متوازن معیشت کے چار بنیادی اصول
یہ حدود و ضوابط اور یہ اصلاحی تدبیریں اگر معیشت کے ان سات فطری اصولوں کے ساتھ جمع کردی جائیں جو ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘
یہ حدود و ضوابط اور یہ اصلاحی تدبیریں اگر معیشت کے ان سات فطری اصولوں کے ساتھ جمع کردی جائیں جو ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘
اسلام اس بات کو اصولاً پسند نہیں کرتا کہ حکومت خود ضائع یا تاجر یا زمیندار بنے ۔اس کے نزدیک حکومت کا کام رہنمائی ہے،
اسلام معاشرے اور ریاست کے ذمّے یہ فرض عائد نہیں کرتا کہ وہ اپنے افراد کو روزگار فراہم کرے۔ اس لیے کہ فراہمی روزگار کی
مالیات میں اسلام افراد کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ ان کی آمدنیوں کا جو حصہ ان کی ضروریات سے بچ رہے، اسے
اسلام اشیاء استعمال اور ذرائع پیداوار کے درمیان ان طرح کا کوئی فرق تسلیم نہیں کرتا کہ ایک پر شخصی ملکیت جائز ہو اور دوسرے
اسلام تمام دوسری ملکیتوں کی طرح زمین پر انسان کی شخصی ملکیت تسلیم کرتا ہے جتنی قانونی شکلیں ایک چیز پر کسی شخص کی ملکیت
ٹھیک یہی طریق کار ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ وہ ’’بے قید معیشت‘‘ کو ’’آزاد معیشت‘‘ میں تبدیل کردیتا ہے اور اس آزادی
مذکورہ بالا حقائق کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا پیچھے پلٹ کر ایک نظر پھر ان مباحث پر ڈال لیجئے جو اس کتاب
آئیے اب ہم دیکھیں کہ اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر وہ پیچیدگی کس طرح حل ہوسکتی ہے جسے ہم نے ’’تاریخ کا
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ
اسلام کے اصول پر ہم ان مسائل کو کس طرح حل کرسکتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ایک مرتبہ واضح
پچھلے صفحات میں جو تاریخی بیان پیش کیا گیا ہے اس پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے ایک عام ناظر کے سامنے کئی باتیں بالکل وضاحت
لیکن ان تمام تغیرات، ترمیمات اور اصلاحات کے باوجود ابھی تک نظام سرمایہ داری کے بنیادی عیوب جوں کے توں باقی ہیں۔ابھی تک بیروزگاری کا
اب ہمیں ایک نظریہ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ جن ممالک میں وسیع المشرب جمہوریت کی جڑیں مضبوط تھیں انہوں نے نظام سرمایہ داری
یہ تھیں فاشیت اور نازیت کی برکات، مگر ان برکات کے لیے اٹلی اور جرمنی کو قیمت کیا دینی پڑی؟نازی اور فاشی حضرات نے طبقاتی
فاشی اور نازی حضرات اشتراکیوں کے اس خیال کو رد کر دینے میں بالکل حق بجانب تھے کہ ایک معاشرے اور ایک قوم کے زمیندار
اشتراکی حضرات بالعموم اٹلی کی فاشی اور جرمنی کی نازی تحریک کو سرمایہ داری کی رجعت قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور الزام رکھتے
روس میں اشتراکیت نے اپنا نظام قائم کرنے کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر، جیسے سخت ہولناک ظلم کئے اور پھر اس انقلاب کی کامیابی
جہاں تک ارتقائی سوشلزم کا تعلق ہے اس نے ابھی دنیا میں اپنا کوئی نمونہ پیش نہیں کیا ہے جس کو دیکھ کر ہم پورے
اس نئے مسلک کے مصنفوں نے اپنے حملے کی ابتدا ’’حقوق ملکیت ‘‘ سے کی۔ انہوں نے کہا کہ اصل خرابی کی جڑ یہی بلا
یہ تھے وہ اصل اسباب جن کی وجہ سے صنعتی انقلاب کے پیدا کئے ہوئے نظام تمدن و معیشت میں خرابیاں رونما ہوئیں۔ پچھلے صفات
یہ تھے وہ اصول جن کو پورے زور شور کے ساتھ جدید سرمایہ داری کی پیدائش کے زمانے میں پیش کیا گیا اور چونکہ ان
اس نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا اصولوں پر سوسائٹی کی فلاح و بہبود کا بہترین کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے
نظام سرمایہ داری کے وکیل کہتے ہیں کہ جب کاروبار میں منافع کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ لاگت کم اور پیداوار زیادہ
نظام سرمایہ داری میں ہر کاروباری ادارے کے کارکن دو فریقوں پر منقسم ہوتے ہیں۔ ایک مالک، جو اپنی ذمہ داری پر کسی تجارت یا
نظام سرمایہ داری کے وکلاء کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جو بے قید معیشت میں افراد کی خود غرضی کو بے جا حد
نظام سرمایہ داری اشیاء ضرورت کی پیداوار اور ترقی کے لیے جس چیز پر انحصار کرتا ہے وہ فائدے کی طمع اور نفع کی امید
یعنی افراد کا یہ حق وہ فرداً فرداً یا چھوٹے بڑے گروہوں کی شکل میں مل کر اپنے ذرائع کو جس میدان عمل میں چاہیں
صرف انہی اشیاء کی ملکیت کا حق نہیں جنہیں آدمی خود استعمال کرتا ہے مثلاً کپڑے، برتن، فرنیچر، مکان، سواری، مویشی وغیرہ بلکہ ان اشیاء
جیسا کہ ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں، بے قید معیشت کے ’’وسیع المشرب‘‘ نظریے پر جس معاشی نظام کی عمارت اٹھی اس کا نام
اس دور میں وہی ’’لبرلزم‘‘ جس نے پچھلی لڑائی جیتی تھی، نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اٹھا اور اس نے سیاسیات میں جمہوریت کا
اٹھارویں صدی عیسوی میں مشین کی ایجاد نے اس انقلاب کی رفتار کو بدرجہا زیادہ تیز کردیا جس کی ابتدا نشاۃ ثانیہ کے دور میں
کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑی گئی ان کا سرعنوان تھا ’’لبرلزم‘‘ یعنی ’’وسیع المشربی‘‘۔ نئے دور کے
قریب کے زمانے میں دنیا کی فکری امامت اور عملی تدبیر، دونوں ہی کا سر رشتہ اہل مغرب کے ہاتھ میں رہا ہے۔ اس لیے
یہ مختصر رسالہ میری کتاب ’’سود‘‘ کے ان ابواب کا مجموعہ ہے جو اس سے پہلے کتاب مذکورہ کے حصوہ اول و دوم میں شائع
Crafted With by Designkaar