اور اس میں خواتین کا حصہ
’’ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی
’’ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی
آخر میں چند گزارشات اپنے غیر مسلم بھائیوں کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ہمارا
یہ واضح کر دینے کے بعد کہ خدا کے دین اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی دعوت تمام انسانوں کی طرف عام
برادران گرامی! اسلام کسی قوم یا ملک کا دین نہیں ہے کہ یہ اس خاص قوم یا ملک تک محدود ہے۔ یہ اللہ کا دین
’’عمل و عبادت‘‘ کے علاوہ ’’روحانیت‘‘ کا بھی ایسا غلط اور گمراہ کن تصور عام مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی
برادران عزیز! عبادت کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ ’’عمل و عبادت‘‘ حقیقت میں نام ہے ان تمام افعال
مسلمانوں میں جب اسلامی نظام قائم کرنے کا احساس پیدا ہو تو انہیں خود اس کی فکر ہوگی کہ ہمیں منظم ہو کر کام کرنا
اس راہ کا دوسرا قدم یہ ہے کہ گرد و پیش ہر طرف جو لاتعداد مسلمان دین حق سے غافل اور اس سے اپنی ناواقفیت
ان حالات میں جب کہ اسلام کا باغ ویران ہو چکا‘ اس کے باغبان بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ کر حصول دنیا کی دوڑ
ابتداء سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیائے کرام کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سب کی بعثت کی
ملت اسلامیہ میں سے جن حضرات کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو چکا ہے‘ انہیں غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس
برادران مکرم‘ اللہ کا دین پوری انسانی زندگی پر حاوی ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے۔ ان کا کوئی حصہ اختیاری نہیں اور
نماز کے سلسلے میں ایک اور چیز جو ہر مسلمان کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ
اقامت صلوٰۃ کا منتہائے مقصود ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانا ور مضبوطی سے قائم رکھنا ہے‘ جس کے اندر ہر فرد انفرادی طور
اب اپنی اس استدعا کی روشنی میں بھی اپنے اعمال اور مشاغل زندگی کا جائزہ لیجئے جو اللہ کی بارگاہ سے رخصت ہوتے وقت اس
اللھم انا نستعینک و نستغفرک و نومن بک و نتوکل علیک و نثنی علیک الخیر۔ و نشکرک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک۔
دن بھر کے مشاغل سے فارغ ہو کر‘ رات کی تنہائی میں اللہ کے حضور دست بستہ کھڑے ہو کر نماز وتر کی قنوت میں
’’التحیات‘‘ کے بعد نماز کو سلام پر ختم کرنے سے پہلے ہم یہ درود شریف پڑھتے ہیں:اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما
اب التحیات کو لیجئے جو آدمی اپنے رب کے حضور دو زانوں بیٹھ کر گزارش کرتا ہے:التحیات للہ و الصلوۃ والطیبات السلام علیک ایھا النبی
اس کے بعد آدمی رکوع میں جاتا ہے اور بار بار سبحان ربی العظیم کا ورد کرتا ہے۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہکہتا ہوا کھڑا
سورۂ فاتحہ کے بعد نماز میں قرآن مجید کی کوئی دوسری سورہ یا اس کا کوئی حصہ پڑھا جاتا ہے جن آیات کو بھی آدمی
ثناء اور تعوذ کے بعد آدمی بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے‘ جو درج ذیل ہے:الحمد للہ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔
اب تعویذ کو لیجئے۔ ہم اپنی نمازوں میں کم از کم گیارہ مرتبہ روزانہ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کی اللہ سے دعا کے ذریعے
نماز میں انسان تکبیر تحریمہ یعنی ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے
اب دیکھئے‘ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلا کلمہ جو ہمارے منہ سے نکلتا ہے‘ وہ یہ اقرار ہے کہ:انی وجھت للذی
برادران عزیز! ابھی وقت ہے کہ ہر بھائی اپنی روز مرہ کی زندگی اور اس کے مشاغل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے اور اندازہ
برادران مکرم‘ اللہ کو اپنا خالق و مالک اور پروردگار مان لینے کا لازمی تقاضا ہی نہیں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم بھی یہی ہے
برادران محترم‘ ابھی وقت ہے کہ ہم ذرا دور اندیشی سے کام لیں اور اپنی گزری ہوئی زندگی کا جائزہ لیں‘ اپنے نفع و نقصان
’’حیرت ہے کہ ریت کے ذرے بھی اتنی تعداد میں کسی خطہ ارض میں جمع ہو جائیں تو اسے ریگستان بنا دیتے ہیں۔ اور پانی
حضرات! اس حقیقت کو فراموش نہ کیجئے کہ سنت اللہ یہ نہیں ہے کہ ہم دین کو چاہیں یا نہ چاہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے زور
دوسری راہوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہاں تک پہنچے‘ زاد راہ کیا ہے اور منزل کتنی باقی ہے۔ کامیابی کے امکانات کا حساب
تحریک اسلامی کا قیام اسی مقصد حق کے لیے ہے۔ ہم ان مسلمانوں کو چھانٹ چھانٹ کر جمع کر رہے ہیں جو اس پورے حق
اس وقت کے مسلمانوں کا جائزہ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی اقسام بے شمار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے تفصیل
اسلام کے ساتھ ہماری نسبت ان مسلمات ہی کے تسلیم کرنے سے قائم ہے۔ یہ بنیادی اصول ہیں جن پر ہم سب مسلمان متفق ہیں۔
رسولؐ کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے کتاب بھی بھیجی ہے۔ وہ جنتر منتر کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ غیر مسلم بھی مانتے ہیں کہ یہ
کیونکہ رسول کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے واجب الاطاعت مانیں‘ زندگی کے ہر گوشے میں خدا کے نائب اور رسول ہونے کی
بلکہ ایمان باللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ پر‘ اس کی تمام صفات و اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جو شان الوہیت کے لیے موزوں
اب آئیے غور کیجئے کہ اسلام جس کی نسبت ہی سے ہماری تمام کائنات ہے۔ اس کے وہ اساسی معتقدات کیا ہیں جن پر تمام
’’اگر ہم نے اس جدوجہد میں بازی پالی تو فہو المراد‘ اور اگر دوسری بات ہوئی تب بھی تمام راستوں میں ایک حق ہی کا
اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء
ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیا ہے‘ یہ ہے کہ ’’آپ کا یہ
ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار سن چکا ہوں اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے‘ یہ ہے کہ ایسے
اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریق کار‘‘ کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا
یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔ اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتائوں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے
مگر یہ تغیر چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں
اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتہ کو لیجئے۔ ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں‘ یہ تیسرا نکتہ ان
اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں‘ اور جس کے خارج کرنے
دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب
اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ
اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات (Points) پر مشتمل ہوگی:(1)یہ
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔
الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و ن سئیات اعمالنا من یھدہ
اسلام کیا ہے‘ اس کی دعوت کیا ہے اور اس کے مخاطب کون ہیں؟ ماننے والوں سے اس کے مطالبات کیا ہیں؟ اس کو برپا
Crafted With by Designkaar