خاتمۂ کلام
یہ چند تجاویز ہیں جو میرے نزدیک اس ملک میں اسلامی قانون کے اجرا و نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے روبعمل آنی چاہئیں۔ میں
یہ چند تجاویز ہیں جو میرے نزدیک اس ملک میں اسلامی قانون کے اجرا و نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے روبعمل آنی چاہئیں۔ میں
میں سمجھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ہر معقول آدمی اس معاملہ میں مجھ سے اتفاق کرے گا کہ جب پاکستان اسلام کے نام
لیکن تدریج کے اس معقول اور بجائے خود بالکل صحیح اصول کو بہانہ بنا کر جو لوگ اس بات کے حق میں استدلال کرنے کی
اب اگر ہم یہاں پھر اسلامی قانون جاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے بھی انگریزی حکومت کے صدسالہ نقوش کو کھرچ دینا اور نئے
قریب کے زمانہ میں خود ہمارے ملک پر جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تھی تو کیا انہوں نے یک لخت یہاں کا سارا نظام
اس کی بہترین مثال خود وہ انقلاب ہے جو نبی a نے عرب میں برپا کیا تھا۔ جو شخص حضورؐ کے کارنامے سے تھوڑی سی
اگر ہم فی الواقع اپنے اس تخیل کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں فطرت کے اس اٹل قاعدے سے غافل نہ ہونا چاہیے کہ
اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط فہمی کو دُور کروں جو اسلامی قانون کے اجرا کے متعلق کثرت
(یہ تقریر ۱۹ فروری ۴۸ئ کو لا کالج لاہور میں کی گئی تھی)اس سے پہلے میں آپ کے سامنے ایک تقریر اس موضوع پر کرچکا
اب میں مختصر طور پر ان اعتراضات سے بحث کروں گا جو پاکستان میں اسلامی قانون کے اجرا کا مطالبہ سن کر بالعموم کیے جاتے
اس مختصر تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمِ قانون کے جتنے شعبوں پر انسانی تصور آج تک پھیل سکا ہے، ان
(۱) اس سیاسی اقتدار کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ایک دستوری قانون (Constitutive Law)کی ضرورت ہے اور شریعت نے اس کے تمام ضوری
اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید اصطلاح کے مطابق شریعت کے جس حصے کو ہم قانون کے لفظ سے تعبیر
یہ پورا نقشہ زندگی ایک ہی نقشہ زندگی ہے اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو تقسیم ہو کر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس
معروف اور منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عبادات، شخصی کردار، اخلاق اور
ان بنیادی اُمور کی توضیح کے بعد اب ہمیں اس سکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو انسانی زندگی کے لیے شریعت نے تجویز
اب ایسے تمام لوگ جنہوں نے تسلیم کا یہ فعل کیا ہو ایک وحدت میں منسلک کیے جاتے ہیں اور ان کے اجتماع سے ’’مسلم‘‘
الکتاب اور الرسول انسان کے سامنے اس حق کو پیش کرتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں کہ کسی دبائو کے بغیر وہ اپنی
یہاں سے حق کا سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ اوّلین بنیادی حق کا سوال ہے جو تمام چھوٹے سے چھوٹے جزوی معاملات تک حق
اس الکتاب اور الرسول نے زندگی کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم الشان کائنات جو تمہیں صریحاً ایک زبردست
اسلام جس نظامِ زندگی کا نام ہے اس کا ماخذ ایک کتاب ہے جس کے مختلف ایڈیشن قدیم ترین زمانے سے توراۃ، انجیل، زبور وغیرہ
پھر زندگی کے پورے دائرے میں ہمیں ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے سوال کا جو جواب دیتے ہیں وہ دراصل ایک دوسرے سوال یعنی ’’کیوں ہونا
قانون کے لفظ سے ہم جس چیز کو تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل اس سوال کا جواب ہے کہ انسانی طرزِ عمل، انفرادی اور اجتماعی
(یہ تقریر۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو لا کالج لاہور میں کی گئی) آج کل کسی ملک میں … غیر مسلموں کے نہیں مسلمانوں کے اپنے ملک
Crafted With by Designkaar