قانون اسلامی کی تدوین
لیکن امام ابوحنیفہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے انھیں اسلامی تاریخ میں لازوال عظمت عطا کی ، یہ تھا کہ انھوں نے اس
لیکن امام ابوحنیفہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے انھیں اسلامی تاریخ میں لازوال عظمت عطا کی ، یہ تھا کہ انھوں نے اس
اس طرح امام نے شیعہ وخوارج اور معتزلہ ومرجیہ کی انتہائی آراء کے درمیان ایک ایسا متوازن عقیدہ پیش کیا جو مسلم معاشرے کو انتشار
"” ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لیے گناہ نقصان دہ نہیں ہے ، اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مومن دوزخ میں
"”ہم کسی مسلمان کو کسی گناہ کی بناپر ،خواہ وہ کیسا ہی بڑا گناہ ہو ، کافر نہیں قرار دیتے جب تک کہ وہ اس
"” ایمان نا م ہے اقرار اور تصدیق کا ۔””[25] الوصیہ میں اس کی تشریح امام نے اس طرح کی ہے :”” ایمان زبان سے
"”ہم صحابہ رضی اللہ عنھم کا ذکر بھلائی کے سوا اور کسی طرح نہیں کرتے ۔””[22] عقید طحاویہ میں اس کی مزید تفصیل یہ ہے
"” رسول اللہ ﷺ کے بعد افضل الناس ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان بن
امام ابو حنیفہ ؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے "” الفقہ الاکبر [17]”” لکھ کر ان مذہبی فرقوں کے مقابلے میں عقیدہ اہل السنت والجماعت
اب ہم سب سے پہلے ان مسائل کو لیں گے جن کے متعلق امام کے خیالات ان کے اپنے قلم سے ثبت کیے ہوئے موجود
امام کا اسم گرامی نعمان بن ثابت تھا۔ عراق کے دارالحکومت کوفہ میں ان کی پیدائش معتبر روایات کے مطابق 80 ھ ( 699ء) میں
"اس سے پہلے ان صفحات میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ ملوکیت کا آغاز ہوتے ہی امت کی قیادت دو حصون میں بٹ گئی
ان متحارب اور متشدد گروہوں کے درمیان مسلمانوں کا سواد ِ اعظم اپنے خیالات میں انھی نظریات اور اصولوں پر قائم تھا جو خلفائے راشدین
اسی ہنگامہ خیز دور میں ایک چوتھا طرزِ فکر پیدا ہوا جس کو اسلامی تاریخ میں "”اعتزال "” کا نام دیا گیا ہے ۔ اگرچہ
شیعوں او رخارجیوں کے انتہائی متضاد نظریات کا رد عمل ایک تیسرے گروہ کی پیدائش کی صورت میں ہو ا جسے مرجیہ کے نام سے
شیعوں کے بالکل برعکس دوسرا گروہ خوارج کا تھا ۔ یہ گروہ جنگ صفین کے زمانے میں ا س وقت پیدا ہوا جب حضرت علی
حامیان علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ابتدا میں شیعان علی کہاجاتا تھا ۔ بعد میں اصطلاحا انھیں صرف شیعہ کہاجانے لگا۔ اگرچہ نبی ﷺ
"خلافت راشدہ کا زوال جن حالات میں اورجن اسباب سے ہوا ان کے نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی تھا کہ امت مسلمہ
یہ پالیسی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں شروع ہوگئی تھی ۔امام زہری ؒ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور چاروں
سب سے بڑی مصیبت جو ملوکیت کےدور میں مسلمانوں پر آئی وہ یہ تھی کہ اس دور میں قانون کی بالاتری کا اصول توڑ دیا
ایک اور عظیم تغیر جو اس دور ملوکیت میں رونما ہوا وہ یہ تھا کہ اس قوم ، نسل ، وطن اور قبیلے کی وہ
اسلام ریاست کے بنیادی قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے لیا جائے
قضا(judiciary) کی انتظامیہ سے آزادی کا اصول بھی اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں میں سے تھا ۔ خلافت راشدہ میں قاضیوں کاتقرر اگرچہ خلفاء ہی
اس دور کے تغیرات میں سے ایک اور اہم تغیر یہ تھا کہ مسلمانوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کرلی
تیسری اہم تبدیلی بیت المال کے متعلق خلفاء کا طرز عمل میں رونماہوئی ۔بیت المال کا اسلامی تصور یہ تھا کہ وہ خلیفہ اور اس
دوسری نمایاں تبدیلی یہ تھی کہ دور ملوکیت کے آغاز ہی سے بادشاہ قسم کے خلفاء نے قیصر وکسرٰی کا سا طرز زندگی اختیار کرلیا
اولین بنیادی تبدیلی اس دستور قاعدے میں ہوئی جس کے مطابق کسی شخص کو امت کا سربراہ بنایا جاتا تھا ۔خلافت راشدہ میں وہ قاعدہ
” اس سے پہلے ان صفحات میں ہم تفصیل کے ساتھ یہ بیان کرچکے ہیں کہ خلافت کس طرح ، کن مراحل سے گزری ہوئی
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینے میں سراسیمگی پھیل گئی ، کیونکہ امت یکایک بے سردار اور مملکت بے سربراہ وہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پالیسی کا یہ پہلو بلاشبہ غلط تھا ، اور غلط کام بہرحال غلط ہے ، خواہ وہ کسی نے
اس تغیر کا آغاز ٹھیک اسی مقام سے ہوا جہاں سے اس کے رونما ہونے کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اندیشہ تھا۔اپنی وفات
"خلافت راشدہ ، جس کے امتیازی خصائص اور بنیادی اصول گزشتہ صفحات مٰیں بیان کیے گئے ہیں ، حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ
اس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء پر
اسلام کے ابتدائی دور کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانے میں ٹھیک ٹھیک اسلام کے اصول اور اس کی روح کے مطابق
یہ خلفاء اپنی ذات کو بھی قانون سے بالاتر نہیں رکھتے تھے بلکہ قانون کی نگاہ میں اپنے آپ کو اور مملکت کے ایک عام
ان لوگوں کا تصور حکومت کیا تھا ۔ فرماں روا ہونے کی حیثیت سے یہ اپنے مقام اور اپنے فرائض کے متعلق کیا خیال رکھتے
بیت المال کو وہ خدا اور خلق کی امانت سمجھتے تھے ۔ اس میں قانون کے خلاف کچھ آنے اور اس میں سے قانون کے
یہ چاروں خلفاء حکومت کے انتظام اور قانون سازی کے معاملے میں قوم کے اہل الرائے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کام نہیں کرتے تھے
نبی ﷺ کی جانشینی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تجویز کیا اور مدینے کے تمام
"صفحاتِ گزشتہ میں اسلام کے جو اصولِ حکمرانی بیان کیے گئے ہیں ۔ نبی ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کی حکومت ابھی اصولوں پر قائم
اس ریاست کے قواعد میں آخری قاعدہ ، جو اس کو صحیح راستے پر قائم رکھنے کا ضامن تھا ، یہ تھا کہ مسلم معاشر
اس ریاست میں حکمران اور اس کی حکومت کا اولین فریضہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی نظام ِزندگی کو کسی رد وبدل
یہ قاعدہ بھی اس ریاست کے قواعد میں سے تھا کہ حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب کے لئے عموما اور خلافت کے لئے خصوصا وہ
اس ریاست کا پانچواں اہم قاعدہ یہ تھا کہ سربراہ ِریاست مسلمانوں کے مشورے اور ان کے رضامندی سے مقرر ہونا چاہیے ، اور اسے
چوتھا اہم قاعدہ جس پر یہ ریاست قائم ہوئی تھی ، یہ تھا کہ حکومت اور اس کے اختیارات اور اموال ،خدا اور مسلمانوں کی
اسی قاعدے کی فرع یہ تیسرا قاعدہ ہے جو اس ریاست کے مسلمات میں سے تھا کہ تمام مسلمانوں کے حقوق بلالحاظ رنگ ونسل وزبان
دوسرا قاعدہ جس پر اس ریاست کی بنا رکھی گئی تھی ،یہ تھا کہ قرآن وسنت کا دیا ہوا قانون سب کے لئے یکساں ہے
اس ریاست کا اولین بنیادی قاعدہ یہ تھا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالٰی کی ہے ،اور اہل ایمان کی حکومت دراصل "”خلافت "”ہے جسے مطلق
"پچھلے باب میں قرآنِ مجید کی جو سیاسی تعلیمات بیان کی گئی ہیں ،نبی ﷺ کا کام انھی کو عملی جامہ پہنانا تھا ۔آپ کی
خدا کا وہ قانون ،جس کی پیروی کا اوپر کی آیتوں میں حکم دیا گیا ہے ،انسان تک اس کے پہنچنے کا ذریعہ صرف خداکا
ان وجوہ سے قرآن فیصلہ کرتا ہے کہ اطاعت خالصتا اللہ کی اور پیروی اسی کے قانون کی ہونی چاہیے ۔اس کو چھوڑ کر دوسروں
کائنات کے اسی تصور کی بیناد پر قرآن کہتا ہے کہ انسانوں کا حقیقی فرماں روا اور حاکم بھی وہی ہے جو کائنات کا حاکم
تصورِ کائنات سیاست کے متعلق قرآن کا نظریہ اس کے اساسی تصور کائنات پر مبنی ہے جسے نگاہ میں رکھنا اس نظریے کو ٹھیک ٹھیک
"کتاب کے فاضل مصنف مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک تاریخ ساز انسان کی حیثیت سے معروف ومتعارف ہیں
Crafted With by Designkaar