ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب
ناظرینِ ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:’’میں نے تجرید البخاری مؤلفہ علاّمہ حسین بن مبارک متوفی ۹۰۰ھ کے اُردو ترجمے میں جو فیروز
ناظرینِ ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:’’میں نے تجرید البخاری مؤلفہ علاّمہ حسین بن مبارک متوفی ۹۰۰ھ کے اُردو ترجمے میں جو فیروز
ایک صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’میں متواتر ضرورت حدیث کے سلسلے میں آپ کے مضامین دیکھ چکا ہوں۔ میں نہ تو ان غالی مخالفین احادیث میں
ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک تحریر فرماتے ہیں:’’منکرین ِ حدیث کے جواب میں آپ کا فاضلانہ مضمون مندرجہ ترجمان القرآن پڑھ کر بہت مسرت
اس مضمون کی اشاعت کے بعد اہل حدیث حضرات کی طرف سے اس پر جو اعتراضات ہوئے ہیں، اور ان پر میری طرف سے جو
کسی مسلمان کو اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ امورِ دین میں نبی صلی اللہ عیہ وسلم کا قول و عمل واجب الاتباع ہے
منکرین ِ حدیث کے مسلک پر ایک ناقدانہ نظر حال میں ایک صاحب نے ایک مختصر سا رسالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے:’’میں منکرِ
میرے مضمون ’’اتباع و اطاعت رسول‘‘ کو دیکھ کر میرے دوست چودھری غلام احمد پرویز صاحب نے اپنے ایک طویل مراسلے میں حسب ذیل خیالات
اس کتاب کے دو مضامین ’’آزادی کا اسلامی تصور‘‘ اور ’’اتباع و اطاعت رسولؐ ‘‘کا عربی ترجمہ د مشق کے رسالے المسلمون میں شائع ہوا
صاحب تعلیمات قرآن نے رسالت اور اس کے احکا م کی تشریح کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ میرے نزدیک رسالت کے
تھوڑی دیر کے لیے جسمانی آنکھیں بند کرکے تصور کی آنکھیں کھول لیجیے اور ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دنیا کی حالت
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَoالبقرہ 62:2یوں
پچھلے مضمون کو دیکھ کر وہی صاحب جن کے استفسار پر وہ مضمون لکھا گیا تھا، پھر لکھتے ہیں:’’ایمان بالرسالۃ کے متعلق آپ کا عالمانہ
ایک صاحب نے میرے مضمون’’ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘‘ میں ایمان کی بحث پڑھ کر ایک شبہ پیش کیا ہے جو
’’مَنْ قَالَ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘ اس حدیث میں اوّل تو ایمان بِالرُّسُل کے بغیر جنت کی بشارت دی گئی ہے، حالانکہ قرآن میں
امید واثق ہے کہ ایک محقق اور طالب حقیقت کے ذیل کے استفسارات پر ترجمان القرآن کے توسط سے روشنی ڈالتے ہوئے نہ صرف مستفسر
قرآن مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے جن پر گزشتہ زمانہ میں خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہر قوم پر
ہر چیز کے لیے اپنی صفت کے لحاظ سے کمال کے دو درجے ہوا کرتے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ وہ جس صفت سے
اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدد اصحاب نے اس شبہے کا اظہار کیا کہ ’’اسلامی جماعت‘‘ کو ’’قوم‘‘ کے بجائے ’’پارٹی‘‘ کہنے میں اس
زمانۂ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال بڑی کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی
اگر ایک ہی شے کو ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں معاً سچے
ایک صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’سورۂ احزاب میں حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کے
عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holywar)’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ اس انداز
انسان کے مذہبی تصورات میں عبادت کا تصور سب سے پہلا اور اہم تصور ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذہب کا بنیادی تصور
انسان نے خود اپنی تلاش و جستجو سے جتنے طریقے یا مذاہب ایجاد کیے ہیں ان سب کو دو قسموں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
کچھ مدت ہوئی کہ اسلام کے متعلق مسٹر جارج برناڈشا کے خیالات جرائد میں شائع ہوئے تھے۔ حال میں جب انھوں نے مشرق کا سفر
’’ایک دو سال کا خوبصورت بچہ بخار اور دردِ قولنج میںمبتلا تھا۔ اس کی تکلیف اور اضطراب کو سخت سے سخت دل انسان بھی نہیں
بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام
یہ کتاب اس سے پہلے پانچ مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اب یہ چھٹی مرتبہ پریس میں جا رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے
اس سے قبل میرے مضامین کا ایک مجموعہ تنقیحات کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ وہ ان مباحث پر مشتمل تھا جن میں موجودہ
Crafted With by Designkaar