آخری گزارش
یہ ہیں وہ جملہ دلائل جو فاضل جج نے حدیث وسُنّت کے متعلق اپنی رائے کے حق میں پیش کیے ہیں۔ ہم نے ان میں
یہ ہیں وہ جملہ دلائل جو فاضل جج نے حدیث وسُنّت کے متعلق اپنی رائے کے حق میں پیش کیے ہیں۔ ہم نے ان میں
دوسری بات کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ وصیت کے متعلق جن احادیث کو فاضل جج قرآن میں ترمیم کا ہم معنی قرار دے
پیراگراف ۳۳ میں فاضل جج دو باتیں اور ارشاد فرماتے ہیں جن پر ان کے دلائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلی بات
پیراگراف ۳۱ میں فاضل جج ایک اور دلیل لاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:’’یہ بات کہ محدثین خود اپنی جمع کردہ احادیث کی صحت پر مطمئن
پیرا گراف ۳۰ میں فاضل جج دو اور دلیلیں پیش فرماتے ہیں۔ اول یہ کہ رافع بن خدیجؓ والی روایت میں (جس کا حوالہ انھوں
اس کے بعد پیرا گراف ۲۹ میں فاضل جج فرماتے ہیں:مزید برآں کیا یہ قابل یقین ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے وہ بات فرمائی
پھر پیراگراف ۲۸ میں فاضل جج دو حدیثیں نقل فرماتے ہیں جن میں نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ آپ نے جنت کو دیکھا اور اس
ان امور کو نگاہ میں رکھ کر فردًا فردًا ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے جو فاضل جج نے پیش کی ہیں:O پہلی حدیث میں حضرت
اب ہم اصل بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پیرا گراف ۲۶ میں فاضل جج یکے بعد دیگرے ۹ حدیثیں نقل کرتے چلے گئے ہیں
آگے چل کر فاضل جج فرماتے ہیں کہ احادیث کے مجموعوں میں ایسی حدیثیں بھی موجود ہیں جن کو صحیح ماننا سخت مشکل ہے۔ اس
ان سب کے علاوہ ایک نہایت اہم بات اور بھی ہے جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں اورجنھوں نے محض
یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحابہؓ کے لیے خاص طور پر نبیﷺ کی احادیث کو ٹھیک ٹھیک یاد
اب ہمیں فاضل جج کے آخری دو نکتوں کو لینا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے عربوں کا حافظہ جیسا کچھ قوی ہے، پہلی
آگے چل کر فاضل جج نے اپنے نکتہ ششم میں احادیث کے ’’انتہائی مشکوک‘‘ اور ’’ناقابل اعتماد‘‘ ہونے کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے
یہی دَور تھا جس میں حدیث کے مجموعے لکھنے اور مرتب کرنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے
اس کے بعد ان تابعین کو دیکھیے جنہوں نے صحابہ کرامؓ سے سیرت پاکؐ کا علم حاصل کیا اور بعد کی نسلوں تک اس کو
عقل گواہی دیتی ہے کہ ایسا ضرور ہوا ہو گا اورتاریخ گواہی دیتی ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے۔ آج حدیث کا جو
پھر نکتہ نمبر۴ کے آخر میں فاضل جج کا یہ ارشاد کہ ’’احادیث نہ یاد کی گئیں، نہ محفوظ کی گئیں، بلکہ وہ ان لوگوں
فاضل جج بار بار لکھنے کے مسئلے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لکھنا اور محفوظ کرنا گویا
اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ایک مسئلے میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی صاف صاف تصریحات موجود ہوں
اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ نبیﷺ اپنی احادیث کی نشرواشاعت کے لیے تاکید فرماتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ آپؐ نے ان
یہ تو ہے معاملہ کتابتِ حدیث کا، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، اہلِ عرب ہزاروں برس سے اپنے کام کتابت کے
مدینہ طیبہ پہنچنے کے تھوڑی مدت بعد آپﷺ نے اپنے اصحاب اور ان کے بچوں کو لکھنے پڑھنے کی تعلیم دلوانے کا خود اہتمام فرمایا،
اب ہم فاضل جج کے نکات نمبر ۲‘۳ اور ۴ کو لیتے ہیں۔ ان نکات میں ان کے استدلال کا سارا انحصار تین باتوں پر
فاضل جج نے اس بات کو بڑی اہمیت دی ہے کہ ہزار در ہزار حدیثیں گھڑی گئیں اور اس بات پر بڑا زور دیا ہے
فاضل جج کی ایک اوربات جو سخت غلط فہمی پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’امام بخاریؒ نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے صرف
یہ ۹ نکات ہم نے فاضل جج کے اپنے الفاظ میں، ان کی اپنی ترتیب کے ساتھ نقل کر دیے ہیں۔ اب ہم ان کا
اس کے بعد پیراگراف ۲۵ میں فاضل جج وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بِنا پر ان کے نزدیک احادیث ناقابل اعتماد بھی ہیں،
اس کے بعد فاضل جج امام ابوحنیفہؒ کے مسلک سے استناد فرماتے ہیں ان کاارشاد ہے:مگر ابوحنیفہؒ نے، جو ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور جن
اس اصولی بحث کے بعد پیراگراف ۲۴ میں فاضل جج یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ خلفائے راشدین نے اگر اپنے دور حکومت میں سُنّت کا
فاضل جج کا ارشاد ہے کہ زیادہ سے زیادہ جو فائدہ حضورﷺ کے اقوال وافعال اور کردار سے اُٹھایا جا سکتا ہے وہ صرف یہ
حضورﷺ کے اتباع کا جو حکم قرآن میں دیا گیا ہے اس کو فاضل جج اس معنی میں لیتے ہیں کہ ’’ہم بھی ویسے ہی
فاضل جج فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے کوئی گناہ نہیں کیا مگر وہ غلطیاں کر سکتے تھے اور یہ حقیقت
پھر فاضل موصوف کا یہ ارشاد شدت کے ساتھ نظر ثانی کا محتاج ہے کہ رسول اللّٰہﷺ ’’ماسوا اس وحی کے جو ان کے پاس
فاضل جج کا یہ ارشاد لفظاً بالکل صحیح ہے کہ رسول کریم ﷺ ’’مسلمانوں کو اس سے زیادہ کوئی چیز نہ دے سکتے تھے جو
ہم بڑے ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ درحقیقت ان تمام عبارتوں میں خلط مبحث زیادہ اور اصل مسئلہ زیر بحث سے تعرض بہت
یہ اندازِ بحث محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ پیرا گراف ۲۱ سے جو بحث شروع ہوتی ہے اس کو پڑھ کر معلوم ہو جاتا ہے
آخری نمونۂ اجتہاد فاضل جج نے ایسے بچوں کی حضانت کے مسئلے میں کرکے بتایا ہے جن کی مائیں اپنے شوہروں سے جدا ہو چکی
اس کے بعد فاضل جج نے سورۂ مائدہ کی آیت ۳۸۔۳۹ کو لیا ہے اور اس میں بطور نمونہ یہ اجتہاد کرکے بتایا ہے کہ
دوسری آیت جسے سورۂ نسا کی آیت نمبر ۳ کے ساتھ ملا کر پڑھنے اور اس سے ایک حکم نکالنے کی فاضل جج نے کوشش
پھر فاضل جج فرماتے ہیں:اس آیت کو قرآن کی دوسری دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی آیت سورۂ نور
تیسری بات فاضل جج یہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیوں
دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ’’از راہ قیاس ایسی شادی کو (یعنی ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ شادی کو )یتیموں کے فائدے
تعجب ہے کہ فاضل جج کو اپنے ان دونوں فقروں میں تضاد کیوں نہ محسوس ہوا۔ پہلے فقرے میں جو اصولی بات انھوں نے خود
اس کے بعد پیراگراف ص ۲۵۶ میں فاضل جج نے خود قرآن مجید کی بعض آیات کی تعبیر کرکے اپنے اجتہاد کے چند نمونے پیش
اوپر کے تیرہ فقروں میں ہم نے اپنی حد تک پوری کوشش کی ہے کہ فاضل جج کے تمام بنیادی نظریات کا ایک صحیح خلاصہ
اس کے بعد پیرا گراف ص ۲۶۱ تک فاضل جج نے اِسلامی قانون کے متعلق اپنے کچھ تصورات بیان فرمائے ہیں جو علی الترتیب حسب
اب ہم اس فیصلے کے اصولی مباحث پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں جیسا کہ اس کے مطالعے سے ناظرین کے سامنے آ چکا ہے۔ یہ
اس سلسلے میں قبل اس کے کہ ہم اصل فیصلے پر تبصرہ شروع کریں، دو اصولی سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں:۱۔ پہلا سوال عدالت کے
از:ابو الاعلیٰ مودودیکچھ مدت سے ہمارے بعض حاکمانِ عدالت کی تقریروں اور تحریروں میں سُنّت کی صحت پر شکوک کے اظہار اور اس کو اِسلامی
ترجمہ : از ملک غلام علی صاحبجناب جسٹس محمد شفیع صاحب، جج مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جس فیصلے کے بیش تر حصے کا ترجمہ
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ ’’احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے جن سُنّتوں کی شہادت ملتی ہے، ان کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک قسم
اعتراض: آپ کہتے ہیں کہ ’’عربی زبان میں وحی کے معنی اشارۂ لطیف کے ہیں۔‘‘ سوال ’’وحی‘‘ کے لغوی معنی کے متعلق نہیں، سوال اس
اعتراض: آپ نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ’’وحی لازمًا الفاظ کی صورت میں ہی نہیں ہوتی، وہ ایک خیال کی شکل میں بھی
اعتراض: آخر کی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ:اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَالانفال 9:8جب تم اپنے رب
اعتراض: چھٹی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے:وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ
اعتراض: پانچویں آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ حضورﷺ نے جب بنی نضیر کے خلاف فوج کشی کی تو اس وقت گرد وپیش
اعتراض: آپ پوچھتے ہیں کہ اللّٰہ نے نبی اکرم ﷺ کو جو حکم دیا تھا کہ تم زید کی بیوی سے نکاح کر لو تو
اعتراض: سورۂ تحریم کی آیت آپ نے یوں پیش کی ہے:نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔
اعتراض: آپ نے تو یہاں تک دردیدہ دہنی سے کام لیا ہے کہ یہ کہتے ہوئے بھی نہ شرمائے کہ جب تک حکومت حاصل نہیں
اعتراض:آپ کے بیان سے حضورﷺ پر جھوٹ کا جو الزام آتا ہے یہ آپ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ آپ تو اپنے جھوٹوں
اعتراض: جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضورﷺکو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ یہ معاملہ آخر تک یوں ہو گا تو پھر صحابہؓ کے دریافت کرنے
اعتراض: جو واقعہ آپ نے شروع سے آخر تک لکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ (۱)رسول اللّٰہﷺ کو شروع ہی سے اللّٰہ کی
اعتراض: آپ نے لکھا ہے:رسول اللّٰہ ﷺ مدینے میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللّٰہ کا طواف کیا
اعتراض: آپ نے اپنے ترجمے کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضورؐ کا یہ خواب بھی از قبیلِ وحی تھا۔
اعتراض: دوسری آیت آپ نے یہ پیش کی ہے :لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۰ۙ
اعتراض: یہ بات کہ اس نئے قبلے کا حکم ہی خدا کی طرف سے آیا تھا، پہلے قبلے کا نہیں، دو ہی آیات کے بعد
اعتراض: اگر تسلیم کیا جائے کہ پہلا قبلہ خدا نے مقرر کیا تھا تو اس ٹکڑے کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے کہ ’’ہم نے
اعتراض: آپ نے تحویل قبلہ والی آیت اور اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ
اعتراض: آگے چل کر آپ فرماتے ہیں ’’پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی۔‘‘
سوال: آپ فرماتے ہیں:پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا بھی ذکر کرتا ہے جو اللّٰہ نے کتاب کے ساتھ نازل کی ہے، اور وہ
اعتراض: قرآن ہی کے حکمت ہونے کے تمام دلائل سے بڑھ کر وہ دلیل ہے جو سورۂ احزاب کی اس آیت میں موجود ہے جسے
اعتراض: آپ نے یہ دلیل دی ہے کہ خدا نے ’’کتاب وحکمت‘‘ دونوں کو منزّل من اللّٰہ کہا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور
اعتراض: آپ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں صرف وہی وحی درج ہے جو حضرت جبریل کی وساطت سے حضورﷺ پر نازل ہوئی تھی۔
اعتراض: جو وحی انبیائے کرام کو ملتی تھی اس کی مختلف قسموں کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ نہ ہی قرآن میں کہیں یہ
اعتراض: آپ نے وحی خداوندی کی مختلف اقسام کے ثبوت میں سورۃ الشورٰی کی آیت ۵۱ پیش فرمائی ہے اس کا ترجمہ آپ نے یہ
اعتراض: ساری بحث کا مدار اس سوال پر ہے کہ کیا رسول اللّٰہ ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ ساری کی ساری قرآن
اعتراض: ایک سوال یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سُنّت قرآنی احکام واصول کی تشریح ہے یا وہ قرآنی احکام کی فہرست میں اضافہ بھی
اعتراض: اس کے تو آپ خود بھی قائل ہیں کہ شریعت کا ایک حتمی فیصلہ بھی حالات کے سازگار ہونے تک ملتوی رکھا جا سکتا
اعتراض: آپ نے میری اس بات کا بھی مذاق اڑایا ہے کہ قرآن کے جو احکام بعض شرائط سے مشروط ہوں جب وہ شرائط باقی
اعتراض: رسول اللّٰہﷺ نے لوگوں کے وظائف مساوی مقرر فرمائے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے انھیں خدمات کی نسبت سے بدل دیا۔ یہ اور اس
اعتراض: نبی اکرم ﷺکے زمانے میں مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ لیکن حضرت عمرؓنے اپنے عہد میں اس سسٹم کو ختم
اعتراض: حضورﷺ کے زمانے میں مؤلفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے امداد دی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں اسے ختم کر
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ میں کوئی مثال پیش کروں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے کے کسی فیصلے کو خلفائے راشدین نے بدلا ہو۔
اعتراض: میں نے لکھا تھا کہ کئی ایسے فیصلے جو رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں ہوئے لیکن حضورﷺ کے بعد جب تغیراتِ حالات کا
اعتراض:آپ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی نبوت کی پوری زندگی میں جو کچھ کیا، یا فرمایا وہ وحی کی بِنا پر تھا لیکن دجال
اعتراض: اگر حضورﷺ کی ہر بات وحی پر مبنی ہوتی تھی تو حضورﷺ کی ایک لغزش بھی دین کے سارے نظام کو درہم برہم کرنے
اعتراض: آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حضورﷺ سے صرف چند لغزشیں ہوئی تھیں۔ یعنی آپ کا خیال یہ ہے کہ اگر حضورﷺ سے زیادہ
اعتراض: آپ کے دعوے کے مطابق حضورﷺ کا ہر فیصلہ وحی پر مبنی ہونا چاہیے، لیکن آپ کو خود اس کا اعتراف ہے کہ آپ
اعتراض: آپ نے لکھا ہے کہ ’’کیا آپ کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں کہ عہد رسالت میں قرآن کے کسی حصے کی تعبیر
اعتراض: اگر بحیثیت صدر ریاست رسول اللّٰہ ﷺ کا ہر حکم وحی پر مبنی ہوتا تھا تو پھر آپ کو مشورے کا حکم کیوں دیا
اعتراض: یہ جو میں نے کہا ہے کہ ’’خدا اور رسول‘‘ سے مراد اِسلامی نظام ہے تو یہ میری اختراع نہیں۔ اس کے مجرم آپ
اعتراض: نزول قرآن کے وقت دُنیا میں مذہب اور سیاست دو الگ الگ شعبے بن گئے تھے۔ مذہبی امور میں مذہبی پیشوائوں کی اطاعت ہوتی
اعتراض: آپ نے ترجمان القرآن کے متعدد اوراق اس بحث میں ضائع کر دیے کہ حضور ﷺ کو اِسلامی ریاست کا صدر یا مسلمانوں کا
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ سُننِ ثابتہ کے اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے (پاکستان میں صحیح اِسلامی آئین کے مطابق) قانون سازی کے مسئلے کا
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں۔ پھر بھی ان کا کام کیسے چل رہا ہے۔ کیا آپ کو
اعتراض: قرآن کے متن سے احکام اخذ کرنے میں اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب دین ایک اجتماعی نظام کی جگہ انفرادی چیز بن گیا۔
اعتراض: متن اور اس کی تعبیرات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ قرآن کریم کے متن میں کسی ایک حرف کے متعلق بھی شک و شبہے
اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ ’’اگر سُنّت کے متن میں اس قدر اختلافات ہیں تو قرآن کی تعبیر میں بھی تو بے شمار اختلافات ہو
اعتراض:اگر آپ یہ کہیں کہ حدیث پر مبنی اختلافات جزئیات کے معمولی اختلافات ہیں، ان سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو میں پوچھنا
اعتراض:آپ فرماتے ہیں کہ سُنّت کے محفوظ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وضو، پنج وقتہ نماز، اذان، عیدین کی نمازیں، نکاح وطلاق ووراثت کے
اعتراض:احادیث کے ’’طریقِ حفاظت‘‘ کی کم زوری کے تو آپ خود بھی قائل ہیں جب آپ لکھتے ہیں:بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم
اعتراض: قرآن کے متعلق تو اللّٰہ تعالیٰ نے شروع میں ہی یہ کہہ دیا کہ ذَالِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہ ِکہ اس کتاب میں شک وشبہے
اعتراض: وحی کا دوسرا حصہ، جس کی حفاظت کے متعلق آپ اب فرماتے ہیں کہ ’’اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کار فرما
اعتراض: اگر وحی منزَّل من اللّٰہ کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وحی متلو یا وحی جلی اور دوسری وحی غیر متلو یا وحی خفی، تو
اعتراض: اگر حضور ﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت اور شخصی حیثیت میں فرق کیا جائے تو لازمًا اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان
اعتراض: ایک طرف آپ تفہیمات میں فرماتے ہیں کہ نماز روزہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق براہِ راست دین اور شریعت سے ہے
اعتراض: جن باتوں کے متعلق آپ تسلیم کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے انھیں بحیثیت رسولﷺ ارشاد فرمایا یا کیا تھا، ان کے اتباع میں
اعتراض:اپنی کتاب تفہیمات میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ قرآن میں کہیں کوئی خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بِنا
اعتراض: آپ لکھتے ہیں کہآپ نے یہ مراسلت واقعی بات سمجھنے کے لیے کی ہوتی تو سیدھی بات سیدھی طرح آپ کی سمجھ میں آ
اعتراض:’’آپ نے خط وکتابت کی ابتدا میں مجھے بزم طلوع اِسلام کا نمایاں فرد قرار دیا تھا۔ اس پر میں نے آپ کو لکھا تھا
پچھلی مراسلت کے بعد ڈاکٹر عبدالودود صاحب کا جو طویل خط وصول ہوا تھا، اسے رسالہ ترجمان القرآن کے منصب رسالت نمبر میں شائع کیاجا
آپ کا آٹھواں سوال یہ ہے:رسول اللّٰہ (ﷺ) نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں کیا کسی زمانے
آپ کا ساتواں سوال یہ ہے:’’اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق یہ کہہ دے کہ وہ ’’منزل من اللّٰہ‘‘ نہیں ہے
آپ کا چھٹا سوال یہ ہے:’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعض ارشادات وحی الٰہی تھے اور بعض وحی نہ تھے تو آپ فرمائیں
آپ کا چوتھا سوال یہ ہے:قرآن کے لفظ کی جگہ عربی کا دوسرا لفظ جو اس کے مرادفُ المعنیٰ ہو، رکھ دیا جائے تو کیا
آپ کا تیسرا سوال یہ ہے:وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا نے
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ:قرآن نے جہاں مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورۂ
آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ :جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے
محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ!عنایت نامہ مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۶۰ء کو ملا۔ کچھ خرابیٔ صحت اور کچھ مصروفیت کے باعث جواب ذرا تاخیر سے دے
صفحاتِ گزشتہ میں ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے سامنے آچکی ہے، اس کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور
اب صرف آپ کا آخری نکتہ باقی ہے جسے آپ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:اگر فرض کر لیا جائے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں
آ پ کا نکتہ نمبر ۹ یہ ہے:حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی الکتاب کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد
آٹھویں نکتے میں آپ فرماتے ہیں کہ:اگر حضورﷺ نے یہ سارا کام بشر (یعنی ایک عام غیر معصوم بشر)کی حیثیت سے نہیں، بلکہ نبیﷺ کی
ساتواں نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ حضور ﷺ نظام مملکت کی سرانجام دہی میں ایک بشرکی حیثیت
آپ کا چھٹا نکتہ آپ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضورﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی
پانچواں نکتہ آپ یہ ارشاد فرماتے ہیں:چوں کہ دین کا تقاضا یہ تھا کہ کتاب پر عمل اجتماعی شکل میں ہو، اور یہ ہو نہیں
آپ کا چوتھا نکتہ آپ کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ:ان تمام اعمال میں جو حضور ﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کیے
تیسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ سُنّتِ رسولﷺ کا اتباع یہ ہے کہ جو کام حضورﷺ نے کیا، وہی ہم کریں، نہ
دوسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:لیکن اس بات پر آپ سے اتفاق نہیں ہے کہ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں حضورﷺ نے جو کچھ
آپ کی عقل وضمیر سے یہ مخلصانہ اپیل کرنے کے بعد اب میں آپ کے پیش کردہ خیالات کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ آپ
محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہعنایت نامہ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۶۰ ء ملا۔ اس تازہ عنایت نامے میں آپ نے اپنے پیش کردہ ابتدائی چار
مولانایٔ محترم! السلام علیکمآپ کا خط مورخہ ۸ ؍اگست ملا۔ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد بات ذرا اطمینان سے ہو سکے گی۔ آپ
صحیح اور غلط تصوّر کا فرقصفحاتِ گزشتہ میں سُنّت کی آئینی حیثیت کے متعلق ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے ملاحظے
آخری بات مجھے یہ عرض کرنی ہے کہ اپنے پہلے عنایت نامے کو آپ نے اس فقرے پر ختم فرمایا تھا:چوں کہ آئین کے سلسلے
چوتھا نکتہ جو آپ نے خلاصے کے طور پر میرے مضامین سے نکالا ہے، یہ ہے:احادیث کے اس طرح پرکھنے کے بعد بھی یہ نہیں
یہ جن عبارتوں کا عجیب اور انتہائی مسخ شدہ خلاصہ آپ نے نکالا ہے انھیں میں لفظ بلفظ یہاں نقل کیے دیتا ہوں تاکہ جو
آپ کا اخذ کردہ تیسرا نکتہ یہ ہے:آپ نے فرمایا ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے صحیح احادیث کو الگ کیا جائے گا۔ اس
دوسرا نکتہ جو آپ نے میرے ان مضامین سے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے:آپ نے فرمایا ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں کہ جس
اسی سلسلے میں آپ نے ایک اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ’’نہ سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘ یہ بات
ب۔یہ نتیجہ آپ نے بالکل غلط نکالا ہے کہ سُنّت قرآنی احکام واصول کی شارح اس معنی میں ہے کہ ’’وہ قرآن کے علاوہ دین
الف۔ یہ بات مسلمات شریعت میں ہے کہ سُنّت واجب الاتباع صرف وہی اقوال وافعال رسولa ہیں جو حضورa نے رسولa کی حیثیت سے کیے
یہ خلاصہ جو آپ نے میرے کلام سے نکالا ہے اس کا پہلا جز ہی غلط ہے۔ میرے ان مضامین میں، جن سے آپ یہ
آپ نے یہ فرمایا ہے کہ :نبی اکرم a نے ۲۳ برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن مجید کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا،
اس کے بعد آپ مجھے یہ یقین دلا کر کہ اس مراسلت سے آپ کا مقصد مناظرہ بازی نہیں بلکہ بات کا سمجھنا ہے، میرے
اس کے بعد میں آپ کے دوسرے عنایت نامے کو لیتا ہوں۔ اس میں آپ شکایت فرماتے ہیں کہ آپ کے پہلے خط کے جواب
اس کے علاوہ میری مذکورۂ بالا عبارات میں چند امور اور بھی ہیں جن سے آپ نے صرفِ نظر کرکے اصل مسائل سے پیچھا چھڑانے
آپ کا تیسرا سوال یہ تھا:کیا سُنّت رسول اللّٰہa کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ اور شک وتنقید
آپ کا دوسرا سوال یہ تھا:کیا قرآن کی طرح ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سُنّتِ رسول اللّٰہa مرتب شکل میں موجود
آپ نے چار سوالات اس بِنا پر اُٹھائے تھے کہ ہم نے آئین کمیشن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ’’اِسلامی آئین کی اساس کے
محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہآپ کا عنایت نامہ مورخہ ۲۴؍مئی ۶۰ء ڈاک سے مل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ ۲۸؍ مئی
مولانائے محترم! زید مجدکمالسلام علیکم۔ گرامی نامہ ملا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے اس کا علم ہے کہ اس قسم
مکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہعنایت نامہ مورخہ ۲۱؍ مئی ۱۹۶۰ء وصول ہوا۔ آپ نے جو سوالات کیے ہیں۔ وہ آج پہلی مرتبہ آپ نے پیش
مخدوم ومحترم مولانا! دام ظلکمالسلام علیکم۔ دستوری تدوین کے اس فیصلہ کن مرحلے پر ہر سچے مسلمان کی دینی امنگوں کا بنیادی تقاضا یہ ہے
ایک اَہم مراسلتذیل میں وہ مراسلت درج کی جا رہی ہے جو بزم طلوع اِسلام کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف
انکارِ سُنّت کا فتنہ اِسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔
کتاب کی تدوین میں بہتری کے لیے زیر نظر اشاعت میں ذیل کی تبدیلیاں کی گئی ہیں:۱۔ کچھ آیات قرآنی کے تراجم، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اس کتاب کے مضامین اس سے پہلے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے خاص نمبر (منصبِ رسالت نمبر،ستمبر۱۹۶۱ء) میں شائع ہو چکے ہیں۔ اب ہم انھی
Crafted With by Designkaar