مسئلہ مہدی
سوال: چند حضرات نے جو نہایت دین دار و مخلص ہیں، تجدید و احیائے دین کی ان سطور کے متعلق جو آپ نے امام مہدی
سوال: چند حضرات نے جو نہایت دین دار و مخلص ہیں، تجدید و احیائے دین کی ان سطور کے متعلق جو آپ نے امام مہدی
سوال: ’’ظہور مہدی کے متعلق آپ نے رسالہ تجدید و احیائے دین میں جو کچھ لکھا ہے اس میں اختلاف کا پہلو یہ ہے کہ
سوال: آپ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ آپ دراصل خود مجددیا مہدی ہونے کے مدعی ہیں، یا درپردہ اپنے آپ کو مجدد
سوال: ’’میں نے پورے اخلاص و دیانت کے ساتھ آپ کی دعوت کا مطالعہ کیا ہے۔ باوجود سلفی المشرب ہونے کے آپ کی تحریک اسلامی
سوال: ’’آپ نے اپنے رسالہ ترجمان القرآن بابت ماہ جنوری،فروری ۱۹۵۱ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ:’’پچھلے زمانہ کے بعض
سوال : ’’کتاب ’’تجدید واحیائے دین ‘‘ جس قدر بلند پایہ ہے اس کا اندازہ تو ’’ کارِ تجدید کی نوعیت‘‘ کے عنوان سے تحریر
جیسا کہ دیباچہ طبع پنجم میں عرض کیا جا چکا ہے، اس کتاب کے ساتھ یہ ضمیمہ اس غرض کے لیے لگایا جا رہا ہے
اس آخری مجددانہ تحریک کی ناکامی کے اسباب پر بحث کرنا عموماً ان حضرات کے مذاق کے خلاف ہے جو بزرگوں کا ذکر عقیدت ہی
یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللّٰہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ کھڑی
نظام اسلامی کے اس قدر معقول اور اتنے مرتب خاکے کا پیش ہو جانا بجائے خود اس امر کی پوری ضمانت ہے کہ وہ تمام
تعمیر کے سلسلہ میں ان کا پہلا اہم کام یہ ہے کہ وہ فقہ میں ایک نہایت معتدل مسلک پیش کرتے ہیں جس میں ایک
پہلے عنوان کے سلسلہ میں شاہ صاحب نے پوری تاریخ اِسلام پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، شاہ صاحب پہلے شخص
حضرت مجدد الف ثانی ؒکی وفات کے بعد اور عالم گیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے نواحِ دہلی میں شاہ ولی اللّٰہ صاحب
ساتویں صدی میں فتنہ تاتار نے ہندوکش سے اُس پار کی دُنیا کو تو بالکل تاخت و تاراج کر دیا، مگر ہندوستان اس کی دست
امام غزالی ؒکے ڈیڑھ سو برس بعد ساتویں صدی کے نصف آخر میں امام ابن تیمیہؒپیدا ہوئے۔({ FR 6716 }) یہ وہ زمانہ تھا کہ
عمر بن عبدالعزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیّت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور
عمر ؒثانی کی وفات کے بعد اگرچہ سیاسی اقتدار کی کنجیاں پھر اِسلام سے جاہلیّت کی طرف منتقل ہو گئیں اور سیاسی پہلو میں اس
اِسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبدالعزیز ہیں۔({ FR 6711 }) شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالا تو اپنے باپ کو مصر
تاریخی ترتیب کو چھوڑ کر مستقبل کے مجددِ اعظم کا ذکر مَیں نے پہلے اس لیے کر دیا کہ لوگ پہلے مجدد کامل کے مرتبہ
مسلمانوں میں جو لوگ الامام المہدی کی آمد کے قائل ہیں وہ بھی ان متجد دین سے جو اس کے قائل نہیں ہیں، اپنی غلط
لیکن وہ بنیادی چیز جو مجدد کو نبی سے جدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ نبی اپنے منصب پر ا مرِ تشریعی سے مامور
مجدد نبی نہیں ہوتا مگر اپنے مزاج میں مزاجِ نبوت سے بہت قریب ہوتا ہے۔ نہایت صاف دماغ ، حقیقت رس نظر ، ہر قسم
اب قبل اس کے کہ ہم مجدّدینِ اُمت کے کارناموں کا جائزہ لیں ہمیں خود اس کار تجدید کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔تجدُّد اور
یہی وہ چیز ہے جس کی خبر مخبر صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث میں دی ہے جو ابو دائود میں حضرت ابو ہریرہؓ
انھی تینوں اقسام کی جاہلیتوں کے ہجوم سے اِسلام کو نکالنا اور پھر سے چمکا دینا وہ کام تھا جس کے لیے دین کو مجددین
مگر ایک طرف حکومت اسلامی کی تیز رفتار وسعت کی وجہ سے کام روزبروز زیادہ سخت ہوتا جا رہا تھا اور دوسری طرف حضرت عثمان
خاتم النبیین سیّدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ سارا کام ۲۳ سال کی مدت میں پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا۔ آپ کے بعد
فی الجملہ تمام انبیا کے کام پر مجموعی حیثیت سے جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اس کام کی نوعیت یہ پائی جاتی ہے:۱۔ عام
اسی تہذیب و تمدن کو دُنیا میں قائم کرنے کے لیے انبیا علیہم السلام پے در پے بھیجے گئے تھے۔رہبانی تہذیب کو مستثنیٰ کرکے ہر
چوتھا مابعدالطبیعی نظریہ وہ ہے جسے انبیا علیہم السلام نے پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:یہ سارا عالم ہست و بودجو ہمارے گرد
تیسرا مابعدالطبیعی نظریہ رہبانیت پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دُنیا اور یہ جسمانی وجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب
دوسرا مابعدالطبیعی نظریہ شرک کے اصول پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام اتفاقی تو نہیں ہے اور نہ
ان میں سے پہلے نظریے کو ہم جاہلیّتِ خالصہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے:کائنات کا یہ سارا نظام ایک اِتفاقی
جزئیات و فروع سے قطع نظر، اُصولی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو انسان اور کائنات کے متعلق چار مابعدالطبیعی نظریے قائم ہو سکتے ہیں
دُنیا میں انسان کی زِندگی کے لیے جو نظام نامہ بھی بنایا جائے گا اس کی ابتدا لا محالہ بعدالطبیعی یا الٰہیاتی مسائل سے ہو
حال میں اس کتاب کو فتنہ جو حضرات نے خاص طور پر اپنی عنایات کا ہدف بنایا ہے۔ اس لیے مَیں نے نظرثانی کرکے اس
اِسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’’مجدّد‘‘ بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب کی یہ بلند پایہ تالیف فنِ تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے نازک مسئلہ
Crafted With by Designkaar