ضمیمہ نمبر ۲
اسلامی ریاستبدعنوانی اور آمریت سے بچنے کا [واحد]ذریعہ ہے۔برطانوی کیتھولک راہبہ کیرن آرمسٹرانگ (karen Armstrong) کا اِعترافاسلامی نظامِ حکومت کے متعلق اِس اِعتراف کا اِظہارکرنے
اسلامی ریاستبدعنوانی اور آمریت سے بچنے کا [واحد]ذریعہ ہے۔برطانوی کیتھولک راہبہ کیرن آرمسٹرانگ (karen Armstrong) کا اِعترافاسلامی نظامِ حکومت کے متعلق اِس اِعتراف کا اِظہارکرنے
پاکستان کے ۳۱ معتمد علمائے کرام کامتفقہ فیصلہ ۱۲تا ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ۔ مطابق ۲۱تا ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء کو کراچی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے
اس مقالےمیں مجھے آپ کے سامنے اس عمل (process)کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجے کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی
آخر میں ہم مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ مقالہ دے رہے ہیںجو موصوف نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں انجمن اسلامی تاریخ
(قرآن کی روشنی میں) ۱۔ حکومت کا مقصدقرآن کی نگاہ میں حکومت کا مقصد نیکی‘ انصاف اور قانونِ الٰہی کا قیام ہے:اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي
اس حصے کا آخری مضمون: اسلامی ریاست کے رہنما اصول ہے۔ یہ مضمون مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ان حواشی سے مرتب کیا گیا
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد
اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عدلِ اجتماعی اور کفالت ِ عامہ کا نظام قائم کرے اوراپنے حدود میں رہنے والے ہر متنفس
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک اصولی
دستوری مسائل میں سب سے پیچیدہ مسئلہ اقلیتوں کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے
جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے‘ انسان کے بنیادی حقوق کا تصور ہمارے لیے کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے لوگوں
ایک مدت سے سوال زیر بحث ہے کہ آیا اسلام نے کچھ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی ہے یا نہیں۔ جو لوگ صرف مغرب
تعبیر ِ دستور کا حق۲۱۷؎سوال: دستور کی تعبیر کا حق کس کو ہونا چاہیے؟ مقننہ کو یا عدلیہ کو؟ سابق دستور میں یہ حق عدلیہ
سوال: اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو‘ مثلاً عیسائی‘ یہودی‘ بدھ‘ جین‘ پارسی‘ ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟
سوال: میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔ سال گذشتہ صوبے کی ہندو مہاسبھا کا پروپیگنڈا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب
مجالسِ قانون ساز میں عورتوں کی شرکت کا مسئلہ۲۰۷؎ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں
یہ ایک سوال نامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے۔
لادینی جمہوریت‘ تھیاکریسی اور اسلامی ریاستاسلامی ریاست‘ جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے‘ نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (theocracy)
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ان مختلف دستوری‘ سیاسی (نظری) مسائل پر وقتاً فوقتاً روشنی ڈالی ہے جو ملک میں دستوری بحث کے دوران
سوال: قرآن مجید میں ارشاد ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ
پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے مطالبے سے اسلامی قانون سازی کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک
اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل کیا ہے اور اس میں اجتہاد کا کیا مقام ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ
جنوری ۱۹۵۸ء میں لاہور میں بین الاقوامی اسلامی مجلس مذاکرہ کا اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں مغربی مستشرقین اور اسلامی دنیا کے مفکرین نے
یہ ہیں وہ اصول حکمرانی جن پر دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حکومت کا نظام قائم ہوا اور چلا‘ نبی اکرم صلی
ظہور اسلام کے ساتھ جو مسلم معاشرہ وجود میں آیا اور پھر ہجرت کے بعد سیاسی طاقت حاصل کرکے جس ریاست کی شکل اس نے
پچھلے ابواب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں مختلف پہلوئوں سے بحث ہو چکی ہے۔ اب اس مثالی دور کا ایک نظری
٭ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِo الذاریات19:51ان کے مالوں میں حق تھا مدد مانگنے والے کے لیے اور رزق سے محروم رہ جانے والے کے
۱۔ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ النساء58:4اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ الحج41:22(یہ مسلمان وہ لوگ ہیں) جن کو اگر ہم زمین میں
۱۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ النساء34:4مرد عورتوں پر قوام ہیں۔۲۔ لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً۔ (بخاری)وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملات
رئیس حکومت‘ وزراء‘ اہلِ شوریٰ اور حکام کے انتخاب میں کیا امور ملحوظ رہنے چاہییں‘ اس باب میں قرآن و سنت کی ہدایات یہ ہیں:۱۔
اجتماعی خلافت کے مذکورہ بالا تقاضے کو قرآن ان الفاظ میں واضح طور پر بیان کرتا ہے:وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۰۠ الشوریٰ38:42اور ان کاکام آپس کے مشورے
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ النور55:24اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم
انبیاء علیہم السلام بالعموم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص اللہ تعالیٰ کی اس سیاسی اور قانونی حاکمیت کے مظہر ہیں۔ یعنی اللہ کی
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یوسف40:12حکم نہیں ہے مگر صرف اللہ کے لیے، اس کا فرمان ہے کہ
اس وقت جب کہ ملک کے دستور کی ترتیب آخری مراحل میں ہے‘ اہلِ علم کا فرض ہے کہ دستور ساز اسمبلی کو ایک صحیح
یہ مقالہ ۱۹۵۲ء کے اواخر میں سپرد قلم کیا گیا تھا۔ اس وقت ایک مشہور وکیل اورصاحبِ قلم نے یہ اعتراض کیا تھا کہ قرآن
ان حقوق کے مقابلے میں شہریوں پر ریاست کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے پہلا حق اطاعت کا ہے جس کے لیے
اس کے بعد مجھے بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (fundamental rights) کیا قراردیے گئے ہیں:۱۔ شہریوں کا اولین حق اسلام میں
اب شہریت کے مسئلے کو لیجیے۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا
یہ اوصاف (qualifications)کا سوال اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ حتیٰ کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دستور کے چلنے یا
ان بنیادی امور کی توضیح کے بعد ہمارے سامنے پانچواں سوال آتا ہے، یہ کہ جو ریاست ان بنیادوں پر تعمیر ہو اس کا نظام
اب اس مسئلے کو لے لیجیے کہ اسلام وہ کون سے بنیادی مقاصد (objectives)پیش کرتا ہے جن کے لیے ایک اسلامی ریاست کو کام کرنا
یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ ریاست کے مختلف اعضا (organs of the state)کے اختیارات اور حدود عمل کیا ہیں۔مجالسِ قانون
خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ
سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی ریاست کا دستور ’’حاکمیت‘‘ کا مقام کس کو دیتا ہے؟اس کا قطعی اور ناطق جواب قرآن
میں سب سے پہلے دستور و ریاست کے چند بڑے بڑے اور بنیادی مسائل کو لے کر مختصراً یہ بتائوں گا کہ اسلام کے اصلی
۲۴ /نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اسلامی دستور کے موضوع پر ایک محفل مذاکرہ میں
ذیل میں جسٹس ایس اے رحمان صاحب کے ایک خط پر مصنف کا تبصرہ درج کیا جارہا ہے۔ وہ خط دراصل اس مراسلت کا ایک
چوتھا مآخذ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں کیے
تیسرا۹۱؎ مآخذ خلافتِ راشدہ کا تعامل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی اسٹیٹ کو خلفائے راشدین نے جس طرح چلایا، اس
دوسرا۸۵؎ ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید
اس کا سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہے۔ اسلام۸۰؎ کی اصطلاح میں ’کتاب‘ سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی رہنمائی کے لیے
اسلامی ریاست وہ ریاست ہے جو حاکمیتِ الٰہی اور خلافتِ علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام کو اس کے تمام تضمنات کے ساتھ قائم کرنے کی
کتاب کے اس دوسرے حصے میں ہم اسلامی ریاست کے بنیادی اصول اور اس کے نظام کار کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ اس سے
زمانۂ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’قوم‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت
وحشت ۵۶؎ سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اٹھتے ہی ضروری ہو جاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو،
تقسیم ملک سے پہلے متحدہ ہندستان کے سیاسی مباحث میں سب سے اہم مسئلہ قومیت کا تصور رہا ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے اپنا جداگانہ تصور
خلافت کی بحث میں سب سے پہلے ہم کو لغت عرب کی طرف رجوع کرکے یہ تحقیق کرنا چاہیے کہ کیا فی الواقع عربی زبان
اسلام کے سیاسی نظریے ہی میں نہیں، اُس کے پورے نظام حیات میں انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کو ایک مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ پچھلے
مندرجہ بالا تصورِ حاکمیت و خلافت کا فطری اور منطقی تقاضا یہ ہے کہ اطاعت اور وفاداری کا مرجع بھی خالق اور اس کی ہدایات
اسلام کا تصور حاکمیت بہت صاف اور واضح ہے۔ خدا اس کائنات کا خالق ہے اور وہی اس کا حاکمِ اعلیٰ بھی۔ اقتدار اعلیٰ صرف
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ۔بنی اسرائیل17:80اور دعا کرو کہ پروردگار!مجھ کو جہاں
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۔ النور24:2زانی عورت
قرآن اس دنیا میں انسان کے صحیح مقام اور زندگی کے متعلق اس کے پورے نظریے کو ایک آیت میں بیان کرتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی
سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہونا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے، یا نہ لائے‘ مگر اس کتاب کو
علم سیاست کا اصل موضوع: فرد اور ریاست کے باہم تعلق کا مسئلہ ہے۔ اس علم کے چند بنیادی سوال یہ ہیں:۱۔ ریاست کی ضرورت
قرآن کریم اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جس میں خالقِ ارض و سما نے زندگی کے تمام بنیادی مسائل کے متعلق اپنی ہدایت مکمل
اب میں آپ کے سامنے اسلامی ریاست کی ترکیب اور اس کے طرز عمل کی تھوڑی سی تشریح کروں گا۔ یہ بات میں آپ سے
(الف) ایجابی اور ہمہ گیر ریاستان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جس ریاست کا تخیل پیش کررہا
ایک شخص بیک نظر ان خصوصیات کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ یہ مغربی طرز کی لادینی جمہوریت (secular democracy)نہیں ہے۔ اس لیے کہ
انبیاء علیہم السلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام مرتب کیا اس کا مرکز و محور‘ اس کی روح اور اس کا جوہر یہی
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اسلام محض چند منتشر خیالات اور منتشر طریق ہائے عمل کا مجموعہ نہیں ہے جس
ہندستان میں مسلمانوں کی جدید سیاسی بیداری اپنے جلو میں نت نئے مسائل لائی۔ ان میں سب سے زیادہ اہم یہ تھا کہ مستقبل میں
مسلمانوں کا سیاسی نظام کیا ہو؟ ہر مسلمان کی یہ دلی خواہش تھی اور ہے کہ اس کا اجتماعی نظام اسلام کی بنیادوں پر قائم
گذشتہ مضمون’سورۂ یوسف کے متعلق چند سوالات‘ کی اشاعت کے کچھ مدت بعد ایک مشہور بزرگ نے (جن کا اب انتقال ہو چکا ہے اور
ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب لکھتے ۱۷؎ ہیں سورۂ یوسف سے متعلق آپ کے فہم قرآنی سے مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔ قرآن کریم
اوپر کی بحث سے اسلامی ریاست کی ضرورت واضح ہو چکی ہے، لیکن چونکہ مختلف وجوہ سے دین و سیاست کی تفریق کے شیطانی فلسفے
ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے‘ اگر وہ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں،اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس غرض کے لیے بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مذہب کے اس جاہلی تصور
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا میں مذہب کا عام تصور یہ تھا کہ: زندگی کے بہت سے شعبوں
اسلام کے سیاسی نظام کے مطالعے میں جو سوال سب سے پہلے ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا تصور مذہب کیا
از: مرتبانسان نے اپنی اجتماعی زندگی کی ترتیب و تہذیب کے لیے جو ادارے قائم کیے ہیں ان میں ریاست کا ادارہ سب سے اہم
از: مصنفپچھلے بیس پچیس سال کے دوران میں، مجھے اسلام کے سیاسی نظام پر بہت کچھ لکھنے اور کہنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے
Crafted With by Designkaar