اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:
سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت
سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت
دُنیا اور انسان کے متعلق یہ نظریہ جو پیغمبروں نے پیش کیا ہے، ایک مکمل نظریہ ہے۔ اس کے تمام اجزا میں ایک منطقی ربط
پیغمبر کہتے ہیں:یہ سارا عالم ہست وبود جوانسان کے گرد وپیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جز انسان بھی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ
تیسری رائے جو مشاہدے اور قیاس کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان اورکائنات کی تمام چیزیں بجائے خود غیر حقیقی ہیں۔
دُوسری رائے جو مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم کو ملا کر قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دُنیا اور یہ جسمانی وُجود انسان
ایک رائے یہ ہے کہ کائنات کا یہ نظام بے خداوند تو نہیں ہے مگر اس کا ایک خداوند (الٰہ یا ربّ) نہیں ہے بلکہ
حواس پر اعتماد کرکے جب انسان ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس طرزِ فکر کی عین فطرت کے تقاضے سے
اس مقدمے کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلّیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دُنیا میں اپنے آپ کو
(یہ مقالہ ۲۳؍ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اِسلامیات اِسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا) انسان کو دُنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ
Crafted With by Designkaar