ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)
آج مشرقی ممالک میں اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں ضبط ِولادت کی تحریک کو بڑی تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کی جا
آج مشرقی ممالک میں اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں ضبط ِولادت کی تحریک کو بڑی تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کی جا
اس مقالے کے لیے جوموضوع تجویز کیا گیا ہے وہ ہے ’’اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی۔‘‘ بظاہر اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے یہ
مسلمانوں میں جو حضرات ضبط ِولادت کے مؤیّد ہیں ان کو اپنی تائید میں قرآن مجید سے ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا،{ FR 7265
حامیانِ ضبط ولادت کے مذکورہ بالا دلائل پرنظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک دراصل دہریت والحاد کے شجر خبیث کی
یہ تین بڑی دلیلیں تھیں۔ ان کے بعد تین چھوٹی دلیلیں اور بھی ہیں جن کو ہم اختصارکے ساتھ بیان کرکے اختصار ہی کے ساتھ
کہا جاتا ہے کہ محدود آمدنی رکھنے والے ماں باپ بچوں کو زیادہ تعداد کے لیے اچھی تعلیم وتربیت، عمدہ معاشرت، اور ایک بہتر آغازِ
حامیانِ ضبط ِ ولادت تسلیم کرتے ہیں کہ انواع کی تعداد کوایک حد ِمناست کے اندر محدود رکھنے کا انتظام خود فطرت نے کیا ہے
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کا معاشی مسئلہ ہماری اپنی غلط کاریوں اور
1898ء میں برٹش ایسوسی ایشن کے صدر سرولیم کروکس (Sir William Crookes) نے خطرے کا الارم بجایا تھا اور تحدی کے ساتھ کہا تھا کہ
سب سے بڑی دلیل جس نے لوگوں کو زیادہ دھوکے میں ڈالا ہے یہ ہے کہ’’زمین میں قابل ِ سکونت جگہ محدود ہے، انسان کے
تجربے اور تحقیق سے یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے کہ ضبط ِولادت معاشی حیثیت سے مفید ہے۔ اب معاشیات کے ماہرین میں یہ
یہ تو وہ نقصانات تھے جو محض افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ اس تحریک کے رواجِ عام
اخلاق پر ضبط ِولادت کے مضر اثرات متعدد وجوہ سے مترتب ہوتے ہیں:(ا) عورت اور مرد کو زنا کا لائسنس مل جاتا ہے۔ حرامی اولاد
عائلی زندگی میں ضبط ِ ولادت کے جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی طرف اوپر ضمناً اشارہ کیا جا چکا ہے۔ شوہر اور
توالد وتناسل کا معاملہ چونکہ براہِ راست انسان کے جسم اور نفس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ہم کو سب سے پہلے ضبط ِ
آئیے اب ہم دیکھیں کہ جو لوگ فطرت کے ساتھ یہ دغا بازی کرتے ہیں، کیا فطرت ان کو سزا دیے بغیر چھوڑ دیتی ہے
صفحات گزشتہ میں تحریکِ ضبط ولادت کی ترقی کے اسباب اور اس کے نتائج کا جو تفصیلی بیان پیش کیا گیا ہے اس کو بنظرِ
ان حالات نے تمام مغربی قوموں کے دور اندیش لوگوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ مفکرین ان پر بے چینی اور بے اطمینانی کا
سب سے زیادہ اہم نتیجہ یہ ہے کہ جتنی قومیں اس وقت ضبط ولادت پر عمل کر رہی ہیں ان سب کی شرح پیدائش خوفناک
ضبط ِ ولادت بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جنھوں نے مغربی ممالک میں ازدواجی تعلقات کی بندشوں کو کمزور کر دیا ہے۔ عورت
ضبطِ ولادت سے زنا اور امراض خبیثہ کو بڑا فروغ نصیب ہوا ہے۔ عورتوں کو خدا کے خوف کے علاوہ دو چیزیں اخلاق کے بلند
انگلستان کے رجسٹرار جنرل کی رپورٹوں اور نیشنل برتھ ریٹ کمیشن کی تحقیقات اور آبادی کے رائل کمیشن کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ
اب ایک نظر اس تحریک کے ان نتائج پر بھی ڈال لیجیے جو گزشتہ سو (100) سال میں عملی تجربہ سے ظاہر ہوئے ہیں۔ ایک
جدید تہذیب وتمدن نے بھی ایسے اسباب فراہم کر دیے ہیں جو افزائش نسل سے عام نفرت پیدا کرنے والے ہیں۔مادہ پرستی نے لوگوں میں
ان حالات میں عورتوں کو مجوراً اپنی کفالت آپ کرنا اور خاندان کے کمانے والے افراد میں شامل ہونا پڑا۔ معاشرت کی قدیم اور فطری
یورپ میں جب مشین ایجاد ہوئی اور مشترک سرمائے سے بڑے بڑے کارخانے قائم کرکے کثیر پیداواری (Mass Production) کا سلسلہ شروع ہوا تو دیہات
دورِ جدید میں اس تحریک کے پھیلنے کی اصل وجہ وہ نہیں ہے جس کی بناء پر ابتداء میں مالتھوس نے افزائش نسل کو روکنے
اُنیسویں صدی کے ربع آخرمیں ایک نئی تحریک اٹھی جو نومالتھوسی تحریک (Neo-Malthusian Movement) کہلاتی ہے۔ 1872ء مسز اینی بیسنٹ اور چارلیس بریڈ لانے ڈاکٹر
ابتداء میں اہل مغرب نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی، اس لیے کہ نظریہ اصلاً غلط تھا۔ مالتھوس حساب لگا کر یہ تو
یورپ میں اس تحریک کی ابتدا اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں ہوئی۔ اس کا پہلا محرک غالباً انگلستان کا مشہور ماہر معاشیات مالتھوس (Malthus)
ضبط ولادت کا اصل مقصد نسل کی افزائش کو روکنا ہے۔ قدیم زمانے میں اس کے لیے عزل، اِسقاطِ حمل، قتل اولاد اور برہم چرج
برعظیم ہندو پاکستان میں گزشتہ ربع صدی سے ضبط ولادت (birth control) کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔{ FR 7085 } اس کی تائید میں
یہ مضمون 1354ھ (1935ء) میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کبھی اس پر نظر ثانی کرنے کا موقع نہ ملا۔ اگرچہ بعد میں
یہ کتاب ابتداء ً اب سےچھبیس سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد میں اس فرصت کی تلاش ہی میں رہا کہ اس کے
اِمام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایسی نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جنھوں نے ایک طرف اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے علمی وعملی
الحمد للہ! امام سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بے مثال تصنیف ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ کا جدید تحقیق شدہ اڈیشن شائع ہوگیا ہے
Crafted With by Designkaar