بیت المال
اس سے بھی زیادہ ایک نرالا اعتراض یہ سننے میں آیا کہ ’’ تم نے بیت المال کیوں بنایا؟‘‘ اس قسم کے اعتراضات سن کر
اس سے بھی زیادہ ایک نرالا اعتراض یہ سننے میں آیا کہ ’’ تم نے بیت المال کیوں بنایا؟‘‘ اس قسم کے اعتراضات سن کر
ایک نرالا اعتراض یہاں یہ بھی سننے میں آیا کہ ’’جو شخص اس طرح جماعت کا سربراہِ کار چنا جائے، اُسے زکوٰۃ وصول کرنے کا
لیکن اسلام کے پورے نظام پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دین مسلمانوں کے ہر اجتماعی کام میں نظم
ہم سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنی جماعت کے لیڈر کے لیے ’’امیر‘‘ کا لفظ کیوں اختیار کیا ؟ امیر یا
ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمھیں یہی کام کرنا تھا تو ضرور کرتے، مگر تم نے ایک الگ جماعت، مستقل نام کے ساتھ
یہ ارکان، ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرتے ہیں، نہ اس بنا پر کہ امارت اُس کا کوئی ذاتی حق ہے، بلکہ اِس بنا
یہاں دعوت کسی شخص یا اشخاص کی طرف نہیں ہے، بلکہ اُس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رُو سے ہر مسلمان کا مقصد
امارت کے باب میں کبھی ہم کسی غلو کے مُرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ ہماری یہ تحریک کسی شخصیت کے بل پر نہیں اٹھی ہے جس
اپنی جماعت کے بارے میں بھی ہم نے کوئی غلو نہیں کیا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف ہماری جماعت میں دائر
اجتہادی مسائل میں ہم تمام، اُن مذاہب و مسائل کو برحق تسلیم کرتے ہیں جن کے لیے قواعدِ شریعت میںگنجائش ہے۔ ہم ہر ایک کا
کہا جاتا ہے کہ تمھاری یہ جماعت، اسلام میں ایک نئے فرقے کی بِنا ڈال رہی ہے۔ یہ بات جو لوگ کہتے ہیں انھیں شاید
حضرات! بس یہ ہے ہمارا مقصد اور یہ ہے ہمارا پروگرام ۔ ہمیں اُمید نہ تھی کہ یہ چیز بھی ایسی ہو سکتی ہے جس
اس طرح جو لوگ ہمارے نظام جماعت میں شامل ہوتے ہیں، اُن کے لیے ہمارے پاس صرف یہ کام ہے کہ وہ اپنے قوَل اور
اب مَیں اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ جو لوگ ہماری جماعت کو پسند کرکے اس میں داخل ہوتے ہیں، ان سے
اس میں شک نہیں کہ ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لیے مختلف جماعتیں بننا، بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے، اور اس میں
جو لوگ اس بات کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور اس فہم سے اُن کے اندر مسلمان ہونے کی ذِمّہ داری کا احساس، اس حد
یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اقامتِ دین اور دعوتِ دین کی جدوجہد کے لیے ترتیب یہ
یہی جماعتِ اسلامی کے قیام کی واحد غرض ہے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جو طریقہ ہم نے اختیارکیا ہے وہ یہ ہے
اب مَیں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اُٹھے ہیں۔ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو
مَیں آپ کا سخت بد خواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر، آپ کو صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل
حضرات! یہ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں
یہ تو اس جرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اِس سے سخت تر سزا کا اندیشہ
یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو
اب عملی شہادت کی طرف آئیے۔ اس کا حال، قولی شہادت سے بدتر ہے۔ بلاشبہ کہیں کہیں، کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے
پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجیے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر، زبان و قلم سے اسلام
پھر یہ بھی عرض کر دوں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جب کہ ایک اسٹیٹ انھی اصولوں
رہی عملی شہادت، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اُن اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جنھیں ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا
قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دُنیا پر اُس حق کو واضح کریں جو انبیاکے ذریعے ہمیں پہنچا ہے۔
حضرات! یہ ہے شہادتِ حق کی وہ نازک ذِمّہ داری، جو مجھ پر ، آپ پر، اور اُن سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو
پھر انبیاکے ذریعے سے، جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا، وہ ایک اُمّت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی
یہ شہادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض، قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوعِ انسانی کے لیے، اللہ تعالیٰ نے بازپُرس اور جزا و سزا کا جو قانون
یہ شہادت جس کی ذِمّہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے ، اِس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے
یہ آپ کی اُمّت کا عین مقصدِ وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ
وہ ذِمّہ داریاں کیا ہیں؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خدا پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں
ہماری دعوت کا خطاب، ایک تو: ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں۔ دُوسرے: اُن تمام بند گانِ خدا سے جو مسلمان نہیں
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کو دو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں۔ایک حصہ: اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس
ساری تعریف اُس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق و مالک اور حاکم ہے، جو کمال درجے کی حکمت، قدرت اور رحمت
تحریکِ اِسلامی کے قیام کو، ابھی صرف ۵ سال ہوئے تھے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، گردے کی پتھری کے آپریشن کے بعد آرام کے
Crafted With by Designkaar