غلَط فہمیاں
حضرات! اب میں ایک آخری بات کہہ کر اپنی تقریر ختم کروں گا۔ عام مسلمانوں کے ذہن پر مدتوں کے غلَط تصوّرات کی وجہ سے
حضرات! اب میں ایک آخری بات کہہ کر اپنی تقریر ختم کروں گا۔ عام مسلمانوں کے ذہن پر مدتوں کے غلَط تصوّرات کی وجہ سے
اب احسان کو لیجیے جو اِسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان دراصل اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کے دین کے ساتھ قلبی
تقوٰی کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقوٰی ہے کیا چیز؟ تقوٰی حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی
ایمان کی یہ بنیادیں جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، جب مکمل اور گہری ہو جاتی ہیں، تب ان پر اِسلام
اس سلسلے میں سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اِسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید ورسالت کے اقرار کا
جس چیز کو ہم اِسلامی اَخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی رُو سے دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے: ۱۔ ایمان، ۲۔اسلام،
مادی طاقت اور اَخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میں قرآن اور تاریخ کے غائر مطالعے سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں وہ یہ
اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللّٰہ کو بیان کیے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب
اب اَخلاقیات کے دُوسرے شعبے کو لیجیے، جسے میں ’’اِسلامی اَخلاقیات‘‘ کے لفظ سے تعبیرکر رہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اَخلاقیات سے الگ کوئی چیز
بنیادی انسانی اَخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اَخلاقی وجود کی اساس(۴) قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں
یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر اس کی کامیابی وناکامی اور اس کے عروج وزوال
اپنی سعی کے اس مقصد ومنتہا( آخری (۲)پاکیزہ لوگ (۳) کوشش) کو سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں اُس سُنّت اللہ کو سمجھنے کی کوشش
اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر بات ہے
انسانی زندگی کے مسائل میں جس کو تھوڑی سی بصیرت حاصل ہو، وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے
رفقاوحاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ’’انقلابِ امامت‘‘ ہے۔ یعنی دُنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے
Crafted With by Designkaar