سوچنے کی بات
یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے، اس پر غور کیجیے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان
یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے، اس پر غور کیجیے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان
اسلام نے زائد از ضرورت دولت کے جمع کرنے کو معیوب قرا ر دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں کہہ چکا ہوں، اس کا مطالبہ
تاہم مجرد اخلاقی تعلیم کے ذریعے سے، اور سوسائٹی کے اخلاقی اثر اور دبائو سے غیر معمولی حرص و طمع رکھنے والے لوگوں کی کمزوریوں
خرچ کرنے کے جتنے طریقے اخلاق کو نقصان پہنچانے والے ہیں یا جن سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے، وہ سب ممنوع ہیں۔ آپ جُوئے
اب دیکھیے۔ جائز ذرائع سے جو کچھ انسان حاصل کرے، اس پر اسلام اس شخص کے حقوقِ ملکیت تو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے
سب سے پہلے دولت کمانے کے سوال کو لیجیے۔ اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ خدا کی زمین میں وہ
اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار
پس درحقیقت اشتراکی نظریہ انسان کے معاشی مسئلے کا کوئی صحیح فطری حل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فطری مصنوعی حل ہے۔ اس کے مقابلے
انسانی تمدن و تہذیب کے لیے اس کا نقصان اس قدر زیادہ ہے کہ اگر بالفرض اس نظام کے تحت ضروریاتِ زندگی انصاف کے ساتھ
اول تو یہ اقتدار، اور ایسا مطلق اقتدار وہ چیز ہے جس کے نشے میں بہک کر ظالم و جابر بننے سے رک جانا انسان
یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ وسائل پیدایش سے کام لینے اور پیداوار کو تقسیم کرنے کا انتظام خواہ نظری طور پر (theoratically)
اس مسئلے کے حل کی ایک صورت اشتراکیت نے تجویز کی ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیدایش دولت کے وسائل افراد کی ملکیت سے
اس عالمگیر محاربے میں بینکروں، آڑھتیوں اور صنعت و تجارت کے رئیسوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تمام دنیا کے معاشی اسباب و وسائل پر
پھر یہ محاربہ جتنا جتنا بڑھتا جاتا ہے، مال دار طبقہ تعداد میں کم اور نادار طبقہ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس محاربے
یہ تو شیطانی رہنمائی کے ایک حصے کا نتیجہ تھا۔دوسری رہنمائی کے نتائج اس سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یہ اصول کہ اپنی اصلی ضرورت
پہلی شیطانی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت مندوں نے جماعت کے ان افراد کا حق ماننے سے انکار کر دیا جو دولت کی
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں، اور خرابی کی نوعیت کیا ہے۔نظامِ معیشت کی خرابی کا نقطۂ آغاز خود غرضی
اب اگر ہم اصطلاحی اور فنی پیچیدگیوں سے بچ کر ایک سیدھے سادھے طریقے سے دیکھیں تو انسان کا معاشی مسئلہ ہم کو یہ نظر
اصطلاحات کے چکر اور فنی پیچیدگیوں کے طلسمات نے اس مسئلے کو جس قدر الجھایا ہے اس پر مزید الجھن اس وجہ سے بھی پیدا
(یہ مقالہ 30؍اکتوبر 1941ء کو ’’انجمن اسلامی تاریخ و تمدن‘‘، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں پڑھا گیا تھا۔ (مرتب) موجودہ
Crafted With by Designkaar