باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز
یہ تمام بحث جو اس تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں کی گئی ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے‘ کہ ہم مسلمانوں کو ان
یہ تمام بحث جو اس تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں کی گئی ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہے‘ کہ ہم مسلمانوں کو ان
کانگریسی اور قومی تحریک پر شدید تنقید اور متحدہ قومیّت کی کل نفی کے بعد فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا‘ کہ مسلمانوں
گزشتہ صفحات میں نیشنل ازم اور آزادی ہند کی وطن پرستانہ تحریک کا جو علمی اور واقعاتی تجزیہ کیا گیا ہے اس سے یہ بات
اب ہم اپنی آخری تنقیح کی طرف توجہ کرتے ہیں، یعنی یہ کہ وطن پرستوں کی یہ جنگ جس کو ’’جنگِ آزادی‘‘ کہا جا رہا
زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے‘ اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت
جناب مولانا عبید اللہ سندھی ایک طویل مدّت کی جلا وطنی کے بعد جب ہندستان واپس تشریف لائے تو جمعیت علمائے بنگال نے ان کو
اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال میں شائع ہوا ہے{ FR 2972 } ایک نامور عالم
کہا جاتا ہے‘ کہ اس قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ میں مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے وہ بنیادی حقوق (fundamental rights) بالکل کافی ہوں
اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے‘ کہ عام ناظرین کی سہولت کے لیے چند اصلاحات کی تشریح کر دی جائے۔لفظ اسٹیٹ جس
اب ہمیں اپنی دوسری تنقیخ کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور وہ یہ کہ جس آزادی کے لیے یہ قوم پرست حضرات لڑ رہے ہیں
پچھلے دونوں ابواب پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ناظرین کو ان تنقیحات کی طرف دوبارہ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں‘ جو میں نے اس
پنڈت جواہر لال کے جو خیالات گزشتہ صفحات میں پیش کئے گئے ہیں ان کو محض ایک شخص کے ذاتی خیالات سمجھ کر سرسری طور
خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک ایسی کتاب موجود ہے‘ جس میں ہندستان کے بین الاقوامی مسئلے اور اس کے حل، اور ہندستان کی آزاد
مسلمانوں کے سامنے ’’آزادی‘‘ کا نام لے کر توقع کی جاتی ہے‘ کہ وہ اس دل فریب نام کو سن کر بے خود ہو جائیں
یہ سوال کہ ہندستان کے مسلمان کیوں بے چین اور غیر مطمئن ہیں، اور کیوں اپنے ملک کی اس سیاسی جدوجہد میں، جس کو ’’جنگِ
کسی قوم کے لیے اس وقت سے زیادہ پریشانی و سراسیمگی کا اور کوئی وقت نہیںہوتا جب وہ دیکھتی ہے‘ کہ اس کے گرد و
پچھلے دو حصوں میں جو مضامین دیے گئے ہیں انہوں نے متحدہ ہندستان کے طول و عرض میں ایک ہلچل مچا دی‘ اور مسلمانوں کو
میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں حتی الامکان ہر پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن باوجود اس کے ان مضامین کو دیکھ
محمد رسول اللہ a کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصوّر یہ تھا‘ کہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں سے یہ
قرآن اور اُسوئہ رسولa کی رہنمائیاِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ الاعراف7:3پیروی کرو اس ہدایت کی جو تمہاری طرف خدا
حالات کا جائزہ لینے اور راہِ عمل کی نشاندہی کرنے کے بعد مولانا مودودی صاحب نے اس سلسلہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا
اب ہم کو اس سوال پر غور کرنا ہے‘ کہ ہندوستان میں اسلامی قومیّت کا وہ نصب العین جس کو ہم نے پچھلے صفات میں
کسی راستہ پر چلنے سے پہلے منزلِ مقصود کا تعین ضروری ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ حرکت اور سفر کو بذات خود تو مقصود نہیں بنایا
پچھلے باب میں ہم نے محض سرسری طور پر مسلمانوں کو اس انقلاب سے آگاہ کیا تھا جو عنقریب ہندستان میں رونما ہونے والا ہے‘
ہندستان { FR 2892 }میں تیزی کے ساتھ ایک نیا انقلاب آرہا ہے‘ جو بلحاظ اپنے اثرات اور اپنے نتائج کے ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے
آنکھیں بند کرکے چلنا ایک شخص کے لیے جتنا مہلک ہو سکتا ہے، اس سے بہت زیادہ مہلک ایک قوم کے لیے ہوتا ہے۔ آپ
یہ مضامین مولانا سیّد ابو الا علیٰ مودودی نے ۱۹۳۷ء میں لکھے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان تحریکِ خلافت کی ناکامی کے بعد
از : مرتبمسلمان اور غلامی … یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیںہو سکتیں۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے‘ کہ وہ غلامی
Crafted With by Designkaar