ بحث میںعلاوہ دیگرامورکے مندرجہ ذیل دس نکات کے بارے
(ز)مگراس تباہی وہلاکت کی روک تھام کاسخت خواہش مندہونے کے باوجودمیں ایسابھی کوئی قدم اٹھانامناسب نہیںسمجھتاتھاجس سے مسلمانوںمیںاختلاف برپاہوجائے اوراس سے فائدہ اٹھاکرقادیانیوںاورحکومت کاگٹھ جوڑمسلمانوںکے
(و)دوسری طرف میںیہ بھی جانتاتھاکہ ملک کی حکومت اس وقت ایسے لوگوںکے ہاتھ میںہے جوکم حوصلہ بھی ہیںاورپبلک تائیدسے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی
(د)میرے نزدیک آل مسلم پارٹیزکنونشن میںجب راست اقدام یاڈائریکٹ ایکشن کی تجویزپیش کی گئی، اس وقت ان شرائط میںسے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوئی
(ج)میرے نزدیک اس طرح کااقدام قطعی حرام نہیںہے‘مگریہ ایسامباح بھی نہیں ہے کہ جب حکومت کسی مطالبے کوردکردے تواسے منوانے کے لیے یہ قدم اٹھا
۲۸۔اب میںاس امرکی وضاحت کرناچاہتاہوںکہ ڈائریکٹ ایکشن سے میرے اختلاف کے وجوہ کیاتھے ۔اس طریق کارسے میرااختلاف اصولی بھی تھااورعملی پہلوسے بھی تھا۔میںیہاںعلی الترتیب دونوںپہلوئوںسے
۲۸۔میری۳۰/جنوری ۱۹۵۳ء کی اس تقریر کابھی باربارذکرکیاگیاہے جومیںنے موچی دروازے کے جلسے میںکی تھی۔اس تقریرکااصل موضوعبی۔ پی۔ سی رپورٹ پر تبصرہ تھا اوراس میںعلمائ کی
۱۵۔اب میںان حالات کوکسی قدرتفصیل کے ساتھ بیان کروںگاجوڈائریکٹ ایکشن اورمخالف احمدیت تحریک کے سلسلے میںبراہ راست مجھ سے متعلق ہیں۔میںنے اپنے ۲۹/جوالائی کے بیان
۱۴۔یہ سوال بھی چھیڑاگیاہے کہ مسلمان فرقوںکے درمیان اعتقادی اورفقہی اختلافات کی کیانوعیت ہے اوریہ کہ جب ان کے درمیان بنیادی امورمیںبھی اتفاق نہیں ہے،حتیٰ
۱۳۔یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اسلامی حکومت میںآرٹ کاکیاحشرہوگا؟اوراس سلسلہ میںتصور‘ڈرامے‘موسیقی‘سینمااورمجسموںکاخاص طورپرنام لیاگیاہے۔میںاس سوال کایہ مختصرجواب دوںگاکہ آرٹ توانسانی فطرت کی ایک پیدائشی امنگ ہے
۱۲۔اسلامی قانون جنگ اورخصوصاًغلامی کے مسئلے پربھی عدالت میںکچھ سوالات کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کاقانون جنگ حقیقت میں
۱۱۔عدالت میں مرتدکی سزاکامسئلہ بھی چھیڑاگیاہے ۔اس کاجواب یہ ہے کہ اسلام میںمرتدکی انتہائی سزاقتل ہے۔اگرکوئی کہناچاہے کہ ایسانہ ہوناچاہے تویہ بات کہنے کااسے اختیارہے
۱۰۔اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی حیثیت کے متعلق عدالت میں جوسوالات چھیڑے گئے ہیں،ان کے جوابات سلسلہ وارحسب ذیل ہیں:(الف)اسلامی ریاست کی غیرمسلم رعایاکواسلامی اصطلاح
۹۔پاکستان کواس طرح کی ایک ریاست بنانے کے لیے ہمارامطالبہ بہت سے معقول وجوہ پرمبنی ہے جن میںسے اہم ترین وجوہ تین ہیں:ایک یہ کہ
۸۔پیراگراف نمبر۷میں جوکچھ کہاگیاہے اس سے یہ بات خودبخودواضح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس نوعیت کی ریاست بناتاہے اس میں ایک مجلس قانون ساز (legislature)
اسلامی ریاست، جس کاقیام اورفروغ ہمارانصب العین ہے، نہ تومغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت(theocracy)ہے اورنہ جمہوری حکومت (democracy) بلکہ وہ ان دونوںکے درمیان ایک
(د)علاوہ بریں،اگرقائداعظم کی اس تقریرکواس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میںبھی لے لیاجائے توہمیںجذبات سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ غورکرناچاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی
۶۔اصولی سوالات پربحث کرنے سے پہلے میںاس غلط فہمی کوصاف کردینا چاہتا ہوں جوقائداعظم مرحوم کی اس تقریر({ FR 6480 })سے پیداہوئی ہے جوانھوںنے ۱۱/اگست
۵۔عدالت میں اسلامی ریاست اس کے نظام اس میں ذمیوں کی حیثیت ‘پاکستان میںاس کے قیام اوراسلامی قوانین کے اجرا، فقہ اورسنت میںمسلم فرقوں کے
۴۔عدالت میں کفراورتکفیر کے متعلق کچھ اصولی سوالات بھی چھیڑے گئے ہیں مگران کے واضح اورتشفی بخش جوابات نہیں دئیے گئے۔اس سلسلے میں چند باتیں
۳۔عدالت میں یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اگراحمدی اپنے جارحانہ طورطریقوں سے بازآجائیں اورریاست کے اندرایک ریاست قائم کرنے کی کوشش ترک کردیں تو کیا
۲۔عدالت میںیہ خیال بھی ظاہرکیاگیاہے کہ صدرانجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے اس کے وکیل نے عدالت کے دئیے ہوئے سات سوالوںکے جواب میںجوبیان دیاہے
(ہ)قادیانیوںکوکلیدی مناصب سے ہٹانے کاجومطالبہ کیاگیاہے اس کی بنیادبھی صرف یہ نظریہ نہیںہے کہ اسلامی ریاست میںغیرمسلموںکوکلیدی مناصب پرمامورنہیںکیا جاسکتا، بلکہ یہ مطالبہ اس بناپرکیاگیاہے
(د)سرظفراللہ خان کے متعلق مسلمانوں کی طرف سے جومطالبہ کیاگیاہے وہ محض اس نظریے پرمبنی نہیں ہے کہ کسی غیرمسلم کواسلامی ریاست کاوزیرنہ ہوناچاہیے،بلکہ اس
(ج)عدالت میں یہ سوال بھی بارباراٹھایاگیاہے کہ آیاان سب لوگوں کواسی طرح غیرمسلم اقلیت قراردینے کامطالبہ کیاجائے گاجواسلام کے بنیادی مسائل میںعام مسلمانوں سے مختلف
(ب)مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلاف کومختلف فرقوں کے اختلافات کی نظیر فرض کرکے عدالت میں باربارعلما اورفرقوں کی باہمی کشمکش کے متعلق سوالات کیے گئے ہیں
(الف)یہ سوال باربارکیاگیاہے کہ یہ مطالبات مذہبی ہیں یاسیاسی ؟اوراکثراس کا جواب صرف یہ دے دیاگیاہے کہ یہ مذہبی مطالبات ہیں۔حالانکہ درحقیقت نہ یہ سوال
(جومورخہ ۸نومبر۱۹۵۳ء کوتحریری شکل میںعدالت مذکورمیںپیش کیاگیا۔)بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمجناب والا!گذشتہ ماہ ستمبرکے آغازسے آپ کی تحقیقاتی عدالت میںجوشہادتیںپیش ہوئی ہیں ان کی رودادیںاخبارات میںپڑھ
بہرحال میری ان کوششوںسے یہ بات عیاںہے کہ میںنے اپنی حدتک اس نزاع کے تینوں فریقوں کومصالحت پرآمادہ کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ہے۔مگرہرفریق نے
اس بیان کوختم کرنے سے پہلے میں یہ بات بھی عدالت کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میںنے جس طرح حکومت کواس غلط پالیسی
(۳)امرسوم کے متعلق میں اپنے وہ تمام بیانات اورمضامین اورجماعت اسلامی کے وہ سب ریزولیوشن جوقادیانی مسئلہ سے متعلق جون ۱۹۵۲ء سے ۶مارچ ۱۹۵۳ء تک
(۲)امرِدوم کے متعلق میں واقعات کوان کی صحیح صورت میںتاریخی ترتیب کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھ دیتاہوںپھریہ رائے قائم کرناعدالت کاکام ہے کہ ڈائریکٹ
اس سلسلہ میں عدالت سے میری درخواست یہ ہے کہ وہ اصولی طورپردوچیزوں کا فرق واضح کردے۔(۱)ایک چیزہے قادیانیوںکی علیحدگی کاآئینی مطالبہ۔دوسری چیزہے اس مطالبہ
پچھلے دنوںحکومت کی طرف سے یہ بھی کہاگیاہے کہ جس وقت ملک میںقادیانی مسئلہ پرہنگامہ برپاتھا، اس وقت اس مسئلے میںمسلمانوںکے مطالبے کی صحت کودلائل
حال ہی میںبعض ذمہ داران حکومت کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیاگیاکہ ملک کی فلاح اوربہبودکے لیے ’’رواداری‘‘کی سخت ضرورت ہے اورقادیانی مسئلہ پر
اس مسئلہ میں میری پالیسی اورمیری رہنمائی میںجماعت اسلامی کی پالیسی تین اجزا پرمشتمل رہی ہے۔اول یہ کہ میں قادیانیوں کومسلمانوں سے الگ کرنے کامطالبہ
جو حالات میں نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی بنا پر میرے نزدیک ان اضطرابات اور ہنگاموں کی ذمہ داری چار فریقوں پر بالکل
دوسرے امر تحقیق طلب کے بارے میں مجھے صرف دو باتیں یہاں بیان کرنی ہیں:اول یہ کہ فروری کے اختتام تک پنجاب گورنمنٹ کی پالیسی
(۲۰) یہ تھے وہ حالات جن میں ۶ مارچ کی دوپہر کو عین نماز جمعہ کے وقت مارشل لا کااعلان کیاگیا۔ میرے نزدیک یہ اعلان
(۱۹) ۵ مارچ کی سہ پہر گورنر پنجاب مسٹر چندریگر نے گورنمنٹ ہائوس میں ایک کانفرنس بلائی جس میں مجھے بھی مدعو کیاگیا تھا۔ اس
(۱۸) ۴ اور ۵ مارچ کی درمیانی شب کو میں نے مولانا مفتی محمد حسن اور مولانا دائود غزنوی کی موافقت سے خواجہ ناظم الدین
(۱۷) ۲ مارچ تک لاہور میں پولیس کا رویہ بہت نرم تھا مگر اس کے بعد یکایک نہایت بے دردی سے پرامن جتھوں پر لاٹھی
(۱۶) ۲۷فروری سے جب کہ ڈائریکٹ ایکشن کاآغاز ہوا۔ ۴ مارچ تک کے عوام کے مظاہروں نے اشتعال کے باوجود کہیں بھی بدامنی ، لوٹ
(۱۵)اس سلسلے میںخصوصیت کے ساتھ جن باتوںنے لوگوںکے درمیان عام ناراضگی پیداکی وہ یہ تھیں:اول یہ کہ حکومت نے اس پوری مدت میںکبھی زبان کھول
(۱۴)مئی ۱۹۵۲ء کے بعدسے مسلسل کئی مہینے تک پنجاب اوربہاول پورکے (جہاں کا درحقیقت یہ معاشرتی اورمعاشی مسئلہ تھا)ہرحصے میںاس مسئلے کے متعلق بلامبالغہ ہزاروں
(۱۳)مئی ۱۹۵۲ء میں احرارنے پہلی مرتبہ قادیانیوں کے خلاف عام ایجی ٹیشن شروع کیا۔ حکومت نے اس وقت جگہ جگہ دفعہ ۱۴۴لگاکرلاٹھی چارج کرکے ائمہ
(۱۲)حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ ۱۸/مئی ۱۹۵۲ء کوقادیانی جماعت نے جہانگیرپارک کراچی میںایک جلسہ عام منعقد کیااوراس میںسرمحمدظفراللہ خان وزیرخارجہ پاکستان نے اعلانیہ
(۱۱)میری اوپرکی تصریحات سے حکومت اوراس کے حامیوںکے اس قیاس کی غلطی بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ مصنوعی طورپراحرارکے اکسانے سے اچانک اٹھ
(۱۰) یہ ہے حالات کا وہ تاریخی پس منظر، جس میں احرار نے قادیانی مسئلہ پر ایجی ٹیشن کاآغاز کیا۔ میری سابق تصریحات سے یہ
(۹)قیام پاکستان کے بعدخودقادیانیوںکی طرف سے پے درپے ایسی باتیںہوتی رہی ہیںجنھوںنے مسلمانوںکی تشویش میںمزیداضافہ کردیااورمسلمان یہ محسوس کرنے لگے کہ قادیانی مسئلہ انگریزی دورسے
(۷)یہ اسباب نصف صدی سے اپناکام کررہے تھے اورانھوںنے خاص طورپر پنجاب میںقادیانیت کومسلمانوںکے لیے ایک ایسا مسئلہ بنادیاتھاجوچاہے کوئی بڑامسئلہ نہ ہومگراحساس کے لحاظ
(۶)تمام مسلمانوںکی تکفیراوران سے معاشرتی مقاطعہ اوران کے ساتھ معاشی کشمکش کی بناپرقادیانیوںاورمسلمانوںکے تعلقات میںجوتلخی پیداہوچکی تھی،اس کو مرزاغلام احمد صاحب اوران کے پیروئوںکی بہت
(۵)جہاں دوگروہوں کے درمیان مذہب‘معاشرت اورمعیشت میںکشمکش ہو وہاں سیاسی کشمکش کارونماہوناایک بالکل قدرتی بات ہے۔مگرقادیانیوںاورمسلمانوںکے معاملہ میںسیاسی کشمکش کے اسباب اس سے کچھ زیادہ
(۴)کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ مسلمانوںاورقادیانیوںکی یہ نزاع معاش کے میدان میںبھی پہنچ گئی۔مسلمانوںکے ساتھ مذہبی اورمعاشرتی کشمکش کی وجہ سے اوربڑی حدتک
(۳)آغازمیںیہ نزاع صرف ایک مذہبی نزاع تھی مگربہت جلدی اس نے مسلمانوںکے اندرایک پیچیدہ اورنہایت تلخ معاشرتی مسئلے کی شکل اختیارکرلی۔اس کی وجہ مرزاصاحب اوران
(۱)قادیانیوں اورمسلمانوںکے درمیان اختلاف کآغازبیسویںصدی کی ابتداسے ہوا۔انیسویںصدی کے خاتمہ تک اگرچہ مرزاغلام احمدصاحب مختلف قسم کے دعوے کرتے رہے تھے جن کی بناپرمسلمانوںمیںان کے
اس سوال کواگرصرف ان حالات تک محدودرکھاجائے جومارشل لا سے پہلے قریبی زمانہ میںرونماہوئے تھے تومیرے نزدیک یہ اس تحقیقات کابہت ہی تنگ نقطہ نظرہوگاجسے
(یہ بیان آنریبل کورٹ کی اجازت سے اخبارات میں شائع ہوا) مجھے اپنے بیان میںجوباتیںپیش کرنی ہیںان کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ مجھے کو
(۱)سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ مولانامودودی کوفوج میں مضرت رساں پروپیگنڈاکرنے یاخفیہ بیرونی امدادحاصل کرنے کے الزام میںکبھی بھی ماخوذنہیںکیاگیا۔نیزباوجودکوشش
خفیہنمبرایم ایل /۱/الفہیڈکواٹربی ،سیکٹر۱۱ /مئی ۱۹۵۳ءبنام: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ولد احمد حسنمضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائشمارشل لا کے تحت
(جوانھوں نے فردجرم ضابط نمبر۸مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۲۴/الف کے جواب میں فوجی عدالت میںدیا۔)اس مقدمے میںمیرابیان وہی ہے جومیںنے ’’قادیانی مسئلہ ‘‘کے مقدمے میں
بنام ملزمان:۔نمبرا۔مولاناابوالاعلیٰ مودودی ولداحمدحسنذیلدار پارک اچھرہ لاہورنمبر۲۔نصراللہ خان عزیز ولد ملک محمد شریفمین بازار گوالمنڈی لاہورجرم :مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۲۴/الف تعزیرات پاکستان
مورخہ ۲۷فروری اور ۵ مارچ ۱۹۵۳ء جو فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ ۱۲۴/الف کا موجب بنے ۔ پہلا بیان تاریخ ۲۷فروری
(جو انھوںنے فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف کے جواب میں فوجی عدالت میں دیا )بسم اللہ الرحمن الرحیم۲۷اور ۲۸مارچ کی
بنام ملزمان :نمبر۱ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ولد احمد حسن، ذیلدار پارک اچھرہ لاہور۔نمبر۲نصیر بیگ ولد امیربیگ، منیجرجدید اُردو پریس ، لاہورنمبر۳محمد بخش ولد حاجی محمد
آخرمیں چندالفاظ پیش نظر پمفلٹ کے بارے میں عرض کرنا ہیں، ان سطور کی اشاعت کامقصد مولانا مودودی کے مقدمہ سے متعلق وہ تمام حالات
اس مقد مہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی قابل غورہے کہ مولانامودودی کے ۲۷فروری اور۵مارچ ۱۹۵۳ئ کے جن دوبیانات کوحکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے
یہی نہیں بلکہ ہم تواس کے بالکل برعکس یہ دیکھ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کاسلسلہ برابرجاری ہے ۔حال ہی میں
اس عظیم احتجاج اور مطالبہ رہائی پر اب سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ آخر کوئی بات تو تھی جو
۵ مئی ۱۹۵۳ء کو گورنر جنرل پاکستان واپس کراچی تشریف لے آئے اور ۹ مئی کو ان کی طرف سے ایک آرڈی ننس جاری ہوا
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ میں یہ بات پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ ان پر ضابطہ مارشل لا نمبر۸ بشمول تعزیرات پاکستان
برسراقتدار طبقہ کے مغرب زدہ افراد کی نظروں میں مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلامی
نشریاتی محکمے ، خبررساں ایجنسیاں ،نیم سرکاری اخبارات اور سیاسی لیڈر ملک کی ایک اہم حزب اختلاف کی تمام خبروں کا بلیک آئوٹ کرنے اور
جماعت اسلامی یا اس کے رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے اختلاف کرنے، ان پر اعتراضات کرنے ، حتیٰ کہ ان کی عملی مخالفت
اس علمی ، فکری اور تعمیری کام کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی خالص جمہوری طریقہ سے اور قطعی آئینی خطوط پر پاکستان میں اسلامی حکومت
جماعت اسلامی پاکستان کی دعوت اور مقصد سے نہ صرف ملک کے باشندے بلکہ بیرونی ممالک کے لوگ بھی اب ناواقف نہیں ہیں ۔ یہ
اصل جرم :مولانا مودودی کو جس دفعہ کے تحت سزائے موت کا حکم سنایاگیاوہ ضابطہ نمبر۸ مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف۔ رعایا کے درمیان منافرت
مولانا مفتی محمد حسن صاحب خلیفہ حاجی ترنگ زئیمولانا ابوالحسنات صاحب مولانااطہر علی صاحبمولانا ظفر احمد صاحب عثمانی مولانا محمد اسماعیل صاحبسید ابوالاعلیٰ مودودی مولانا
پاکستان کے سربرآور دہ علما نے دستوری سفارشات میں جو ترمیمات پیش کی ہیں ،ان میں سے ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو
ان وجوہ سے پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بالاتفاق مطالبہ کیاہے کہ اس سرطان کے پھوڑے کو مسلم معاشرے کے جسم سے فوراً کا
اب قادیانی جماعت کی پوری تصویر آپ کے سامنے ہے۔ اس کے بنیادی خدوخال یہ ہیں :(۱) پچاس برس سے زیادہ مدت ہوئی، جب کہ
’’شہادۃ القرآن ‘‘ مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ طبع ششم کے ساتھ ایک ضمیمہ ہے جس کا عنوان ہے ’’گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ‘‘ اس
آخری جواب طلب بات یہ رہ جاتی ہے کہ قادیانی حضرات اسلام کی مدافعت اور تبلیغ کرتے رہے ہیں، اس لیے ان سے ایسا سلوک
اب تیسرے سوال کو لیجیے ۔ یعنی یہ کہ علیحدگی کا مطالبہ تو اقلیتیں کیا کرتی ہیں ۔ یہاں یہ کیسی الٹی بات ہو رہی
اس مستقل رحجان کے علاوہ اب ایک نیا رجحان قادیانی گروہ میں ابھر رہاہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنا ڈالنا
پھر دوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لیے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اور ہمیں مجبور کرتے ہوںکہ ہم فوراً
بلاشبہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ بعض اور گروہ بھی ایسے موجود ہیں جو اسلام کی بنیادی حقیقتوں میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور
اب ہم اوپر کے سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر سلسلہ وار ان کاجواب دیتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں میں یہ ایک بیماری پائی
آخر ی بات چونکہ ذرا مختصر ہے اس لیے پہلے ہم اس کا جواب دیں گے پھر دوسرے سوالات پر بحث کریں گے۔اگر یہ واقعہ
یہ قطع تعلق صرف تحریر و تقریر ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لاکھوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً
اس ہمہ گیر اختلاف کو اس کے آخری منطقی نتائج تک بھی قادیانیوں نے خود ہی پہنچادیا اور مسلمانوں سے تمام تعلقات منقطع کرکے ایک
وہ صرف یہی نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کااختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا
نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے ۔ چنانچہ
اس طرح نبوت کا دروازہ کھول کر مرزا غلا م احمد صاحب نے خود اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور قادیانی گروہ نے ان کو
واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک اُمت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوںنے خود اختیار کی
تمہید:گذشتہ ماہ جنوری میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علما نے تازہ دستوری سفارشات پر غور و خوض کرکے جو اصلاحات اور جوابی تجاویز مرتب کی
اس مختصر کتابچے میں وہ تمام دلائل جمع کردئیے گیے ہیں جن کی بنا پر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ
اس سے پہلے اس کتاب کے مضامین حسب ذیل پمفلٹوں کی شکل میں طبع ہوچکے تھے۔۱۔قادیانی مسئلہ۲۔مقدمہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۳۔ تحقیقاتی عدالت میں مولانا
Crafted With by Designkaar