مطالبہ نظام اسلامی
یہ ان تقریروں کا مجموعی خلاصہ ہے‘ جو مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی امیر جماعت ِاسلامی (حال اسیرِ حکومت پاکستان) نے اپریل اور مئی ۱۹۴۸ء
یہ ان تقریروں کا مجموعی خلاصہ ہے‘ جو مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی امیر جماعت ِاسلامی (حال اسیرِ حکومت پاکستان) نے اپریل اور مئی ۱۹۴۸ء
(یہ تقریر۱۹؍ فروری۱۹۴۸ء کو لاء کالج لاہور میں کی گئی تھی)اس سے پہلے میں آپ کے سامنے ایک تقریر اس موضوع پر کر چکا ہوں
اسلام جس نظامِ زندگی کا نام ہے اس کا مآخذ ایک کتاب ہے‘ جس کے مختلف ایڈیشن قدیم ترین زمانے سے توراۃ‘ انجیل‘ زبور وغیرہ
ایک تقریر جو ۶؍جنوری ۱۹۴۸ء کو لاکالج لاہور میںکی گئی تھی(قیام پاکستان کے بعد ہی وہ عذرات پیش کرنے شروع کر دیئے گئے تھے‘ جو
(پاکستان کے قائم ہوتے ہی یہ بحثیں شروع کر دی گئی تھیں‘ کہ اس مملکت کو ایک اسلامی مملکت بنانے میں کیا مشکلات اور قباحتیں
مسلمان اس وقت بحیثیت ایک قوم کے جن بڑے بڑے مسائل سے دو چار ہیں ان کا ابھی تک پوری طرح جائزہ نہیں لیا گیا
گزشتہ صفحات میں ہندستان کے تازہ سیاسی انقلاب کا جو جائزہ لیا گیا تھا‘ وہ اس کے صرف ایک پہلو سے تعلق رکھتا تھا۔ اس
پچھلے سال ہماری آنکھوں نے جو ہولناک انقلاب دیکھا ہے اس نے تمام انقلابات کو مات کر دیا ہے‘ جو اس سے پہلے نہ صرف
سوال:۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبہ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم ہورہا ہے کہ اس صوبہ کے لوگ تقسیم ہند کے بعد اپنے
رفیقو اور دوستو!اس وقت ہم ہندستان کی تاریخ کے ایک بہت نازک اور فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہے ہیں‘ اور یہ مرحلہ جس طرح
یہ مضمون دراصل متعدد مغالطوں یا غلط فہمیوں کا مجموعہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کر کے یہاں ہم صرف تین بڑی اور
(۱۹۴۶ء کے انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ کے ایک پر جوش حامی نے جماعت ِاسلامی کے مسلک پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا
سوال:۔ ’’ذیل میں دو شبہات پیش کرتا ہوں۔براہ کرم صحیح نظریات کی توضیح فرما کر انہیں صاف کر دیجیے۔(1)ترجمان القرآن کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے
سوال:کیا مسلمان کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اسمبلی کی ممبری جائز ہے ‘ یا نہیں؟ اگر نہیں‘ تو کیوں؟ یہاں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں
سوال:۔آپ کی کتاب ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ پڑھنے کے بعد یہ حقیقت تو دل نشین ہوگئی ہے‘ کہ قانون سازی کا حق صرف خدا ہی
سوال:۔اس وقت مسلمانانِ ہنددوفتنوں میں مبتلا ہیں۔ اوّل کانگریس کی وطنی تحریک کا فتنہ جو واحد قومیّت کے مفروضے اور مغربی ڈیمو کریسی کے اصول
مسلم لیگ کی مجلس عمل کی جانب سے حسب ذیل سوال نامہ ہمارے پاس بھیجا گیا ہے۔’’کن اصول‘ خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی
سوال:۔’’ہمارا عقیدہ ہے‘ کہ مسلمان آدم علیہ السّلام کی خلافت ِارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اﷲ پاک کی رضا اور
دنیا میں اس وقت بڑے زور کے ساتھ توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔{ FR 2542 }یہ ہم نہیں جانتے کہ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي
اوپر کے مضمون میں اسلامی انقلاب کے طریق کار کی جو توضیح کی گئی ہے‘ اگر چہ وہ بجائے خود کافی ہے‘ لیکن مناسب معلوم
اس مقالہ میں مجھے اُس عمل ( process)کی تشریح کرنی ہے‘ جس سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے۔
اب ہمیں ایک نظر ان مشکلات پر ڈالنی چاہئے‘ جن سے خوف زدہ ہوکر یہ انحراف کی راہیں اختیار کی جا رہی ہیں۔کیا حقیقت میں
دوسرا گروہ زیادہ تر اس طبقہ پر مشتمل ہے‘ جس نے تمام تر مغربی طرز پر ذہنی تربیت پائی ہے۔{ FR 2519 }یہ لوگ سیاسی
اب میں ان میں سے ایک ایک گروہ کے طریقہ پر الگ الگ تنقید کر کے بتائوں گا کہ ان طریقوں میں غلطی کیا ہے‘
یہی تین مشکلات ہیں‘ جن کو اس راہ میں حائل دیکھ کر لوگ دائیں اور بائیں رخ پر راستہ کَترا کر نکلنے کی کوشش کر
اس وقت ہندستان میں مسلمانوں کی جتنی مستقل سیاسی جماعتیں ہیں قریب قریب ان سب کا دعویٰ یہی ہے‘ کہ ہمارا نصب العین اسلامی نصب
یہ ہے اسلامی نصب العین اور اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے راہِ راست وہی ہے‘ جو اﷲ کے رسولa نے
پہلے سوال کا جواب قرآن مجید میں جو کچھ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ
مسلمانوں میں سے جو لوگ پاکستان کے نصب العین پر اپنی نظر جمائے ہوئے ہیں‘ اور جو انگریزی حکومت سے ہندستان کی آزادی پر اپنی
پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اسلام تمام عالم انسانی کے لیے بنیادی اصلاح کا ایک پیغام اور عملی اصلاح کا ایک انقلابی پروگرام لے
جب کسی شخص پر بار بار تشنج‘ ہذیان اور بحران کے دورے پڑتے ہوں ‘اور درمیانی وقفوں میں بھی وہ ہر وقت کسی نہ کسی
دنیا میں ہمیشہ دو قسم کے آدمی کام کرتے ہیں۔ ایک وہ جو حالات کو جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں‘ جوں کا توں قبول
آپ کی نظر میں نہ موجودہ لیڈروں میں‘نہ عوام میں کوئی اس قابل ہے‘ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے یا کہلانے کا مستحق ہو‘
مسلمانوں نے چونکہ اپنے دین کو ایک عالمگیر تحریک کے بجائے ایک جامد قومی تہذیب اور خود اپنے آپ کو ایک بین الاقوامی انقلابی جماعت
پہلی شرط خود شناسی ہے۔ آپ کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ آپ کیا ہیں‘ اور جو کچھ آپ ہیں اس کے ہونے
ذیل میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا وہ ریزو لیوشن درج کیا جا رہا ہے‘ جو اس نے ۱۸ء ستمبر۱۹۳۹ء کو پاس
دنیا میں جب کوئی تحریک کسی اخلاقی یا اجتماعی یا سیاسی مقصد کو لے کر اُٹھتی ہے‘ تو اس کی طرف وہی لوگ رجوع کرتے
قوانینِ فطرت سب کے سب بلا استثناء دائمی‘ عالم گیر اور بے لاگ ہیں۔جو آج سے لاکھوں برس پہلے جس قانون کی تابع تھی‘ اسی
’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے عنوان سے میرے مضامین کے دو مجموعے اس سے پہلے شائع ہوچکے ہیں{ FR 2472 }۔اب اُسی سلسلہ
میری اس کتاب کا حصّہ اوّل اس سے پہلے شائع ہوچکا ہے‘ جو دراصل تین اجزاء پر مشتمل تھا۔۱- میرے وہ مضامین جو ۱۹۳۷ء میں
Crafted With by Designkaar