اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:
سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت
سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت
دُنیا اور انسان کے متعلق یہ نظریہ جو پیغمبروں نے پیش کیا ہے، ایک مکمل نظریہ ہے۔ اس کے تمام اجزا میں ایک منطقی ربط
پیغمبر کہتے ہیں:یہ سارا عالم ہست وبود جوانسان کے گرد وپیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جز انسان بھی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ
تیسری رائے جو مشاہدے اور قیاس کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان اورکائنات کی تمام چیزیں بجائے خود غیر حقیقی ہیں۔
دُوسری رائے جو مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم کو ملا کر قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دُنیا اور یہ جسمانی وُجود انسان
ایک رائے یہ ہے کہ کائنات کا یہ نظام بے خداوند تو نہیں ہے مگر اس کا ایک خداوند (الٰہ یا ربّ) نہیں ہے بلکہ
حواس پر اعتماد کرکے جب انسان ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس طرزِ فکر کی عین فطرت کے تقاضے سے
اس مقدمے کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلّیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دُنیا میں اپنے آپ کو
(یہ مقالہ ۲۳؍ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اِسلامیات اِسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا) انسان کو دُنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ
اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ فرنگیت چاہتی ہیں یا اسلام؟ ان دونوں میں سے ایک ہی کا آپ کو انتخاب
یہ چند امور میں نے مثال کے طور پر بیان کیے ہیں، جن سے آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ اسلامی حکومت میں عورت کومحض
اس سلسلہ میں چند باتیں مجھے آپ سے خاص طور پر کہنی ہیں۔ اسلامی حکومت کے متعلق عام طور پر یہ غلط فہمیاں پھیلائی جا
یہ دور چونکہ جمہوریت کا دور ہے اس لیے حکومت کے مسلک کا انحصار عوام کی رائے پر ہے، حکومت کے اختیارات عوام کے دیے
اس وقت ہمارے سامنے ایک بہت بڑے کام کا پروگرام ہے ہمیں پاکستان میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے، اور یہ کام بہت بڑی
اب اگر آپ نے اسلام فی الواقع اپنے لیے پسند کر لیا ہے تو آپ کے سامنے یہ سوال دو ٹوک فیصلہ کے لیے آن
یہ ہے کہ اپنے گھر کے مردوں پراثر ڈالیں، اور اپنے شوہروں، باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کو اسلام کی زندگی کی طرف بلائیں۔ عورتوں کو
یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں۔ ہماری نسلیں اس لحاظ سے بڑی بدقسمت ہیں کہ گھروں کے اندر کبھی قرآن
یہ ہے کہ گھر کی فضا کو درست کریں۔ اس فضا میں پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آ رہی ہیں۔ ان کو بھی نکال
یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں، اور اپنے اندر سے جاہلیت کی ایک ایک چیز کوچُن چُن کر نکالیں۔ اپنے
اس طرح سوچ سمجھ کر جو خواتین بطور خود اسلام کو اپنا دین بنائیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے کرنے کے
اسلام کی اس مختصر تشریح کے بعد اب میں عرض کروں گا کہ ہم دینِ اسلام کے خادم اورکارکن کیا چاہتے ہیں۔ہماری دعوت سب لوگوں
مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ دنیا میں خدائی، پروردگاری، اور آقائی کے جتنے
آخر یہ صورتِ حالات کیوں ہے؟ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہماری مسلمان دنیا زیادہ تر نسلی مسلمانوں پر مشتمل
مائو! بہنو! بیٹیو! آج اس دنیا میں کروڑوں انسان ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مگر جس دنیا کو ہم
تعریف اُس خدا کے لیے ہے جو ساری کائنات کا، اور اس کے رہنے والوں کا خالق، مالک، رازق، مربی، آقا اور نگہبان ہے، جس
یہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تقریر ہے جو آپ نے لاہور میں خواتین کے ایک اجتماع عام میں ۱۵ فروری ۱۹۴۸ء کو
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رُونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر
مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ
چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسولؐ کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے
پانچواں اُصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے، جس میں کوئی چیز حق کی راہ
چوتھا اُصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا، یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے
اس دستور کا تیسرا اُصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو اسلام نے ہر
دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ اُن لوگوں سے کیا جائے جن کے علم،
دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے
یہ تو تھا رُوح و مزاج، مقصد اور نظریّے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ اور ان برائیوں
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سربراہی میں ریاست
وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکم رانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسولؐ اور قرآن
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سُنّی بھی، امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار
یہ تقریر لاہور میں شیعہ، سُنّی حضرات کی ایک مشترکہ نشست میں کی گئی تھی‘ جو ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کی اشاعت ماہ جولائی ۱۹۶۰
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے ہم نئے دَور کے ان مجتہدین سے ایک بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتے ہیں:اوّل یہ کہ
ان تمام غلط تاویلات اور من گھڑت شرطوں کے بعد آخری سہارا اس واقعے سے لیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
بعض حضرات انھی خارجی اثرات سے متاثر ہو کر تعددِ ازواج کی اجازت کو صرف اُن حالات تک محدود رکھنے پر اصرار کرتے ہیں جب
آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس طرح کی تاویلات کرنے والے حضرات کو ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی
ایک اور تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۳ تعددِ ازواج کو زیادہ سے زیادہ بس مباح ہی قرار دیتی
اس سے بھی زیادہ مضحکہ انگیز استدلال یہ لوگ سورۂ نساء کی آیت نمبر۱۲۹ سے کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:وَلَنْ تَسْتَطِیَعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا
چوتھی چیز متجد دین کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ:’’سورۂ نور کی آیت نمبر۳۳ میں طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ
تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ:’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیونکہ میں اس
دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ:’’ایک سے زائد نکاح اگر کیے بھی جائیں تو ان کو لازمًا یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے،
اپنے اس بے بنیاد دعوے پر یہ لوگ تاویلات کی جو عمارت کھڑی کرتے ہیں اس کا ہر جُز خود اس دعوے سے بھی زیادہ
اس آیت کے الفاظ پر بار بار غور کیجیے۔ اس میں کہیں کوئی اشارہ اور کنایہ تک آپ ایسا نہ پائیں گے جس سے یہ
قرآن مجید کی وہ اصل آیت، جو اسلام کے قانون تعددِ ازواج کی بنیاد ہے، سورۂ نساء کے آغاز میں ہم کو حسب ذیل الفاظ
آج کل ایک گروہ یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ تعدد ازواج کے متعلق اسلامی قانون کا جو
حال میں ایک صاحب نے کچھ شرعی سہارے اس غرض کے لیے تلاش کیے ہیں کہ قربانی بند نہ سہی محدود ہی ہو جائے اور
پھر ذرا دینی نقطۂ نظر سے ہٹ کر محض اجتماعی نقطۂ نظر سے بھی اس ’’ضیاع‘‘ کے عجیب تصور پر غور کیجیے۔ دنیا کی کوئی
لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر بار بار پیش کی جاتی ہے کہ قربانی
یہ تین قسم کی شہادتیں ایک دوسری سے پوری طرح مطابقت کر رہی ہیں۔ حدیث کی کثیر التعداد مستند و معتبر روایات، امت کے تمام
تیسری اہم ترین شہادت اُمت کے متواتر عمل کی ہے۔ عیدالاضحی اور اس کی قربانی جس روز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دوسری اہم شہادت عہد نبوت سے قریب زمانے کے فقہائے امت کی ہے جو سب بالاتفاق اس قربانی کو مسنون اور مشروع کہتے ہیں اور
اس کی پہلی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو حدیث کی تمام معتبر کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں کے ساتھ بہت سے صحابہ کرامؓ
یہ پانچ نکات جو اوپر عرض کیے گئے ہیں انھیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ آپ کو ان میں ایک نبیؐ کی خداداد بصیرت اور
خامساً، قربانی کا جو طریقہ حضورؐ نے سکھایا وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کی دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور
رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا
ثالثاً، اس کے لیے حضورؐ نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ زریں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل
اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے اور اس کا ثبوت کیا
قرآن میں اس مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں وہ یہ ہیں:۱۔ عبادت کی تمام وہ صورتیں جو انسان نے غیر
اعتراض کی اس غلط بنیاد اور اس کے خطرناک نتائج کو سمجھ لینے کے بعد اب بجائے خود اس مسئلے کو دیکھیے جس پر اعتراض
مثال کے طور پر دیکھیے۔ یہ اذان جو دنیا بھر میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نمایاں ملی شعار ہے، جسے رُوئے زمین کے ہر
یہ تو ہے حقیقت کے خلاف اس تصور کی بغاوت۔ اب ذرا اس کی فتنہ انگیزی کا اندازہ کیجیے۔ آج جس چیز کو آپ اسلامی
بالکل غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام، فیصلوں اور ہدایات کی قانونی حیثیت صرف اپنے
یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ
پھر یہ اختلاف بھی کسی معمولی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بہت بڑی فتنہ انگیز بنیاد پر اٹھایا گیا ہے۔ یعنی سوال یہ چھیڑا گیا
مسلمانوں میں اختلافات کی پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی۔ یہ تفرقوں کی ماری ہوئی قوم فی الواقع رحم کی مستحق تھی۔ کسی کے دل
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو ابھی چند سال پہلے تک متحدہ ہندوستان کا ایک حصہ تھا۔ ہماری سرحد کے اس پار ہمارے
کئی سال سے مسلسل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہر بقر عید کے موقع پر اخبارات اور رسالوں کے ذریعہ سے بھی اور اشتہاروں اور
اس کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights) کیا قرار دیے گئے ہیں۔شہریوں کا اولین حق اسلام
شہریّت اور اس کی بنیادیں(’’اسلامی دستور کی تدوین ۱؎‘‘ کے موضوع پر مولانا مودودیؒ نے بار ایسوسی ایشن کراچی۔ میں ۲۴ نومبر ۵۲ء کو ایک
حقوق ذمّہ(مولانا مودودیؒ کی تصانیف سے جناب نعیم صدیقی صاحب نے اپنے کتابچے ’’دو دستوری خاکے‘‘۱؎ میں دفعہ وار مرتب کیے ہیں)دفعہ(۱۵) جو شخص اس
آخر میں اس امر کی توضیح بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں کو جو حقوق بھی دے گی بلا اس
صنعت وحرفت، تجارت، زراعت اور دوسرے تمام پیشوں کے دروازے غیر مسلموں کے لیے بالکل کھلے رہیں گے۔ ان میں مسلمانوں کو ایسی کوئی رعایت
چند محفوظ مناصب کے سِوا وہ تمام ملازمتوں میں داخل ہونے کے حقدار ہوں گے اور اس معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی تعصب نہ
انہیں نظامِ تعلیم تو وہی قبول کرنا ہو گا جو ریاست پورے ملک کے لیے بنائے گی‘ لیکن جہاں تک اسلام کی مذہبی تعلیم کا
غیر مسلموں کو اس ریاست میں تحریر و تقریر اور رائے و ضمیر اور اجتماع کی وہی آزادی حاصل ہو گی جو خود مسلمانوں کو
اس کے ساتھ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ غیر مسلم گروہوں کے لیے ایک الگ نمائندہ مجلس یا اسمبلی بنا دی جائے تاکہ
سب سے پہلے انتخابات کے سوال کو لیجئے۔ اسلامی حکومت چونکہ ایک اصولی حکومت ہے اس لیے وہ غیر مسلموں کے حق میں رائے دہی
یہاں تک ہم نے اہل الذمّہ کے ان حقوق کا ذکر کیا ہے جو شریعت میں ان کے لیے مقرر ہیں اور جنہیں لازماً ہر
یہ ہیں اس قانون کی تفصیلات جو صدرِ اوّل میں غیر مسلم رعایا کے حقوق وفرائض سے متعلق بنایا گیا تھا۔ اب آگے بڑھنے سے
ذمّی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت کرنا تنہا مسلمانوں کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ
مسلمان تاجروں کی طرح ذمّی تاجروں کے اموالِ تجارت پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جبکہ ان کا راس المال ۲۰۰ درہم تک پہنچ جائے
جزیہ و خراج کے معاملہ میں ذمّیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور رفق کی تاکید کی گئی ہے اور ان
امصارِ مسلمین میں ذمّیوں کے جو قدیم معاہد ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ دوبارہ
مذہبی مراسم اور قومی شعائر کو پبلک میں اعلان و اظہار کے ساتھ ادا کرنے کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اہل الذمّہ خود
ذمّیوں کے شخصی معاملات ان کی اپنی ملّتِ کے قانون (Personal Law) کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا
عقد ذمّہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر اسے توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری
ذمّی کو زبان یا ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا‘ اس کو گالی دینا‘ مارنا پیٹنا‘ یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز ہے جس
دیوانی قانون بھی ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور دونوں کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علیؓ کے ارشاد اموالھم کا موالنا کے
تعزیرات کا قانون ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور اس میں دونوں کا درجہ مسای ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمانوں کو دی
ذمّی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمّی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اُسی طرح
اب ہم ذمّیوں کے وہ حقوق بیان کریں گے جن میں تینوں اقسام کے اہل الذّمہ شریک ہیں۔
دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے ہوں اور جنہوں نے اس وقت ہتھیار ڈالے ہوں جب
یہ لوگ جنگ کے بغیر یا دورانِ جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومت اسلامی سے مخصوص شرائط طے کر لیں،
اسلامی قانون اپنی غیر مسلم رعایا کو تین اقسام پر تقسیم کرتا ہے۔ایک وہ جو کسی صلح نامے کے ذریعے سے اسلامی حکومت کے تحت
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک
(۱) مولانا آزاد مرحوم کے مطبوعہ مکتوب سے کسی نئے نظریۂ فکر کی نشان دہی نہیں ہوتی۔ ان کے خط میں پہلے تو یتیم پوتے
’’نوائے وقت‘‘ میں یتیم پوتے کی وراثت کے متعلق میرے سابق مضمون کی اشاعت کے بعد تونسہ شریف سے ایک صاحب نے مجھے مولانا ابوالکلام
حال میں بعض لوگوں نے وراثت کے متعلق اپنی تجویز اس طرح مرتّب کی ہے:’’مورث کا کوئی ایسا نسبی رشتہ دار جو اس کے ترکے
اب میں یہ بتائوں گا کہ فوت شدہ بیٹے اور بیٹی کی اولاد کو وارث قرار دینے پر اصولاً کیا اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور
– میراث کا سوال آدمی کی زندگی میں نہیں بلکہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ کچھ مال چھوڑ کر مر گیا ہو۔
ایک مدت سے بعض حضرات نے یہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کی میراث سے محروم ہونا قرآن کے
(’’اسلام میں یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ ایک عرصے سے اخبارات میں موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ منکرین حدیث کے لیے چونکہ اس مسئلے
دنیا جانتی ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو قدیم ترین زمانے سے نوعِ
آج اُس عظیم الشان انسان کا یوم پیدائش ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ
ہم مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سرورِ عالمؐ‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھی سادی زبان میں اس کا مطلب ہے ’’دنیا کا سردار۔‘‘ ہندی
مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت
دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان و رُ خَّج (موجودہ افغانستان )کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا،
اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے‘ نہ وہ محض چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اوررسموں کا مجموعہ ہے‘ بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک
یہ چند تجاویز ہیں جو میرے نزدیک اس ملک میں اسلامی قانون کے اجرا و نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے روبعمل آنی چاہئیں۔ میں
میں سمجھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ہر معقول آدمی اس معاملہ میں مجھ سے اتفاق کرے گا کہ جب پاکستان اسلام کے نام
لیکن تدریج کے اس معقول اور بجائے خود بالکل صحیح اصول کو بہانہ بنا کر جو لوگ اس بات کے حق میں استدلال کرنے کی
اب اگر ہم یہاں پھر اسلامی قانون جاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے بھی انگریزی حکومت کے صدسالہ نقوش کو کھرچ دینا اور نئے
قریب کے زمانہ میں خود ہمارے ملک پر جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تھی تو کیا انہوں نے یک لخت یہاں کا سارا نظام
اس کی بہترین مثال خود وہ انقلاب ہے جو نبی a نے عرب میں برپا کیا تھا۔ جو شخص حضورؐ کے کارنامے سے تھوڑی سی
اگر ہم فی الواقع اپنے اس تخیل کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں فطرت کے اس اٹل قاعدے سے غافل نہ ہونا چاہیے کہ
اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط فہمی کو دُور کروں جو اسلامی قانون کے اجرا کے متعلق کثرت
(یہ تقریر ۱۹ فروری ۴۸ئ کو لا کالج لاہور میں کی گئی تھی)اس سے پہلے میں آپ کے سامنے ایک تقریر اس موضوع پر کرچکا
اب میں مختصر طور پر ان اعتراضات سے بحث کروں گا جو پاکستان میں اسلامی قانون کے اجرا کا مطالبہ سن کر بالعموم کیے جاتے
اس مختصر تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمِ قانون کے جتنے شعبوں پر انسانی تصور آج تک پھیل سکا ہے، ان
(۱) اس سیاسی اقتدار کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ایک دستوری قانون (Constitutive Law)کی ضرورت ہے اور شریعت نے اس کے تمام ضوری
اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید اصطلاح کے مطابق شریعت کے جس حصے کو ہم قانون کے لفظ سے تعبیر
یہ پورا نقشہ زندگی ایک ہی نقشہ زندگی ہے اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو تقسیم ہو کر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس
معروف اور منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عبادات، شخصی کردار، اخلاق اور
ان بنیادی اُمور کی توضیح کے بعد اب ہمیں اس سکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو انسانی زندگی کے لیے شریعت نے تجویز
اب ایسے تمام لوگ جنہوں نے تسلیم کا یہ فعل کیا ہو ایک وحدت میں منسلک کیے جاتے ہیں اور ان کے اجتماع سے ’’مسلم‘‘
الکتاب اور الرسول انسان کے سامنے اس حق کو پیش کرتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں کہ کسی دبائو کے بغیر وہ اپنی
یہاں سے حق کا سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ اوّلین بنیادی حق کا سوال ہے جو تمام چھوٹے سے چھوٹے جزوی معاملات تک حق
اس الکتاب اور الرسول نے زندگی کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم الشان کائنات جو تمہیں صریحاً ایک زبردست
اسلام جس نظامِ زندگی کا نام ہے اس کا ماخذ ایک کتاب ہے جس کے مختلف ایڈیشن قدیم ترین زمانے سے توراۃ، انجیل، زبور وغیرہ
پھر زندگی کے پورے دائرے میں ہمیں ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے سوال کا جو جواب دیتے ہیں وہ دراصل ایک دوسرے سوال یعنی ’’کیوں ہونا
قانون کے لفظ سے ہم جس چیز کو تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل اس سوال کا جواب ہے کہ انسانی طرزِ عمل، انفرادی اور اجتماعی
(یہ تقریر۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو لا کالج لاہور میں کی گئی) آج کل کسی ملک میں … غیر مسلموں کے نہیں مسلمانوں کے اپنے ملک
آخری سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی نظام کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب یہ ہے کہ بالکل
تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا ہم بلا سود معاشی نظام قائم کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً کرسکتے ہیں۔
اب دوسرا سوال لیجئے ۔ پوچھا گیا ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب
یہاں تک میں نے پہلے حصے کا جواب دیا ہے۔ اب اسی سوال کے دوسرے حصے کو لیجیے جس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ
یہ ہیں وہ اصول اور حدود جو اسلام نے ہماری معاشی زندگی کے لیے مقرر کر دیئے ہیں۔ ان حدود کے اندر آپ اپنا جو
اس کے علاوہ اسلام نے ایک قانونِ میراث بھی بنا دیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک شخص کم یا زیادہ، جو کچھ
بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ اور خراج کے سوا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ
زکوٰۃ کے متعلق یہ غلط فہمی آپ کے ذہن میں نہیں رہنی چاہیے کہ یہ کوئی ٹیکس ہے۔ دراصل یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت
اس رضاکارانہ انفاق کے بعد ایک چیز اور ہے جسے اسلام میں لازم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے زکوٰۃ جو جمع شدہ سرمایوں
پھر اسلام انفرادی دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی
اس کے بعد جو دولت آدمی کو حاصل ہوتی ہے اس کے استعمال پر پھر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں:اس کے استعمال کی ایک
ان قواعد میں سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے کے ذرائع میں اسلام نے حرام اور حلال کی تمیز قائم کی
اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی (equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (equitable) تقسیم چاہتا ہے۔ اس
اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائعِ پیداوار (Means of production) اور
یہ تین چیزیں ہیں جن کو آپ نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ آپ کی سمجھ میں
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے
اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف
اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔
[یہ ایک تقریر ہے جو ۱۷دسمبر۱۹۶۵ء کو پنجاب یونیورسٹی کیے شعبہء انتظامیات کی مجلس مذاکرہ میں کی گئی تھی] حضرات، مجھے چند خاص سوالات پر
خلافتِ عمومی کے تصور کا جو تجزیہ میں نے کیا ہے اُسے نظر میں رکھنے کے بعد آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اِسلامی اسٹیٹ
ایک طرف اِسلام نے یہ کمال درجہ کی جمہوریت قائم کی ہے۔ دُوسری طرف ایسی انفرادیت (Individualism)کا سدِّباب کر دیا ہے جو اجتماعیت (Socialiam) نفی
یہ ہے اِسلام میں ڈیمو کریسی کی اصل بنیاد۔ عمومی خلافت کے اس تصور کا تجزیہ کرنے سے حسبِ ذیل نتائج نکلتے ہیں:(۱) ایسی سوسائٹی
اب مَیں آپ کے سامنے اِسلامی اسٹیٹ کی ترکیب اور اس کے طرزِ عمل کی تھوڑی سی تشریح کروں گا۔ یہ بات مَیں آپ سے
دُوسری بات جو اِسلامی اسٹیٹ کے دستور اور اس کے مقصد اور اس کی اصلاحی نوعیت پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہو جاتی
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جس اسٹیٹ کا تخیل پیش کر رہا ہے اس کا مقصد
اس دستور کی حدود کے اندر جو اسٹیٹ بنے اس کے لیے ایک مقصد بھی خدا نے متعین کر دیا ہے اور اس کی تشریح
مثال کے طور پر انسان کی معاشی زندگی کو لیجیے۔ اس میں اللّٰہ تعالیٰ نے شخصی ملکیت کا حق، زکوٰۃ کی فرضیت، سُود کی حرمت،
آگے بڑھنے سے پہلے مَیں اس امر کی تھوڑی سی تشریح کر دینا چاہتا ہوں کہ اِسلام میں ڈیمو کریسی پر یہ حُدُود و قُیُود
ایک شخص بیک نظر ان خصوصیات کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ اِسلامی ریاست مغربی طرز کی لادینی جمہوریّت (Secular Democracy) نہیں ہے، اس
انبیا علیہم السلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام مرتّب کیا اُس کا مرکز و محور، اس کی رُوح اور اس کا جوہر یہی
یہی وُہ بنیادی اصلاح تھی جو انبیا علیہم السلام نے انسانی زندگی میں کی۔ وُہ دراصل انسان پر انسان کی خدائی تھی جسے مٹانے کے
اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دنیا میں فتنہ کی اصل جڑ اور فساد کا اصل سرچشمہ
اور ’’ربّ‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ عربی زبان میں ربّ کے اصلی معنی پرورش کرنے والے کے ہیں اور چوں کہ دنیا میں پرورش کرنے
الٰہ کے معنی آپ سب جانتے ہیں کہ معبود کے ہیں، مگر معاف کیجیے گا معبود کے معنی آپ بھول گئے ہیں۔ معبود کا مادہ
اِسلام کے متعلق یہ بات تو آپ مجملًا جانتے ہی ہیں کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کا مشن ہے۔ یہ صرف محمد بن عبد
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اِسلام محض چند منتشر خیالات اور منتشر طریق ہائے عمل کا مجموعہ نہیں ہے جس
(یہ مقالہ اکتوبر ۱۹۳۹ء میں انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ، لاہور کے ایک جلسہ میں پڑھا گیا)اِسلام کے متعلق یہ فقرہ آپ اکثر سنتے رہتے
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے مَیں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالتِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا
بیت المال کے بارے میں اسلام کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وُہ اللّٰہ اور مسلمانوں کا مال ہے اور کسی شخص کو اس پر
اسلام اس اَمر کو حرام نہیں کرتا کہ کسی صنعت یا کسی تجارت کو حکومت اپنے انتظام میں چلائے۔ اگر کوئی صنعت یا تجارت ایسی
اس کے علاوہ اسلام اگرچہ اسے پسند کرتا ہے کہ مالکِ زمین اور مزارع، یا کارخانہ دار اور مزدُور کے درمیان خود باہمی رضا مندی
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اُس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرُّف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے بلکہ اس
اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معین کر دیتا ہے۔ وراثت، ہبہ، کسب۔ وراثت صرف وُہ معتبر ہے جوکسی
اسلام میں اللّٰہ تعالیٰ نے خود وُہ حدود قائم کر دیے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین
اب مَیں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وُہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر
درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وُہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود، کسی فرعون اور کسی چنگیز خاں کے دَور میں بھی نہ رہی
اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وُہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حُریّتِ فرد، فراخ
یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دُوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم
یہ دونوں اُمور… یعنی دُنیا میں انسانی شخصیت کی نشوونما اور آخرت میں انسان کی جواب دہی… اِسی بات کے طالب ہیں کہ دُنیا میں
پھر یہ تمام افراد فردًا فردًا خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہر ایک کواس دُنیا میں ایک خاص مدتِ امتحان (جو ہر فرد کے
ہر انسانی معاشرہ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس مرکب کا ہر فرد ذی روح، ذی عقل اور ذی شعور
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ عدل اجتماعی درحقیقت ہے کس چیز کا نام اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے۔
دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینا ضروری ہے وُہ یہ ہے کہ جو شخص ’’اسلام میں عدل ہے‘‘ کہتا ہے وُہ حقیقت سے
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو مَیں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وُہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں بھی
مَیں اس مختصر مقالے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عدالتِ اجتماعیہ درحقیقت نا م کس چیز کا ہے اور اس کے قیام کی صحیح
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اُس کے رسُول کی سُنّت میں ایک دائمی وابدی ہدایت موجود ہے
پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وُہی شیطان ایک دُوسرا فریب اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نام سے بنا لایا اور اب اس
اِنھی دھوکوں میں سے ایک بہت بڑا دھوکا وُہ ہے جو موجودہ زمانے میں اجتماعی عدل (Social Justice) کے نام سے بنی نوع انسان کو
انسان کو اللّٰہ تعالیٰ نے جس احسنِ تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وُہ عریاں فساد
(یہ مقالہ ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں حج کے موقع پر موتمر عالمِ اسلامی کے اجتماع منعقدہ مکہ معظمہ میں پڑھا گیا تھا)
اسلام میں ہر شخص کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ تحقیق کے بغیر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ اس سلسلے میں
اسلام میں آدمی صرف اپنے اعمال اور اپنے جرائم کے لیے جواب دہ ہے۔ دوسروں کے اعمال اور دوسروں کے جرائم میں اسے پکڑا نہیں
آزادیٔ اظہار کے عین منطقی نتیجے کے طور پر آزادیِ اجتماع کا حق نمودار ہوتا ہے۔ جب اختلاف آرا کو انسانی زندگی کی ایک اٹل
اسلام اس امر کا روادار نہیں کہ مختلف مذہبی گروہ ایک دوسرے کے خلاف دریدہ د ہنی سے کام لیں اور ایک دوسرے کے پیشوائوں
اسلام نے لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ [البقرہ2:256] کا اصول انسانیّت کو دیا اور اس کے تحت ہر شخص کو آزادی عطا کی کہ وہ کفر
اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
اسلام کے بنیادی حقوق کی رو سے۔ آدمی کو (Privacy)یعنی نجی زندگی کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس معاملے میں سورۂ نور میں
ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی انسان کی آزادی عدل کے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمرؓ نے واضح الفاظ میں فرمایا
انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک بڑا حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد حکومت میں حصہ دار ہیں۔
اسلام کا ایک عظیم الشان اصول یہ ہے کہ کسی ظالم کو اطاعت کا حق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے کہ
ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی شخص کو معصیت کا حکم نہیں دیا جا سکتا اور نہ کسی پر یہ واجب یا اس کے
ایک اور اُصول جسے قرآن کریم نے بڑے زورشور کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسان یکساں ہیں۔ اگر کسی کو
ایک اور اصول جو قرآن معین کرتا ہے، یہ ہے کہ نیکی اور حق رسانی کے معاملے میں ہر ایک کے ساتھ تعاون کیا جائے
قرآن کریم کا یہ اٹل اصول ہے کہ انسان کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا
ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ بھوکا آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے روٹی دی جائے، ننگا ہر حالت میں اس
ایک اور اصولی حق جو ہمیں قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور حدیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں، یہ ہے کہ عورت کی
دوسری بات جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے اور نبی a کے ارشادات سے واضح ہے، یہ ہے کہ عورت، بچے، بوڑھے، زخمی اوربیمار کے
قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعۂ قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اولین سانحہ تھا جس میں ایک
’’مجلس اقوامِ متحدہ انسانی حقوق اور سب کے لیے اساسی آزادیوں کے عالم گیر احترام اور ان کی نگہداشت میں اضافہ کرے گی۔‘‘اس پورے منشور
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اسلامی منشور کے نکات پر گفتگو کرنے سے قبل دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کی
درحقیقت یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہی ایسا ہے جس کے بارے میں خود انسانوں ہی کے درمیان بار
جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے، انسان کے بنیادی حقوق کا تصوّر ہمارے لیے کوئی نیا تصوّر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے
’’ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی
آخر میں چند گزارشات اپنے غیر مسلم بھائیوں کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ہمارا
یہ واضح کر دینے کے بعد کہ خدا کے دین اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی دعوت تمام انسانوں کی طرف عام
برادران گرامی! اسلام کسی قوم یا ملک کا دین نہیں ہے کہ یہ اس خاص قوم یا ملک تک محدود ہے۔ یہ اللہ کا دین
’’عمل و عبادت‘‘ کے علاوہ ’’روحانیت‘‘ کا بھی ایسا غلط اور گمراہ کن تصور عام مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی
برادران عزیز! عبادت کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ ’’عمل و عبادت‘‘ حقیقت میں نام ہے ان تمام افعال
مسلمانوں میں جب اسلامی نظام قائم کرنے کا احساس پیدا ہو تو انہیں خود اس کی فکر ہوگی کہ ہمیں منظم ہو کر کام کرنا
اس راہ کا دوسرا قدم یہ ہے کہ گرد و پیش ہر طرف جو لاتعداد مسلمان دین حق سے غافل اور اس سے اپنی ناواقفیت
ان حالات میں جب کہ اسلام کا باغ ویران ہو چکا‘ اس کے باغبان بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ کر حصول دنیا کی دوڑ
ابتداء سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیائے کرام کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سب کی بعثت کی
ملت اسلامیہ میں سے جن حضرات کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو چکا ہے‘ انہیں غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس
برادران مکرم‘ اللہ کا دین پوری انسانی زندگی پر حاوی ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے۔ ان کا کوئی حصہ اختیاری نہیں اور
نماز کے سلسلے میں ایک اور چیز جو ہر مسلمان کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ
اقامت صلوٰۃ کا منتہائے مقصود ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانا ور مضبوطی سے قائم رکھنا ہے‘ جس کے اندر ہر فرد انفرادی طور
اب اپنی اس استدعا کی روشنی میں بھی اپنے اعمال اور مشاغل زندگی کا جائزہ لیجئے جو اللہ کی بارگاہ سے رخصت ہوتے وقت اس
اللھم انا نستعینک و نستغفرک و نومن بک و نتوکل علیک و نثنی علیک الخیر۔ و نشکرک ولا نکفرک و نخلع و نترک من یفجرک۔
دن بھر کے مشاغل سے فارغ ہو کر‘ رات کی تنہائی میں اللہ کے حضور دست بستہ کھڑے ہو کر نماز وتر کی قنوت میں
’’التحیات‘‘ کے بعد نماز کو سلام پر ختم کرنے سے پہلے ہم یہ درود شریف پڑھتے ہیں:اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کما
اب التحیات کو لیجئے جو آدمی اپنے رب کے حضور دو زانوں بیٹھ کر گزارش کرتا ہے:التحیات للہ و الصلوۃ والطیبات السلام علیک ایھا النبی
اس کے بعد آدمی رکوع میں جاتا ہے اور بار بار سبحان ربی العظیم کا ورد کرتا ہے۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہکہتا ہوا کھڑا
سورۂ فاتحہ کے بعد نماز میں قرآن مجید کی کوئی دوسری سورہ یا اس کا کوئی حصہ پڑھا جاتا ہے جن آیات کو بھی آدمی
ثناء اور تعوذ کے بعد آدمی بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے‘ جو درج ذیل ہے:الحمد للہ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔
اب تعویذ کو لیجئے۔ ہم اپنی نمازوں میں کم از کم گیارہ مرتبہ روزانہ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کی اللہ سے دعا کے ذریعے
نماز میں انسان تکبیر تحریمہ یعنی ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے
اب دیکھئے‘ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلا کلمہ جو ہمارے منہ سے نکلتا ہے‘ وہ یہ اقرار ہے کہ:انی وجھت للذی
برادران عزیز! ابھی وقت ہے کہ ہر بھائی اپنی روز مرہ کی زندگی اور اس کے مشاغل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے اور اندازہ
برادران مکرم‘ اللہ کو اپنا خالق و مالک اور پروردگار مان لینے کا لازمی تقاضا ہی نہیں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم بھی یہی ہے
برادران محترم‘ ابھی وقت ہے کہ ہم ذرا دور اندیشی سے کام لیں اور اپنی گزری ہوئی زندگی کا جائزہ لیں‘ اپنے نفع و نقصان
’’حیرت ہے کہ ریت کے ذرے بھی اتنی تعداد میں کسی خطہ ارض میں جمع ہو جائیں تو اسے ریگستان بنا دیتے ہیں۔ اور پانی
حضرات! اس حقیقت کو فراموش نہ کیجئے کہ سنت اللہ یہ نہیں ہے کہ ہم دین کو چاہیں یا نہ چاہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے زور
دوسری راہوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہاں تک پہنچے‘ زاد راہ کیا ہے اور منزل کتنی باقی ہے۔ کامیابی کے امکانات کا حساب
تحریک اسلامی کا قیام اسی مقصد حق کے لیے ہے۔ ہم ان مسلمانوں کو چھانٹ چھانٹ کر جمع کر رہے ہیں جو اس پورے حق
اس وقت کے مسلمانوں کا جائزہ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی اقسام بے شمار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے تفصیل
اسلام کے ساتھ ہماری نسبت ان مسلمات ہی کے تسلیم کرنے سے قائم ہے۔ یہ بنیادی اصول ہیں جن پر ہم سب مسلمان متفق ہیں۔
رسولؐ کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے کتاب بھی بھیجی ہے۔ وہ جنتر منتر کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ غیر مسلم بھی مانتے ہیں کہ یہ
کیونکہ رسول کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے واجب الاطاعت مانیں‘ زندگی کے ہر گوشے میں خدا کے نائب اور رسول ہونے کی
بلکہ ایمان باللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ پر‘ اس کی تمام صفات و اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جو شان الوہیت کے لیے موزوں
اب آئیے غور کیجئے کہ اسلام جس کی نسبت ہی سے ہماری تمام کائنات ہے۔ اس کے وہ اساسی معتقدات کیا ہیں جن پر تمام
’’اگر ہم نے اس جدوجہد میں بازی پالی تو فہو المراد‘ اور اگر دوسری بات ہوئی تب بھی تمام راستوں میں ایک حق ہی کا
اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء
ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیا ہے‘ یہ ہے کہ ’’آپ کا یہ
ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار سن چکا ہوں اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے‘ یہ ہے کہ ایسے
اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریق کار‘‘ کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا
یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔ اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتائوں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے
مگر یہ تغیر چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں
اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتہ کو لیجئے۔ ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں‘ یہ تیسرا نکتہ ان
اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں‘ اور جس کے خارج کرنے
دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب
اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ
اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات (Points) پر مشتمل ہوگی:(1)یہ
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔
الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و ن سئیات اعمالنا من یھدہ
اسلام کیا ہے‘ اس کی دعوت کیا ہے اور اس کے مخاطب کون ہیں؟ ماننے والوں سے اس کے مطالبات کیا ہیں؟ اس کو برپا
اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء
ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیاہے کہ تمہاری جماعت محض چندزہا داور تارکین
ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار سن چکا ہوں اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے، یہ ہے کہ ایسے
اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریقِ کار ‘‘کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا
یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتائوں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے پہلے
مگر یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ کی مشیت بہر حال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ
اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم ہر پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں اورجس کے خارج کرنے
دوسری چیز جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ
اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے ،کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ
اگر ہم اپنی اس دعوت کومختصر طو ر پرصاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تویہ تین نکات پرمشتمل ہوگی :۔(۱) یہ کہ ہم
ہمارے ان اجتماعات کا مقصد کوئی مظاہرہ کرنا اور ہنگامہ برپاکرکے لوگوںکواپنی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے۔ ہمار ی غرض ان سے صرف یہ ہے
یق کار (یہ تقریر ۱۹اپریل ۱۹۴۵ء کو سالانہ اجتماع منعقدہ دارالاسلام۔ پٹھان کوٹ میں کی گئی) حمد و ثناء کے بعد فرمایا:۔سب سے پہلے میں
قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں
قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے:ایک: طبقہ عوامدوسرا: طبقہ خواص۔طبقۂ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے
سائل کا آخری سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کے دائرے میں تبلیغ کفر کی اجازت نہیں ہے تو عقلی حیثیت سے اس ممانعت
اس سلسلے میں ایک آخری سوال اور باقی رہ جاتا ہے جو ’’قتل مُرتد‘‘ کے حکم پر بہت سے دماغوں میں تشویش پیدا کرتا ہے۔
پچھلے صفحات میں ہم نے دنیا کے دوسرے نظاموں سے سزائے ارتداد کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ایک اور الجھن کو بھی رفع
یہاں پہنچ کر ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال الجھن پیدا کرنے لگتا ہے کہ ابتداء ً کافر ہونے اور اسلام سے مرتد
یہ ایک جداگانہ بحث ہے کہ ایک اسٹیٹ کا وجود بجائے خود جائز ہے یا نہیں۔ اس معاملہ میں ہمارا اور دنیوی ریاستوں (Secular States)
برطانیہ کے بعد اب دنیا کے دوسرے علم بردار جمہوریت ملک امریکا کو لیجیے۔ اس کے قوانین اگرچہ تفصیلات میں کسی حد تک برطانیہ سے
مثال کے طور پر انگلستان کو لیجیے۔ انگریزی قانون جن لوگوں سے بحث کرتا ہے وہ دو بڑی قسموں پر تقسیم ہوتے ہیں: ایک برطانوی
یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا مذہبی ریاست بجائے خود صحیح ہے یا نہیں۔ چونکہ اہل مغرب کی پشت پر پاپایان روم کی ایک
اوپر ہم نے قتل مرتد پر اعتراض کرنے والوں کے جو دلائل نقل کیے ہیں اور ان کے جواب میں اپنی طرف سے جو دلائل
قتل مرتد کو جو شخص یہ معنی پہناتا ہے کہ یہ محض ایک رائے کو اختیار کرنے کے بعد اسے بدل دینے کی سزا ہے
حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام کی حیثیت فی الواقع اسی معنی میں ایک ’’مذہب‘‘ کی ہوتی جس معنی میں یہ لفظ آج تک بولا
قتل ِ مرتد پر زیادہ سے زیادہ جو اعتراضات ممکن ہیں وہ یہ ہیں:اوّلاً، یہ چیز آزادی ضمیر کے خلاف ہے۔ ہر انسان کو یہ
اب ہمیں سوال کے دوسرے پہلو سے بحث کرنی ہے، یعنی یہ کہ اگر اسلام میں واقعی مرتد کی سزا قتل ہے اور وہ فی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں حکومت کی مستقل پالیسی یہی تھی جو اوپر بیان ہوئی۔ عرب میں مسیلمہ، اسود
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی جو آزادی بخشی گئی ہے اور جزیہ کے معاوضے میں ان کی جان
اسلام جس غرض کے لیے اپنی حکومت قائم کرتا ہے وہ محض انتظام ملکی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک واضح اور متعین مقصد ہے
اس سوال کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی موقف کو اور اسلامی حکومت کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔اسلام
یہاں تک ہماری بحث پہلے سوال سے متعلق تھی، یعنی یہ کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے یا نہیں۔ اب ہم دوسرے سوال
اب بحث طویل ہو جائے گی اگر ہم پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک کے فقہا کی تحریریں مسلسل نقل کریں۔
مگر ان سب نظیروں سے بڑھ کر وزنی نظیر اہل رِدّہ کے خلاف حضرت ابوبکرؓ صدیق کا جہاد ہے۔ اس میں صحابہ کرام کی پوری
اس کے بعد دَور خلافت راشدہ کے نظائر ملاحظہ ہوں:(۱) حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ایک عورت جس کا نام ام قرفہ تھا اسلام لانے
یہ تو ہے قرآن کا حکم۔ اب حدیث کی طرف آیئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(۱) من بدل دینہ فاقتلوہ ۔’’جو شخص
ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو
یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اُس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہو
یہ مختصر مضمون ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا تھا اور رسالہ ترجمان القرآن کے اکتوبر ۱۹۴۲ء سے جون ۱۹۴۳ء تک کے پرچوں میں
دین سے ناواقفیت کی بنا پر اس وقت مسلمانوں میں جس بڑے پیمانہ پر فتنۂ ارتداد پھیل گیا ہے اس کے پیش نظر اس مسئلہ
اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدد اصحاب نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ اسلامی جماعت کو قوم کے بجائے پارٹی کہنے سے اس
زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت
اب مجھے چند الفاظ مولانا سندھی کے اس آخری فقرے کے متعلق بھی عرض کرنے ہیں جس میں انھوں نے نکر اور پتلون اور ہیٹ
وہ محض طفلانہ خام خیالی ہے جس کی بنا پر اس ملک کے سیاسی لیڈر بغیر سوچے سمجھے رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اجنبی طاقت
اچھا اب اس سوال پر غور کیجیے کہ یہاں ایک تہذیبی قومیت کس طرح پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے اِمکانی نتائج کیا ہوں گے؟جس
اس تجزیہ کو سامنے رکھ کر ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالیے۔کیا فی الواقع یہاں نیشنلزم کی بنیاد موجود ہے؟ بلاشبہ سیاسی قومیت یہاں ضرور
کسی ملک میں نیشنلزم پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پہلے سے ایک قومیت موجود ہو یا اگر وہ پہلے سے موجود نہیں
پچھلے صفحات میں یہ بات اصولی حیثیت سے ہم ثابت کرچکے ہیں کہ اجتماعیات میں نیشنلزم کا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر سے کُلی
اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانہ میں آزادی اور ترقی اور وقار و شرف حاصل کرنے کا ایک ہی مجرب نسخہ دنیا کی قوموں
یورپین اصول پر جب نیشنلزم کو ترقی دی جائے گی تو وہ بالآخر اسی مقام پر پہنچ کر دم لے گی جو لوگ ابھی بیچ
میں نے مغربی نیشنلزم اور اس کے اندازِ فکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہلِ مغرب کے الفاظ
یہ تو وہ بات تھی جو نیشنلزم کے بالکل ابتدائی مفہوم پر غور کرنے سے نکلتی ہے۔ اب ہمیں ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھنا
سرسری نظر میں جو شخص نیشنلزم کے معنی اور اس کی حقیقت پر غور کرے گا اس سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی کہ
۱- ’’اگر میرا وطن اس انقلاب کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے جو اس وقت دنیا پر چھا گیا ہے اور چھاتا چلا جارہا ہے
جناب مولانا عبیداللہ سندھی ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد جب ہندوستان واپس تشریف لائے تو جمعیت علمائے بنگال نے ان کو اپنے کلکتہ
مولانا نے اپنے ذہن میں ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے جس کے حدود انھوں نے تمام شرعی شرائط کو ملحوظ
معنی قومیت کی تشریح کے لیے ان عبارات پر پھر ایک نظر ڈال لیجیے جو اسی مضمون میں لارڈ برائس کی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘
مولانا ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:’’(متَّحدہ وطنی قومیت) کی مخالفت کا فتویٰ صرف اس بنا پر کہ وطنیت کا مفہوم مغرب کی اصطلاح میں آج
پھر مولانا اس متَّحدہ قومیت کے جواز میں ایک اور دلیل پیش فرماتے ہیں اور وہ یہ ہے:’’ہم روزانہ مفاد ہائے مشترکہ کے لیے ہیئاتِ
آگے چل کر مولانا دعویٰ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے مدینہ طیبہ میں یہود اور مسلمانوں کی متَّحدہ قومیت بنائی تھی، اور اس کے ثبوت
اس کے بعد مولانا لُغت عربی کی طرف رجوع فرماتے ہیں اور شواہد سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ عربی زبان میں قوم کے معنی
مولانا فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ لیکن یہ ایک قطعی غلط اور سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ پوری انسانی تاریخ
اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ مولانا اپنے مُدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے مشہور اور بیّن واقعات کو بھی صاف نظرانداز کرجاتے
ایک مصنف کی تصنیف میں سب سے پہلے جس چیز کو تلاش کرنا چاہیے، وہ اس کا زاویۂ نظر ہے۔ اس لیے کہ اپنے موضوع
اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب ، صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔{ مجلس قاسم العلوم دیوبند
(یہ ایک مختصر تقریر ہے جو ربیع الاوّل ۵۳ھ میں انجمن مجددیہ حیدرآباد کے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی گئی تھی)الحمد للّٰہ رب العٰلمین
آج مغربی قوموں سے سبق سیکھ کر ہر جگہ کے مسلمان نسلیت اور وطنیت کے راگ الاپ رہے ہیں۔ عرب عربیت پر ناز کر رہا
یہ فتنہ جس کے ظاہر ہونے کا سیّدالکونینؐ کو اندیشہ تھا، حقیقت میں ویسا ہی مہلک ثابت ہوا جیسا آپؐ نے فرمایا تھا۔ قرنِ اوّل
رسول اللہﷺ کو اپنے آخری زمانہ میں سب سے زیادہ خطرہ جس چیز کا تھا وہ یہی تھی کہ کہیں مسلمانوں میں جاہلی عصبیتیں پیدا
ان شواہد سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی قومیّت کی تعمیر میں نسل و وطن اور زبان و رنگ کا قطعاً
پھر جنگ ِ بدر اور جنگ ِ اُحد میں مہاجرین مکہ دین کی خاطر خود اپنے رشتہ داروں سے لڑے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن
دوسری طرف اہلِ مدینہ نے رسول اکرمﷺاور مہاجرین کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے جان و مال خدمت ِ اقدس میں پیش کر دیے۔
اس جماعت نے اسلام کے تبر(کلہاڑے) سے عصبیت کے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جو نسل اور وطن، رنگ اور زبان وغیرہ کے نام
اس جماعت میں جس کی شیرازہ بندی اسلام کے تعلق کی بنا پر کی گئی تھی خون اور خاک، رنگ اور زبان کی کوئی تمیز
یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اسلام نے تمام انسانی اور مادی رشتوں کو قطع کردیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس نے مسلمانوں کو صلہ رحمی
اس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادی، حسی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دُنیا کی مختلف قومیتوں
اس بیان سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کے بعد اسلام کی دعوتِ حق کا اگر کوئی
اسلام جب ظاہر ہوا تو اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی نسل و وطن کے تعصبات و امتیازات تھے۔رسول اللہ ﷺکی اپنی
ٹھیک یہی بات ہے جو اسلام کہتاہے۔ اس نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادی اور حسی فرق کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ وہ کہتا
اس تنقید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نسلِ انسانی میں یہ جتنی تفریقیں کی گئی ہیں ان کے لیے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔
نظامِ حکومت کا اِشتِراک بجائے خود ایک ناپائیدار اور ضعیف البیان چیز ہے اور اس کی بناپر ہرگز کسی مستحکم قومیّت کی تعمیر ممکن نہیں
معاشی اَغراض کا اِشتِراک انسانی خود غرضی کا ایک ناجائز بچہ ہے۔ قدرت نے اس کو ہرگز پیدا نہیں کیا۔ آدمی کا بچہ کام کرنے
انسانی جماعتوں میں رنگ کا امتیاز سب سے زیادہ لغو اور مہمل چیز ہے۔ رنگ محض جسم کی صفت ہے، مگر انسان کو انسان ہونے
اِشتِراکِ زبان کا فائدہ صرف اس قدر ہے کہ جو لوگ ایک زبان بولتے ہیں وہ باہمی تفاہُم اور تبادلۂ خیالات کے زیادہ مواقع رکھتے
مرزبوم کے اِشتِراک کی حقیقت اس سے زیادہ موہوم ہے، انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اس کا رقبہ یقینًا ایک گز مربع سے زیادہ
نسلیّت کیا ہے؟ محض خون کا اِشتِراک۔ اس کا نقطۂ آغاز ماں اور باپ کا نطفہ ہے جس سے چند انسانوں میں خونی رشتہ پیدا
تھوڑی دیر کے لیے اس پہلو سے قطع نظر کرلیجیے۔ یہ جتنے اِشتِراکات آج قومیت کی بنیاد بنے ہوئے ہیں ان کو خود ان کی
اس قسم کی قومیت کا فطری اِقتضا یہ ہے کہ وہ انسان میں جاہلانہ عصبیت پیدا کرے۔ وہ ایک قوم کو دوسری قوم سے مخالفت
یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ بنیادیں جن پر دنیا کی مختلف قومیتیں تعمیر کی گئی ہیں، انھوں نے بڑی قوت کے ساتھ جماعتوں کی
قومیت کا قیام وحدت و اشتراک کی کسی ایک جہت سے ہوتا ہے، خواہ وہ کوئی جہت ہو۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس میں
اس میں شک نہیں کہ قومیت کی ابتداء ایک معصوم جذبہ سے ہوتی ہے، یعنی اس کا مقصد اوّل یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص
وحشت سے مدنیت کی طرف انسان کا پہلا قدم اُٹھتے ہی ضروری ہوجاتا ہے کہ کثرت میں وحدت کی ایک شان پیدا ہو اور مشترک
قوم، قومیّت اور قوم پرستی کے الفاظ آج کل بکثرت لوگوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں، لیکن کم لوگ ہیں جن کے ذہن میں
(1) ابن اثیر،النھایۃ فی غریب الأثر،بیروت، المکتبۃ العلمیۃ،1979م(2) احمد بن حنبل(164-241 ھ)،مسنداحمد،دار احیاء التراث الاسلامی،بیروت، 1993م(3) الافریقی،محمد بن مکرم، جمال الدین، لسان العرب، بیروت،دارصادر،1414ھ(4) الأصفھانی،الراغب،حسین
یہاں تک ہم نے قانون اسلامی کی جو تفصیلات درج کی ہیں ان سے جناب مولانا مناظر احسن صاحب کے استدلال کی پوری بنیاد منہدم
مجھ کو مولانا مناظر احسن صاحب کی رائے سے جن جن امور میں اختلاف تھا، ان کا اظہار مختصر طور پر حواشی میں کر دیا
(از جناب مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی مرحوم)(سود کی بحث میں علما کے ایک گروہ نے یہ پہلو بھی اختیار کیا ہے کہ ہندوستان دارالحرب
اور اس کا جواب۱۹۶۰ء کے اوائل میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور نے ایک مجلس مذاکرہ منعقد کی تھی جس میں سود کے متعلق چند اہم
(یہ وہ مراسلت ہے جو اس مسئلے پر جناب سید یعقوب شاہ صاحب سابق آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان اور مصنف کے درمیان ہوئی تھی)سوال: خاکسار
اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ کیا فی الواقع سود کو ساقط کرکے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جا سکتا ہے
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ربوٰ دراصل اس زائد رقم یا فائدے کو کہتے ہیں جو قرض کے معاملے میں ایک دائن رأس
یہ ہماری بحث کا عقلی پہلو تھا۔ اب ہم نقل کے اعتبار سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کی رو سے ’’سود‘‘
مگر سود کی شناعتوں کا مضمون ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کی اپنی ذاتی برائیوں کو اس تنظیم نے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا
پچھلے باب میں جو بحث ہم نے کی ہے اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سود نہ تو کوئی معقول چیز
۱۔ سَلَبی پہلواسلامی نظام معیشت اور اس کے ارکان کا جو مختصر خاکہ پچھلے باب میں پیش کیا گیا ہے اس میں چار چیزیں بنیادی
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو مختصراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں جو معاشی نظام اب تک پیدا ہوئے ہیں ان کے درمیان
عام طور پر سود کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کو سمجھنے میں جو غلطی واقع ہو رہی ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے
یہ کتاب میرے اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے ۱۹۳۶ء سے ۱۹۶۰ء تک مختلف زمانوں میں سود کے موضوع پر لکھے ہیں۔ اس
سرمایہ دارانہ نظام نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اُس کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہماری معاشی زندگی
یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے، اس پر غور کیجیے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان
اسلام نے زائد از ضرورت دولت کے جمع کرنے کو معیوب قرا ر دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں کہہ چکا ہوں، اس کا مطالبہ
تاہم مجرد اخلاقی تعلیم کے ذریعے سے، اور سوسائٹی کے اخلاقی اثر اور دبائو سے غیر معمولی حرص و طمع رکھنے والے لوگوں کی کمزوریوں
خرچ کرنے کے جتنے طریقے اخلاق کو نقصان پہنچانے والے ہیں یا جن سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے، وہ سب ممنوع ہیں۔ آپ جُوئے
اب دیکھیے۔ جائز ذرائع سے جو کچھ انسان حاصل کرے، اس پر اسلام اس شخص کے حقوقِ ملکیت تو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے
سب سے پہلے دولت کمانے کے سوال کو لیجیے۔ اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ خدا کی زمین میں وہ
اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار
پس درحقیقت اشتراکی نظریہ انسان کے معاشی مسئلے کا کوئی صحیح فطری حل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فطری مصنوعی حل ہے۔ اس کے مقابلے
انسانی تمدن و تہذیب کے لیے اس کا نقصان اس قدر زیادہ ہے کہ اگر بالفرض اس نظام کے تحت ضروریاتِ زندگی انصاف کے ساتھ
اول تو یہ اقتدار، اور ایسا مطلق اقتدار وہ چیز ہے جس کے نشے میں بہک کر ظالم و جابر بننے سے رک جانا انسان
یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ وسائل پیدایش سے کام لینے اور پیداوار کو تقسیم کرنے کا انتظام خواہ نظری طور پر (theoratically)
اس مسئلے کے حل کی ایک صورت اشتراکیت نے تجویز کی ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیدایش دولت کے وسائل افراد کی ملکیت سے
اس عالمگیر محاربے میں بینکروں، آڑھتیوں اور صنعت و تجارت کے رئیسوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تمام دنیا کے معاشی اسباب و وسائل پر
پھر یہ محاربہ جتنا جتنا بڑھتا جاتا ہے، مال دار طبقہ تعداد میں کم اور نادار طبقہ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس محاربے
یہ تو شیطانی رہنمائی کے ایک حصے کا نتیجہ تھا۔دوسری رہنمائی کے نتائج اس سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یہ اصول کہ اپنی اصلی ضرورت
پہلی شیطانی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت مندوں نے جماعت کے ان افراد کا حق ماننے سے انکار کر دیا جو دولت کی
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں، اور خرابی کی نوعیت کیا ہے۔نظامِ معیشت کی خرابی کا نقطۂ آغاز خود غرضی
اب اگر ہم اصطلاحی اور فنی پیچیدگیوں سے بچ کر ایک سیدھے سادھے طریقے سے دیکھیں تو انسان کا معاشی مسئلہ ہم کو یہ نظر
اصطلاحات کے چکر اور فنی پیچیدگیوں کے طلسمات نے اس مسئلے کو جس قدر الجھایا ہے اس پر مزید الجھن اس وجہ سے بھی پیدا
(یہ مقالہ 30؍اکتوبر 1941ء کو ’’انجمن اسلامی تاریخ و تمدن‘‘، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں پڑھا گیا تھا۔ (مرتب) موجودہ
حضرات! اب میں ایک مختصر تاریخی بیان کے ذریعہ سے آپ کے سامنے اس امر کی تشریح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کے لیے
ہمارے ہاں یہ سمجھا جارہا ہے کہ بس مسلمانوں کی تنظیم تمام دردوں کی دوا ہے۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ یا ’’آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام‘‘ کے
اسلامی حکومت کی اس نوعیت کو ذہن میں رکھ کر غور کیجیے کہ اس منزل تک پہنچنے کی کیا سبیل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ میں
اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پوری عمارت خدا کی حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی
اب ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ حکومت جسے ہم ’’اسلامی حکومت‘‘ کہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلی
اہل علم کے اس مجمع میں مجھے اس حقیقت کی توضیح پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خواہ کسی نوعیت
(یہ مقالہ ۱۲۔ ستمبر ۱۹۴۰ء کو انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بمقام اسٹریچی ہال پڑھا گیا) حضرات!اس
(۱) اِسلام کا اَخلاقی نظام(یہ تقریر ۶ /جنوری ۱۹۴۸ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)انسان کے اندر اَخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے
(یہ وہ تقریر ہے جو ۱۱؍نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں کی گئی تھی)حمد وثنا کے بعد!حاضرین وحضرات! میں اس
(یہ تقریر ۳۰ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جماعت اسلامی لاہور کمشنری کے اجتماع میں بمقام مراد پور متصل سیال کوٹ کی گئی)امتِ مسلمہ کا فرض اور
عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holy War) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے‘ اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ
(یہ تقریر ۱۰ /مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) کے جلسۂ عام میں کی گئی تھی۔)({ FR 6485 })حمد وثناتعریف اور شکر
(یہ تقریر۲۱؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) میں جماعتِ اِسلامی کےکل ہند اجتماع کے آخری اجلاس میں کی گئی تھی)رفقاوحاضرین! جیسا
(یہ مقالہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۴ء کو اِسلامیہ کالج پشاور میں پڑھا گیا)معمولی حالات میں، جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو‘
(یہ خطبہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ ، دہلی میں دیا گیا تھا)قرآن جس دعوے کے ساتھ نوعِ انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک
(یہ مقالہ ۲۳؍ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اِسلامیات اِسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا)انسان کو دُنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ پیش
ہستیٔ باری تعالیٰصاحبو! اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دُکان ایسی ہے جس کا کوئی دُکان دار نہیں ہے، نہ کوئی
عقل کا فیصلہبڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں
ایک عرصہ سے ایک ایسی کتاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس میں اِسلامی نظام کے جملہ پہلوئوں پر مختصر مگر جامع طور
مذکورہ بالا قواعد کو ذہنی نشین کرلینے کے بعد غور کیجئے کہ موجودہو حالات میں سود کے مسئلے میں احکامِ شریعت کے اندر کس حد
اسلامی قانون میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے
احوال اور حوادث کے جو تغیرات، احکام میں تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے مقتضی ہوں ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرزِ قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے تا کہ موقع و محل کے
مزاجِ شریعت کو سمجھنے کے بعد دوسری اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق
فروعی قوانین مدوّن کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مزاجِ شریعت کو اچھی طرح سمجھ لیا
پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیر احوال اور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اصولِ شرع کے
اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدوّن
ہمارے جدت پسند حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اگر اس کاا تباع کیا جائے اور ان کی خواہشات کے مطابق احکام کی تدوین
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور
سوال: ’’آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market) سے
سوال: ’’انشورنس کے مسئلے میں مجھے تردد لاحق ہے، اور صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آسکا کہ آیا بیمہ کرانا اسلامی نقطہ نظر سے
اس کے برعکس ہم یہ چاہتے ہیں کہ جب تک اجتماعی انصاف کا اسلامی نظام قائم نہ ہو، اس مصیبت زدہ طبقے کی تکالیف کو
لیکن جب تک نظامِ زندگی میں یہ ہمہ پہلو اور یہ بنیادی تبدیلی نہ ہو، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ جس حد تک بھی انصاف
اس وقت ہماری حقیقی ضرورت یہ ہے کہ سارا نظامِ زندگی تبدیل کیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا کوئی تکلیف، کوئی شکایت اور کوئی
اس وقت ہمارے ملک میں جو معاشی نظام رائج ہے وہ صرف انگریزی دورِ حکومت ہی کی یادگار نہیں ہے بلکہ انگریزوں سے بھی پہلے
اس وقت صنعتی مزدور (Industrial labourers) اور کاشتکار جن مشکلات میں گرفتار اور جن مسائل سے دوچار ہیں ان کی اصل وجہ معاشی نظام کی
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے میں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالتِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا
بیت المال کے بارے میں اسلام کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اللہ اور مسلمانوں کا مال ہے اور کسی شخص کو اس پر
اسلام اس امر کو حرام نہیں کرتا کہ کسی صنعت یا کسی تجارت کو حکومت اپنے انتظام میں چلائے۔ اگر کوئی صنعت یا تجارت ایسی
اس کے علاوہ اسلام اگرچہ اس کو پسند کرتا ہے کہ مالکِ زمین اور مزارع، یا کارخانہ دار اور مزدور کے درمیان خود باہمی رضا
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے ۔
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے بلکہ اس
اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معین کر دیتا ہے: وراثت، ہبہ، کسب۔ وراثت صرف وہ معتبر ہے جو
اسلام میں اللہ تعالیٰ نے خود وہ حدود قائم کر دیئے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین
اب میں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر
درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود، کسی فرعون اور کسی چنگیز خاں کے دور میں بھی نہ رہی
اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حریت فرد، فراخ
یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں، قبیلوں، قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم
یہ دونوں امور۔ یعنی دنیا میں انسانی شخصیت کا نشوونما، اور آخرت میں انسان کی جواب دہی… اسی بات کی طالب ہیں کہ دنیا میں
پھر یہ تمام افراد فرداً فرداً خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہر ایک کو اس دنیا میں ایک خاص مدت امتحان (جو ہر فرد
ہر انسانی معاشرہ ہزاروں ، لاکھوں اور کروڑوں افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس مرکب کا ہر فرد ذی روح، ذی عقل اور ذی
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ عدلِ اجتماعی درحقیقت ہے کس چیز کا نام اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے۔
دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص ’’اسلام میں عدل ہے‘‘ کہتا ہے وہ حقیقت سے
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو میں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں ہی
میں اس مختصر مقالے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عدالتِ اجتماعیہ درحقیقت نام کس چیز کا ہے اور اس کے قیام کی صحیح صورت
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں ایک دائمی و ابدی ہدایت موجود
پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہی شیطان ایک دوسرا فریب اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نام سے بنا لایا اور اب اس
انھی دھوکوں میں سے ایک بہت بڑا دھوکا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں اجتماعی عدل (social justice) کے نام سے بنی نوع انسان کو
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد
سوال: کیا اسلام میں زکوٰۃ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس عائد کرنا بھی جائز ہے؟‘‘ جواب: جی ہاں۔ اسلامی ریاست میں یہ دونوں
سوال: ’’موجودہ آزاد تمدنی دور میں بھی کیا غرباء اور مساکین کے لیے امراء اور رؤساء سے زکوۃ فنڈ جبراً وصول کیا جانا مناسب ہوگا،
سوال: ’’تمام کتبِ فقہ میں مذکور ہے کہ چاندی کا نصابِ زکوٰۃ دو سو درہم، (52½تولہ) ہے اور سونے کا 20 دینار (7½ تولہ)۔ اور
سوال: ’’دو آدمی شرکت میں کاروبار شروع کرتے ہیں۔ شریک اول سرمایہ لگاتے ہیں اور محنت بھی کرتے ہیں۔ شریک ثانی صرف محنت کے شریک
سوال: کسی مشترک کاروبار، مثلاً کسی کمپنی کے حصص کی زکوٰۃ کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ حصہ بجائے خود تو کوئی قیمتی چیز نہیں
سوال: زکوٰۃ کے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضور اکرمؐ نے
(۱) زکوٰۃ کی تعریف کیا ہے؟(۲) کن کن لوگوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں عورتوں، نابالغوں، قیدیوں، مسافروں، فاتر العقل افراد اور
قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ حق دار بیا ن کیے گئے ہیں جن کی تفصیل سورئہ توبہ آیت 60 میں اس طرح بیان کی
زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں:(۱) سورئہ بقرہ میں فرمایا:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ
قرآن مجید میں زکوٰۃ اور صدقات کے لیے جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی ’’خدا کی راہ میں
قدیم زمانے سے تمام انبیاء کی امتوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم لازمی طور پر دیا گیا ہے، اور دین اسلام کبھی کسی نبی
زکوٰۃ کے معنی ہیں پاکی اور صفائی۔ اپنے مال میں سے ایک حصہ حاجتمندوں اور مسکینوں کے لیے نکالنے کو زکوٰۃ اس لیے کہا گیا
نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلے میں نماز کے بعد روزے کا نام
سوال: کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کر کے ترقی نہیں کرسکتا، غیر ممالک سے مطلق
بینکنگ کے متعلق جو بحث ہم اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں کر چکے ہیں اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کام
مالیاتِ قرض کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیشِ نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلے
اب رہے بین الاقوامی قرضے، تو اس معاملہ میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خور دنیا میں ہم اپنی قومی ضرورت
تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو کبھی وقتی حوادث کے لیے، اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے، اور
اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں
موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور یہ وہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے، اور
پہلے قرض کے شعبے کو لیجئے، کیوں کہ لوگ سب سے بڑھ کر جس شک میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ سود کے بند
جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسداد کرنا چاہتا ہو اُسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہوگا۔ سود کی
اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں بے شمار خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے
اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کر دیا جائے جو نہ صرف اس معاملے
اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ کیا فی الواقع سود کو ساقط کر کے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جاسکتا ہے
فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ۰ۭ وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۰ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ
آیئے اب ہم ان میں سے ایک ایک ’’فائدے‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آیا فی الحقیقت وہ کوئی فائدہ اور ضرورت
اس کے بعد سود کے وکلاء یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سود ایک معاشی ضرورت ہے اور کچھ فوائد ایسے ہیں جو اس کے
مہاجنی کاروبار میں ایک مہاجن بالعموم یہ دیکھتا ہے کہ جو شخص اس سے قرض مانگنے آیا ہے وہ کس حد تک غریب ہے، کتنا
یہ ہے ان دلائل کی کل کائنات جو سود خوری کے وکیل اس کو عقل و انصاف کی رو سے ایک جائز و مناسب چیز
آخری توجیہہ میں ذرا زیادہ ذہانت صرف کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:انسان فطرۃً حاضر کے فائدے، لطف، لذت اور آسودگی کو
ایک اور گروہ کہتا ہے کہ نفع آوری سرمایہ کی ذاتی صفت ہے، لہٰذا ایک شخص کا دوسرے کے فراہم کردہ سرمایہ کو استعمال کرنا
اس تنقید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادی النظر میں سود کہ ایک معقول چیز قرار دینے کے لیے جو دلائل کافی
اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے جس دلیل سے ہم کو سابقہ پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے
اب تک ہم نے مسئلۂ زیر بحث کے بارے میں صرف قرآن و سنت کی تعلیمات پیش کی ہیں۔ اب ہم اس پر عقلی نقطۂ
قرآن میں اور بھی بہت سے گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے، اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں، لیکن اتنے سخت الفاظ کسی
یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان وجوہ کے علاوہ حرمتِ سود
اب اس امر پر غور کیجئے کہ بیع اور ربوٰا میں اصولی فرق کیا ہے، ربوٰا کی خصوصیات کیا ہیں جن کی وجہ سے اس
زمانہ جاہلیت میں ’’الرِّبٰوا‘‘ کا اطلاق جس طرزِ معاملہ پر ہوتا تھا، اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں۔قتادہؒ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰا
قرآن مجید میں سود کے لیے ’’ربوٰا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ ’ر ب و‘ ہے جس کے معنی میں زیادَت،
سب سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن اور سنت کی رُو سے ’’سود‘‘ کیا شے ہے، اس کے حدود کیا ہیں،
[اس موضوع پر مولانا مودودی صاحب نے ایک مبسوط کتاب تحریر کی ہے جس میں عقلی ، تاریخی اور شرعی نقطۂ نظر سے مسئلۂ سود
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ
– بٹائی کا یہ طریقہ اصولاً صحیح ہے کہ پیداوار جو کچھ بھی ہو اس میں سے مالک زمین اور کاشت کار متناسب طریق پر
سوال: ایک مقامی عالم نے جماعت کا منشور پڑھ کر دو سوالات کیے ہیں۔ ان کا جواب عنایت فرمایا جائے:۱۔ زرعی اصلاحات کے سلسلے میں
اب ذرا اس معاملے کو ایک دوسرے رخ سے بھی دیکھیے۔ اسلام کے احکام ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متناقض و متصادم
یہ شواہد و نظائر اس پورے دور کے عملدرآمد کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس میں قرآن کے منشا کی تفسیر خود قرآن کے لانے
موخر الذکر دونوں اصولوں کی بنیاد اس پور ے طرزِ عمل پر قائم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء نے
یہ عطائے زمین کا طریقہ محض شاہانہ بخشش و انعام کی نوعیت نہ رکھتا تھا بلکہ اس کے چند قواعد تھے جو ہم کو احادیث
پھر ’’موات‘‘ اور ’’خالصہ‘‘ دونوں طرح کی زمینوں میں سے بکثرت قطعات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی لوگوں کو عطا فرمائے، اور
’’موات‘‘ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدیم ترین اصول کی تجدید فرمائی جس سے دنیا میں ملکیت ِ زمین کا
مذکورہ بالا تین قسمیں تو ان اراضی کی تھیں جو پہلے سے مختلف قسم کے لوگوں کی ملکیت میں تھیں اور اسلامی نظام قائم ہونے
رہے وہ لوگ جو آخر وقت تک مقابلہ کریں اور بزورِ شمشیر مغلوب ہوں، تو ان کے بارے میں تین مختلف طرزِ عمل ہم کو
دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا مگر مصالحانہ طریقے سے اسلامی حکومت کے تابع بن کر رہنا قبول
پہلی قسم کی املاک کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اصول پر عمل فرمایا وہ یہ تھا:اِنَّ الْقَوْمَ اِذَا اَسْلَمُوْا اَحْرَزُوْا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں زمین کا انتظام کس طریقے پر کیا گیا تھا، اس کو سمجھنے کے لیے
سب سے پہلے میں یہ قاعدہ کلیہ آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب کسی رواجِ عام کے متعلق سکوت اختیار کیا جائے تو
[زمین کی ملکیت کا مسئلہ دورِ حاضر کے چند مہتم بالشان مسائل میں سے ایک ہے۔ اس پر اس قدر بحث و مباحثہ ہوا ہے
قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاo وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا
كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌoالانعام 142:6کھائو ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰيo طٰہٰ131:20اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۰ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الروم38:30پس (اے مومن) رشتے دار کو اس کا حق دے
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَo النحل90:16اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم
’’ہم نے اس کتاب کے مختلف ابواب میں تفہیم القرآن کے حواشی سے متعلقہ مباحث مناسب مقام پر شامل کر دیئے ہیں۔ لیکن اس کے
آخری سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی نظام کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب یہ ہے کہ بالکل
تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا ہم بلا سود معاشی نظام قائم کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً کرسکتے ہیں۔
اب دوسرا سوال لیجئے ۔ پوچھا گیا ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کو معاشی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب
اس مقام کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اسلامی فقہ میں مزارعت اور مضاربت کا جو قانون بیان کیاگیا ہے
اس کے علاوہ اسلام نے ایک قانونِ میراث بھی بنا دیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک شخص کم یا زیادہ، جو کچھ
اس رضاکارانہ انفاق کے بعد ایک چیز اور ہے جسے اسلام میں لازم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے زکوٰۃ جو جمع شدہ سرمایوں
پھر اسلام انفرادی دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی
اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی (equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (equitable) تقسیم چاہتا ہے۔ اس
اسلام چند خاص حدود کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے اور شخصی ملکیت کے معاملہ میں وہ ذرائعِ پیداوار (Means of production) اور
یہ تین چیزیں ہیں جن کو آپ نگاہ میں رکھیں تب اس معاشی نظام کے اصول اپنی صحیح روح کے ساتھ آپ کی سمجھ میں
یسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانی وحدت و اخوت کا علمبردار اور تفرقہ و تصادم کا مخالف ہے، اس لیے وہ انسانی معاشرے کو
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے
اولین چیز جو معیشت کے معاملے میں اسلام کے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف
اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا ایک معاشی نظام ہے تو اس کا مفہوم کیا ہوتا ہے۔
پہلے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ آیا اسلام نے کوئی معاشی نظام تجویزکیا ہے اور اگر کیا ہے تو اس نظام کا
حضرات، مجھے چند خاص سوالات پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے جنہیں میں سب سے پہلے آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں
ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افرادِ قوم میں گردش دینے اور مال داروں کے مال میں ناداروں کو حصہ دار بنانے کا انتظام
اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ
اپنی ضروریات پر خرچ کرنے اور راہِ خدا میں دینے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی جو دولت کسی ایک جگہ سمٹ کر رہ
جیسا کہ اوپر بیان ہوا، معاشیات میں اسلام جس مطمح نظر کو سامنے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے
جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ عیش و
دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے، کیوں کہ اس سے دولت کی
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد
اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے
ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قرآن اس اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کا بار صرف ان لوگوں پر پڑنا چاہیے جو
جو جائیدادیں اور اموال اور آمدنیاں حکومت کی ملک ہوں، ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کا صَرف محض دولت مند
جو لوگ خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنی املاک میں صحیح تصرف نہ کرسکتے ہوں اور ان کو ضائع کر رہے ہوں، یا بجا
قرآن مجید وراثت کا قانون مقرر کرنے کے ساتھ آدمی کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکے کے بارے
کسی مرد یا عورت کی وفات پر اس کے متروکہ مال کے متعلق قرآن کا قانون یہ ہے کہ یہ مال اس کے والدین، اس
ان دونوں مدات سے جو مال حاصل ہو وہ قرآن کی رو سے خزانہ عامہ (public exchequer) کا کوئی حصہ نہیں ہے جس کا مقصد
فرض زکوٰۃ عائد کرنے سے جو فنڈ فراہم ہوتا ہے اس پر قرآن نے ایک اور مد کا اضافہ بھی کیا ہے اور وہ ہے
قرآن نے اس تعلیم و ہدایت سے معاشرے کے افراد میں رضاکارانہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک عام روح پھونک دینے پر ہی اکتفا
یہ راہِ خدا کا خرچ، جسے قرآن کبھی انفاق، کبھی انفاق فی سبیل اللہ، کبھی صدقہ اور کبھی زکوٰۃ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے،
اس عام اور رضا کارانہ انفاق فی سبیل اللہ کے علاوہ قرآن مجید بعض گناہوں یا کوتاہیوں کی تلافی کے لیے مالی کفارے بھی مقرر
معقول حد کے اندر اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آدمی کے پاس اس کی حلال طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کا جو حصہ
دوسری طرف قرآن مجید اس بات کی بھی سخت مذمت کرتا ہے کہ انسان جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو ناجائز کاموں میں اڑائے،
اس کے ساتھ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ زرپرستی، دولتِ دنیا کی حرص و ہوس، اور خوشحالی پر فخر و غرور انسان کی گمراہی
دولت حاصل کرنے کے غلط طریقوں کو حرام کرنے کے ساتھ قرآن مجید جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو بھی جمع کر کے روک
باطل طریقوں کی پوری تفصیل تو احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور قانونِ اسلامی کی کتابوں میں فقہاء نے بیان کی
اس غرض کے لیے قرآن یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا
قرآن اس حقیقت کو بھی بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے کہ خدا نے دنیا میں اپنی نعمتیں اسی لیے پیدا کی ہیں
قرآن اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے ایک پہلو کی حیثیت سے پیش کرتا ہے کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح
اللہ تعالیٰ کی بالاتر ملکیت کے ماتحت اور اس کی عائد کردہ حدود کے اندر قرآن شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے:لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ
اسی بنیاد پر قرآن یہ اصول قائم کرتا ہے کہ انسان ان ذرائع کے اکتساب اور استعمال کے معاملے میں نہ تو آزاد ہونے کا
انسانی معیشت کے بارے میں اولین بنیادی حقیقت، جسے قرآن مجید بار بار زور دے کر بیان کرتا ہے ، یہ ہے کہ تمام وہ
یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے اس پر غور کیجئے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان
اسلام نے زائد از ضرورت دولت کے جمع کرنے کو معیوب قرا ر دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں کہہ چکا ہوں، اس کا مطالبہ
تاہم مجرد اخلاقی تعلیم کے ذریعے سے، اور سوسائٹی کے اخلاقی اثر اور دبائو سے غیر معمولی حرص و طمع رکھنے والے لوگوں کی کمزوریوں
خرچ کرنے کے جتنے طریقے اخلاق کو نقصان پہنچانے والے ہیں یا جن سے سوسائٹی کو نقصان پہنچتا ہے وہ سب ممنوع ہیں۔ آپ جُوئے
اب دیکھئے۔ جائز ذرائع سے جو کچھ انسان حاصل کرے اس پر اسلام اس شخص کے حقوقِ ملکیت تو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے
سب سے پہلے دولت کمانے کے سوال کو لیجئے۔ اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ خدا کی زمین میں وہ
اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار
پس درحقیقت اشتراکی نظریہ انسان کے معاشی مسئلے کا کوئی صحیح فطری حل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فطری مصنوعی حل ہے۔ اس کے مقابلے
انسانی تمدن و تہذیب کے لیے اس کا نقصان اس قدر زیادہ ہے کہ اگر بالفرض اس نظام کے تحت ضروریاتِ زندگی انصاف کے ساتھ
اول تو یہ اقتدار، اور ایسا مطلق اقتدار وہ چیز ہے جس کے نشے میں بہک کر ظالم و جابر بننے سے رک جانا انسان
یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ وسائل پیدائش سے کام لینے اور پیداوار کو تقسیم کرنے کا انتظام خواہ نظری طور پر (theoratically)
اس مسئلے کے حل کی ایک صورت اشتراکیت نے تجویز کی ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیدائش دولت کے وسائل افراد کی ملکیت سے
اس عالمگیر محاربے میں بینکروں، آڑھتیوں اور صنعت و تجارت کے رئیسوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تمام دنیا کے معاشی اسباب و وسائل پر
پھر یہ محاربہ جتنا جتنا بڑھتا جاتا ہے، مال دار طبقہ تعداد میں کم اور نادار طبقہ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس محاربے
یہ تو شیطانی رہنمائی کے ایک حصے کا نتیجہ تھا۔دوسری رہنمائی کے نتائج اس سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یہ اصول کہ اپنی اصلی ضرورت
پہلی شیطانی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت مندوں نے جماعت کے ان افراد کا حق ماننے سے انکار کر دیا جو دولت کی
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں، اور خرابی کی نوعیت کیا ہے۔نظامِ معیشت کی خرابی کا نقطۂ آغاز خود غرضی
اب اگر ہم اصطلاحی اور فنی پیچیدگیوں سے بچ کر ایک سیدھے سادھے طریقے سے دیکھیں تو انسان کا معاشی مسئلہ ہم کو یہ نظر
اصطلاحات کے چکر اور فنی پیچیدگیوں کے طلسمات نے اس مسئلے کو جس قدر الجھایا ہے اس پر مزید الجھن اس وجہ سے بھی پیدا
(یہ مقالہ 30؍اکتوبر 1941ء کو ’’انجمن اسلامی تاریخ و تمدن‘‘، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں پڑھا گیا تھا۔ (مرتب) موجودہ
(یہ مقدمہ مولانا محترم کی اس تقریر پر مشتمل ہے جو انہوں نے ریڈیو پاکستان، لاہور سے 2؍مارچ 1948ء کو ’’اسلام کے اقتصادی نظام‘‘ کے
اس وقت پوری دنیا میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔اس اضطراب کی تہ میں جو قوتیں کارفرما ہیں اور جن کی
یہ میری ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو پچھلے ۳۰۔۳۵ سال کے دوران میں مختلف مواقع پر میں نے اسلام کے معاشی اصول و احکام
موت کے بعد کوئی دُوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دُور ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے جسمانی آنکھیں بند کرکے تصوّر کی آنکھیں کھول لیجیے اور ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دُنیا کی حالت
بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام
ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے چار
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلام
حضرات! یہ ہے تفصیلی جائزہ ہماری پچھلی تاریخ کا اور ہماری موجودہ حالت کا۔ یہ جائزہ میں نے کسی کو مطعون کرنے کے لیے نہیں
ہمارے ہاں ایک دوسرے گروہ کا ردِّ عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ پہلا گروہ اگر آنے والے سیلاب میں بہہ نکلا تو یہ دوسراگروہ
ہم میں سے ایک گروہ کا ردِّعمل یہ تھا کہ یہ طاقت اور ترقی یافتہ قوم جو ہم پرحکم ران بن کر آئی ہے، اس
اس کے بعد ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا ہے کہ اس غالب تہذیب کے ہجوم کا ردِّ عمل ہمارے ہاں کس کس شکل میں ہوا
پھر انھوں نے اپنے سیاسی نظرئیے اور سیاسی ادارے بھی ہم پر مسلّط کیے جو ہمارے دین اور ہماری دنیاکے لیے کسی دوسری چیز سے
انھوں نے اپنے اخلاقی مفاسد اور معاشرتی طور طریقے ہم پر مسلط کیے اور اس طرح مسلّط کیے کہ ان کے ہاں تقرب کا مقام
انھوں نے اپنے قوانین ہم پر مسلّط کیے اور ان سے صرف عملاً ہی ہمارے نظام تمدن و معاشرت کی شکل وصورت کو تبدیل نہ
انھوں نے اپنا معاشی نظام اپنے معاشی فلسفے اورنظریات سمیت ہم پر مسلّط کیا اور اس طرح مسلّط کیا کہ رزق کے دروازے بس اسی
انھوں نے اپنی تعلیم ہم پر مسلط کی، اور اس طرح مسلط کی کہ رزق کی کنجیاں ہی لے کر اپنی تعلیم گاہوں کے دروازوں
یہ سیاست تھی، یہ اخلاقیات تھے، یہ فلسفے تھے اور مذہب کے بارے میں یہ خیالات تھے ان لوگوں کے جو ہماری تاریخ کے منحوس
یہ تھے وہ اخلاقیات جو فاتحانہ رعب داب کے ساتھ آئے اور ہم پر حکم ران ہوئے۔ اب اس سیاسی نظام کو لیجئے جو یہاں
یہ تھے وہ فلسفے اور وہ عقائد وافکار جو فاتح تہذیب کے ساتھ آئے اور ہم پر مسلط ہوئے۔ اب دیکھیے کہ اخلاق کے معاملے
اسی کا ہم جنس ایک اور فلسفہ تھا جو ڈارون ہی کے زمانے میں مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے بطن سے نکلا۔ اس کی
دوسرا فلسفہ جو انیسویں صدی میں ابھرا اور انسانی ذہنوں پر چھایا وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا پیدا کردہ تھا۔ مجھے یہاں ان کے
ان میں سے پہلا نظریہ وہ ہے جو ہیگل نے تاریخ انسانی کی تعبیر کے سلسلے میں پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے
یہ تو تھا مذہب کے بارے میں اس آنے والی فاتح تہذیب کا رویہ، اب دیکھیے کہ اس کا اپنا فلسفۂ حیات کیا تھا جسے
جن صدیوں میں ہم مسلسل انحطاط کی طرف جا رہے تھے، ٹھیک وہی صدیاں تھیں، جن میں یورپ نشاۃ جدیدہ کی ایک نئی تحریک کے
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ قوم جو مغرب سے آ کر ہم پر مسلّط ہوئی، جس کی طاقت سے ہم مغلوب ہوئے اور جس
اس کے بعد جب ذہنی حیثیت سے ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی صدیوں سے ہمارے ہاں علمی
یہ تھی ہماری مذہبی حالت جس نے انیسویں صدی میں ہم کو غلامی کی منزل تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ لیا تھا اور آج
اس کی تحقیق کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اُس وقت کی دینی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ ہمارے لیے سب سے
پچھلی صدی میں جو غلامی ہم پر مسلّط ہوئی تھی وہ درحقیقت ہمارے صدیوں کے مسلسل مذہبی، اخلاقی، ذہنی انحطاط کا نتیجہ تھی۔ مختلف حیثیتوں
اس توضیح کے بعد ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے وضاحت کے ساتھ اپنی قوم کی موجودہ خرابیوں کا جائزہ لیا ہے،
لیکن اس پروگرام کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں پیدا ہو سکتی
(یہ وہ تقریر ہے جو ۱۱؍نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں کی گئی تھی) حمد وثنا کے بعد!حاضرین وحضرات! میں
سوال: مسلمانوں میں عموماً رواج ہوگیا ہے کہ دو شخص باہم لڑکوں لڑکیوں کی شادی ادل بدل کے اُصول پر کرتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا
سوال: ترجمان القرآن ستمبر 1951ء میں آپ نے مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی کے جواب میں ایک جگہ ایسے تسامح سے کام لیا ہے جو
سوال: علمائے احناف اور علمائے اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔احناف اس کے
سوال : آ پ نے میرے مضمون’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ پر جو اظہارخیال فرمایا ہے،اُس کے لیے شکریہ۔اب اسی قسم کا ایک اور مضمون’’
سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں،جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں
سوال: مارننگ نیوز] کراچی[ کی ایک کٹنگ ارسال خدمت ہے۔اس میں انگلستان کی عدالت طلاق کے ایک سابق جج سر ہربرٹ ولنگٹن نے ایک مکمل
سوال: ترجمان القرآن مارچ1962ء میں تفہیم القرآن کے تحت آپ نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں،ان میں سے پہلے ہی مسئلے میں آپ نے یہ
سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں،وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا
سوال: میں ایک سخت کش مکش میں مبتلا ہوں اور آپ کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ میںجماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں
سوال: کیا بغیر مہر کے نکاح جائزہے؟ جواب: نکاح بلا مہر ہوسکتا ہے، لیکن اسلامی فقہ کی رو سے اس طرح کے نکاح میں مہر
سوال : یہاں لندن میں ایک مسلمان طالب علم ایک جرمن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔وہ مسلمان بننے پر آمادہ نہ ہوئی۔ لہٰذا میں
سوال: کیا عائلی قوانین کے نفاذ کے بعد کوئی شخص اگر شریعت کے مطابق کسی قسم کی طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی؟ مذکورہ
سوال: کیا حدیث یا قرآن میں کوئی اصولی ہدایت اس امر کی موجود ہے کہ ہر شخص اپنی قوم(ذات) میں ہی شادی کرے۔واضح رہے کہ
سوال: کیا اگر کسی گناہ(مثلاً زنا) کی شرعی سزا ایک شخص کو اسلامی حکومت کی جانب سے مل جائے تو وہ آخرت میں اس گناہ
سوال: دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے آج اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟برتھ کنٹرول(پیدائش روکنے ) کے لیے دوائوںکا استعمال،فیملی پلاننگ وغیرہ کو
سوال 497: آج کل ضبط ولادت کو خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان جدید کے تحت مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے حق
سوال: آپ کی تصنیف’’تفہیم القرآن‘‘ جلدا وّل، سورۃ بقرہ ،صفحہ176 میں لکھا ہوا ہے کہ ’’خلع کی صورت میں عدت صرف ایک حیض ہے۔دراصل یہ
سوال: میرے ایک غیر شادی شدہ دوست نے کسی وقتی جذبے کے تحت ایک مرتبہ یہ کہہ دیا تھا کہ ’’اگر میں کسی عورت سے
(ذیل میں جس سوال کا جواب درج کیا جارہا ہے ،اس کی بنیاد پر کئی سال سے ایک گروہ مصنف کے خلاف یہ پروپیگنڈا کررہا
سوال: میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں،وہ یہ کہ اگر اسلامی ریاست میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہو تو کیا
سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں:﴿ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ
سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے؟اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیا ہے؟ جواب: قرآن میں کنیز
سوال: اشتہار کے لیے کیلنڈر وغیرہ پر آ ج کل عورتوں کی تصاویر بنانے کا بہت رواج ہے،نیز مشہور شخصیتوں اور قومی رہبروں کی تصاویر
سوال : کیا بچوں کے کھیل کا سامان، مثلاً چینی کی گولیاں،تاش،ربڑ کی چڑیاں اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے،نیز ہندوئوں
سوال : کیا دف آلاتِ لہو میں شامل ہے؟ جواب: دف کا نام اگر آلات موسیقی میں شامل ہوبھی تو اس سے کیا ہوتا ہے۔
سوال: آلاتِ لہو کے حامیوںکا خیال ہے کہ چوں کہ آںحضور ﷺ کے زمانے میں دف ہی ایک موسیقی کا آلہ عرب میں رائج تھا
سوال : کیا ہمارے لیے ایسے نکاح میں شامل ہونے کی اجازت ہے جہاں آلاتِ موسیقی کا استعمال ہورہا ہو؟ جواب: یہ خیال رہے کہ
سوال : ایسے لوگو ں کے لیے کیا حکم ہے جو خود آلات موسیقی کا استعمال نہیں کرتے لیکن ایسے تعلق داروں کے ہاں بخوف
سوال : کیا شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا ناجائز ہیں؟نیز تفریحاًان کا استعمال کیسا ہے؟ جواب: شادی بیاہ ہو یا کچھ اور،
سوال : کیا آلاتِ موسیقی بنانا اور ان کی تجارت کرنا جائز ہے؟ جواب: حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں آلات
سوال: کیمیاوی آلات کے ذریعے سے اگر مرد کا نطفہ کسی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جائے اور اس سے اولاد پیدا ہو، تو
سوال : ہمارے علاقے میں عام طور پر نکاح کا مہر نو صد روپے معین ہوتا ہے۔اس سے تین سو روپے کی ادائگی ہوجاتی ہے
سوال: میں عرصے سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہوں اور اس سبب کی ذمہ داری میرے ’’اجتہاد‘‘ کے سر ہے۔ ہمارے اطراف میں کچھ
سوال : موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلّہ، باجا، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں، قُل وغیرہ کی جو
سوال: عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو، چنانچہ
سوال: ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثہ بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شاد ی کرنا چاہے تو
سوال: ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہش مند ہے،یعنی
سوال: کیا عورتیں چہر ہ کھول کر یا نقاب کے ساتھ جہاد میں شرکت کرسکتی ہیں؟ جواب: جنگ کے موقع پر تیما رداری،مرہم پٹی، مجاہدوں
سوال: کیا عورتیں لیڈی ڈاکٹر یا نرس یا معلمہ بن سکتی ہیں؟جیسا کہ ہماری قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے قوم کو اپیل کرتے ہوئے
سوال: کیا عورتوں کو مردوں اور عورتوں کے مشترکہ جلسوں میں نقاب اوڑھ کر تقریر کرنی جائز ہے؟حدیث کی رُو سے تو عورتوں کی آواز
سوال: اگر خدا ورسولﷺ کے احکام کے تحت پردہ اختیار کرنے میں کسی کی والدہ حائل ہو تو اس کے حکم کو ردّ کیا جاسکتا
سوال : کیا غیر محرم اعزہ(مثلاً چچا زاد بھائی یا خالو جب خالہ زندہ ہوں) کے سامنے ہونا جائز ہے؟ اگر جائزہے تو کن مواقع
سوال: آپ کی کتاب’’پردہ‘‘ کے مطالعے کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے چند ہفتوں سے عائلی زندگی کو قوانین الٰہیہ کے مطابق بنانے
سوال: کیا شوہر بیوی کو کسی ایسے رشتہ دار یا عزیز کے سامنے بے پردہ آنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے جو شرعاًبیو ی کے
سوال: اگر بوقت نکاح زرِمہر کی صرف تعداد مقرر کردی گئی ہو اور اس امر کی تصریح نہ کی گئی ہو کہ یہ مہر معجل
سوال: موزوں اور جرابوں پر مسح کے بار ے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں سکاٹ لینڈ کے
سوال: یہاں مغربی معاشرے میں لوگ عام طور پر کُتّے پالتے ہیں۔ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے
سوال: یہاں کیمبل پور (موجودہ ضلع اٹک) میں ایک صاحب علم نے پچھلے ماہ رمضان میں ایک فتنہ کھڑا کیا تھا کہ رمضان کے بارے
سوال: یہاں نائیجیریا میں اگر کچھ لوگوں کو دعوت دی جائے تو اس میں شراب دی جاسکتی ہے یا نہیں،کیونکہ یہاں کے لوگ بغیر شراب
سوال: غیر مسلموں کے برتنوں میں کھانا اور پینا درست ہے یا نہیں؟ جواب: ان کے صاف دھلے ہوئے برتنوںمیں آپ کھانا کھا سکتے ہیں
سوال : میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجیریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں۔ جب میں
سوال : کیا حضور ﷺ بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے ؟اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں؟ جواب: اس سوال
سوال: نماز کے آخر میں جو سلام ہم پھیرتے ہیں،اس کامقصد اور مخاطب کون ہے؟ جواب: کسی عمل کو ختم کرنے کے لیے آخر اس
سوال: اﷲ کی جو عبادت ہم بجا لاتے ہیں،اس کا نام الصلاۃ یعنی نماز ہے۔پھر یہ فرض ،سنت، وتر،نفل کیا چیز ہیں اور یہ پڑھ
سوال: دونوں درود شریف جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں،ظاہر ہے کہ حضور ﷺ اس طرح نہیں پڑھتے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم توپڑھتے ہیں:
سوال: نماز میں سورۃ الفاتحہ، الاخلا ص یا کوئی اور سورت جو ہم پڑھتے ہیں،ان میں صرف اﷲ ہی کی حمدو ثنااور عظمت وبزرگی کا
سوال: ایک دن میں صبح کی اذان سن رہا تھا کہ ذہن میں عجیب وغریب سوالات اُبھرنے لگے اور شکوک وشبہات کا ایک طوفان دل
سوال: براہِ کرم آپ بیان فرمائیں کہ اہل سنت کا عقیدہ شفاعت کے بارے میں کیا ہے؟ نبیﷺ اپنی اُمت کی شفاعت کس حیثیت سے
سوال : کسی مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں آپ پر معتزلی اور خارجی ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔بِنائے فتویٰ یہ
سوال : میں رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ایک ایسا مکان فروخت ہورہاہے جس کا مالک بالکل لاوارث فوت ہوا ہے اور دُور
سوال : معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور ؈ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے
سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریرفرما کر تشفی فرمائیں۔حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں
سوال: حاضر وناظر کی صفت بھی خدا وند تعالیٰ سے مختص قرار دی جاتی ہے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے ملک الموت کو یہ طاقت بخشی ہے
سوال : علم غیب اگر خداوند تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے تو یہ کسی بھی مخلوق میں نہ ہونی چاہیے۔لیکن قرآن وحدیث اس امر پر
سوال : تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔شرک کے مسئلے پر ذہن اُلجھ گیا ہے۔ براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے
سوال : آج کل دینی حلقوں کی فضا میں حیات النبی کا مسئلہ ہر وقت گونجتا رہتا ہے اور علماے کرام کے نزدیک موضوع سخن
سوال: یہ جو دُعائوں میں’’بجاہ فلاں ‘‘اور ’’بحرمت فلاں‘‘ کا اضافہ ملتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ سنت رسولؐ کیا بتاتی ہے؟ صحابہؓ
سوال : کسی بزرگ کی قبر پر جاکر اس طرح کہنا کہ’’اے ولی اﷲ!آپ ہمارے لیے اﷲ سے دعا کریں‘‘کیا درست ہے؟ جواب: کسی بزرگ
سوال: کیا ہر شخص ہر دوسرے متوفی شخص کوخواہ متوفی اس کا عزیز ہو یا نہ ہو،یا متوفی نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی تربیت
سوال: آپ خودایصال ثواب کرنے والے کے لیے تو انفاق کوبہرحال نافع قرار دے رہے ہیں مگر متوفیٰ عزیز کے لیے نافع ہونے کو اﷲ
سوال: رسائل ومسائل] سوال نمبر802 [ میں’’نذر ونیاز اور فاتحہ شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان کے تحت جو جواب آپ نے رقم فرمایا ہے، اس سے
سوال: حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد1، صفحہ319 میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم ؈ کی پسلی سے نہیں ہوئی۔
سوال: کیا کسی حدیث میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نجد سے ایک فتنہ اُٹھے گا ؟کیا یہ حدیث مذکورہ بالا فرقے پر منطبق
سوال: فرقہ ٔوہابیہ کا بانی کون تھا؟اس کے مخصوص عقائد کیا تھے؟ہندستان میں اس کی تعلیمات کس طرح شائع ہوئیں؟کیا علماے اسلام نے اس کی
یہاں پہنچ کر مجھے پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں ’’جہاد‘‘ صرف وہی ہے جو محض فی سبیل اللہ
یہیں سے یہ سوال بھی حل ہوجاتا ہے کہ کسی ملک پر اسلامی نظام کی حکومت قائم ہوجانے کی صورت میں ان لوگوں کی کیا
یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ اس پر جب آپ غور کریں گے تو یہ بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ
اس بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اسلامی جہاد کا مقصود (Objective) غیراسلامی نظام کی حکومت کو مٹا کر اسلامی حکومت
اس مختصر مقالہ میں میرے لیے اس اجتماعی نظام (Social Order) کی تفصیلات پیش کرنا مشکل ہے‘ جو اسلام نے تجویز کیا ہے۔ تفصیل کا
اس میں شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام سب کے سب انقلابی لیڈر تھے۔۔۔ اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑے
اسلام کی دعوتِ انقلاب کا خلاصہ یہ ہے: یَاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔۔۔ (البقرہ:۲۱) ’’لوگو! صرف اپنے اُس رب کی بندگی کرو‘ جس نے تمہیں
لیکن اسلام کا جہاد نِرا ’’جہاد‘‘ نہیں ہے۔۔۔ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔
پس اگر اسلام ایک ’’مذہب‘‘ اور مسلمان ایک ’’قوم‘‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا
خیر‘ یہ تو سیاسی چالوں کی بات ہے۔ مگر خالص علمی حیثیت سے جب ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں‘ جن کی وجہ سے
عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (Holy War) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے‘ اور اس کی تشریح و تفسیر مدتہائے دراز سے کچھ
اِسلام کا رُوحانی نظام کیا ہے،اورزندگی کے پُورے نظام سے اس کا کیا تعلق ہے؟اس سوال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم
انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اِسلام نے چند اُصول اور چند حدود مقرر کر دیے ہیں تا
اِسلام کے مُعاشرتی نظام کا سنگِ بنیاد یہ نظریہ ہے کہ دُنیا کے سب انسان ایک نسل سے ہیں۔ خدا نے سب سے پہلے ایک
اِسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اُصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ اِن اُصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست
پھر اِسلام کے اسی تصوّرِ کائنات و انسان میں وہ قوتِ نافذہ بھی موجود ہے جس کا قانون اخلاق کی پُشت پر ہونا ضروری ہے
یہ ہے وہ جواب جو اِسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔ یہ تصوّرِ کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو
اِسلام کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا خدا ہے اور وہ ایک ہی خدا ہے۔ اُسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اس
اب سوال یہ ہے کہ اگر اخلاق کی بُرائی اور بھلائی جانی اور پہچانی چیزیں ہیں اور دُنیا ہمیشہ سے بعض صفات کے نیک اور
انسان کے اندر اخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دُوسری صفات کو نا پسند کرتی ہے۔ یہ حس
اب مجھے اس قرار داد کے صرف آخری دو نکات پر بحث کرنی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ہم انتخابات سے بے تعلق
اس بحث کے بعد قرار داد کے آٹھویں نکتے پر کچھ زیادہ گفتگو کرنے کی حاجت نہیں رہتی جس میں دو باتوں پر یکساں زور
اس کے بعد مجھے قرارداد کے ساتویں نکتے پر بحث کرنی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ اس دس سال کی جدوجہد سے جو
اب مجھے قرارداد کے چھٹے نکتے کی تشریح کرتے ہوئے آپ کو یہ بتانا ہے کہ تقسیم کے موقع پر اور اس کے فورًا بعد
اب قرارداد کے اس حصے کی طرف آئیے جس میں کہا گیا ہے کہ اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز (نظامِ حکومت کی اصلاح) بھی
قرارداد کے چوتھے حصے میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ لائحۂ عمل کے پہلے تین اجزاء کے لیے فی الحال وہ پروگرام کافی ہے
قرارداد کا تیسرا حصہ اس غلط فہمی کو رفع کرتا -ہے کہ جماعت کا لائحہ عمل پہلے شاید کچھ اور رہا ہو اور یہ چار
اب ہمیں قرارداد کے دوسرے نکتے پر غور کرنا ہے جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جماعت کا آیندہ لائحہ عمل وہی رہنا
یہ قرارداد سب سے پہلے جماعت کے گزشتہ پندرہ سال کے کام کے متعلق اس اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ وہ ان تمام امکانی
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒحمد وثنا کے بعدمحترم رفقا…!جماعتِ اِسلامی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم ایک قرار داد کی صورت میں ان
وہ پروگرام جس کا ذکر اس قرار داد کے پیرا گراف نمبر ۳ میں کیا گیا ہے حسب ذیل ہے:۱۔ جماعت کی اندرونی اصلاح کا
جماعتِ اسلامی پاکستان اس امر پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اب سے پندرہ سال قبل جس نصب العین کو سامنے رکھ
فروری ۱۹۵۷ء کے تیسرے ہفتہ میں جماعت اسلامی پاکستان کے ارکان کا ایک اجتماع عام بہاول پور ڈویژن کے ایک غیرمعروف قریے ماچھی گوٹھ نامی
معمولی حالات میں، جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو‘ انسان ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ اوپر کی
اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں سے آخری سوال پر کچھ گفتگو کرنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کے
اب آگے بڑھنے سے پہلے مَیں ایک سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو لازماً اس مرحلے پر پہنچ کر ہر شخص کے دل
یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے وہ تو ہمیں محض اس حد تک پہنچاتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس
اس تصویر کے بالکل برعکس قرآن ہمارے سامنے صورتِ حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا ہی
یہ مختصر اشارات جو میں نے کیے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی یا استدلالی غلطی نہیں کی ہے۔ اور
آخر میں اُس ذریعۂ علم کو لیجیے جسے ہم پچھلے انسانی تجربات کا تاریخی ریکارڈ یا انسانیت کا نامۂ اعمال کہتے ہیں۔ اس کی اہمیت
اب تیسرے ذریعے کو لیجیے، یعنی وہ علم جو مشاہدات وتجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ میں اس علم کی قدر وقیمت کا اعتراف کرنے میں
پھر عقل کو لیجیے، اس کی تمام بہترین صلاحیتیں مسلّم، انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار اور یہ بھی تسلیم کہ انسان
پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی راہ نما بن سکتی ہے؟ اگرچہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی
انسان کے پاس اپنا ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی اخذ کرنے کے ذرائع چار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلا ذریعہ خواہش ہے دوسرا ذریعہ عقل ہے،
انسان کے لیے جس ’’الدین‘‘ کی ضرورت میں نے ابھی ثابت کی ہے اس سے مراد کوئی ایسا تفصیلی ضابطہ نہیں ہے جس میں ہر
یہ ہے اس ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی یا نظامِ زندگی کی نوعیت جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگرانسان خدا
اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفس ِ انسانیت کو اور اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں
ان مہملات اور جدید زمانے کے عالمانہ مہملات میں سے ایک اور بات، جو حقیقت کے اعتبار سے مہمل ترین ہے مگر حیرت ہے کہ
پھر جس طرح یہ بات مہمل ہے کہ انسانی زندگی کو جدا گانہ شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی
زندگی کے یہ مختلف پہلو جن میں کوئی ایک طریق اختیار کرنا انسان کے لیے ناگزیر ہے، بجائے خود مستقل شعبے اور ایک دوسرے سے
یہ ظاہر ہے کہ دُنیا میں انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے بہرحال ایک طریقِ زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے۔ انسان دریانہیں
اس تشریح کے بعد قرآن کا دعوٰی بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور وہ یہ ہے:’’نوعِ انسان کے لیے
اب لفظ ’’اِسلام‘‘ کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپر ڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کر لینا، اپنے آپ کو سپرد
عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی غلبہ اور استیلا کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت اور غلامی کے۔
(یہ خطبہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۴۳ء کو جامعہ ملّیّہ ، دہلی میں دیا گیا تھا)قرآن جس دعوے کے ساتھ نوعِ انسانی کو اپنے پیش کردہ مسلک
اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے:۱۔ خدا
انسانی زندگی میں بگاڑ، جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے، اُنھیں ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں:۱۔ خدا سے بے
اِصلاح کے لیے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بنائو اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود
اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمی کی وجہ یہی ہے کہ
اس تاریکی میں، ہمارے لیے امید کی ایک ہی شعاع ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے،
اس مرحلے پر آپ کے دل میں، یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے
مَیں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ مَیں نہ
حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق، اس ملک کی قسمت کا نظام انتظام درپیش ہے،
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط
اخلاقی تنزل کی یہ وبا، جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو، اپنی لپیٹ میں لے چکی، تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے
اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندستان کے لوگ: ہندو، مسلمان، سکھ____اس امتحان کے موقع پر، اپنے خدا کے سامنے، اپنی کیا صلاحیتیں
یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں، تاریخ کے اُن اہم مواقع میں سے ہے جب زمین کا اصلی مالک، کسی
اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بنا سکتے تھے، وہ بنا چکے ہیں۔ اُن کے بنائو کے حساب میں، اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہو
جب اُن کی حالت یہ ہو گئی تو خدا نے اُن کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا اور ہندستان کے انتظام کا منصب، پھر
یہ لوگ سیکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ، اسلام قبول
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دُو رکیوں
یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق، دُنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی
اس معاملے میں خدا کا نقطۂ نظر، انسانوں کے نقطۂ نظر سے، اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں، ایک باغ کے مالک
یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی کہ اِسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ میں سے کسی
پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک اُن کا بنائو، ان کے بگاڑ سے زیادہ
مالک ہونے کی حیثیت سے، اس کی خواہش یہ ہے کہ اُس کی دُنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے، اُسے زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے،
حاضرین و حاضرات! یہ دُنیا جس خدا نے بنائی اور جس نے اِس زمین کا فرش بچھا کر اِس پر انسانوں کو بسایا ہے، وہ
تعریف اور شکر اس خدا کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، بُرے اور بھلے کی تمیز بخشی،
زیرِ نظر کتابچے میں چند تراکیب اور کچھ مشکل الفاظ کی تفہیم کے لیے حاشیے میں، ان پر نوٹ لکھا گیا ہے۔ یا کھڑے بریکٹ
مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ ۲۱ ویں صدی میں متکلمِ اسلام کے طور پر نمودار ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اسلام کی حقانیت
آج مشرقی ممالک میں اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں ضبط ِولادت کی تحریک کو بڑی تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کی جا
اس مقالے کے لیے جوموضوع تجویز کیا گیا ہے وہ ہے ’’اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی۔‘‘ بظاہر اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے یہ
مسلمانوں میں جو حضرات ضبط ِولادت کے مؤیّد ہیں ان کو اپنی تائید میں قرآن مجید سے ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا،{ FR 7265
حامیانِ ضبط ولادت کے مذکورہ بالا دلائل پرنظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک دراصل دہریت والحاد کے شجر خبیث کی
یہ تین بڑی دلیلیں تھیں۔ ان کے بعد تین چھوٹی دلیلیں اور بھی ہیں جن کو ہم اختصارکے ساتھ بیان کرکے اختصار ہی کے ساتھ
کہا جاتا ہے کہ محدود آمدنی رکھنے والے ماں باپ بچوں کو زیادہ تعداد کے لیے اچھی تعلیم وتربیت، عمدہ معاشرت، اور ایک بہتر آغازِ
حامیانِ ضبط ِ ولادت تسلیم کرتے ہیں کہ انواع کی تعداد کوایک حد ِمناست کے اندر محدود رکھنے کا انتظام خود فطرت نے کیا ہے
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کا معاشی مسئلہ ہماری اپنی غلط کاریوں اور
1898ء میں برٹش ایسوسی ایشن کے صدر سرولیم کروکس (Sir William Crookes) نے خطرے کا الارم بجایا تھا اور تحدی کے ساتھ کہا تھا کہ
سب سے بڑی دلیل جس نے لوگوں کو زیادہ دھوکے میں ڈالا ہے یہ ہے کہ’’زمین میں قابل ِ سکونت جگہ محدود ہے، انسان کے
تجربے اور تحقیق سے یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے کہ ضبط ِولادت معاشی حیثیت سے مفید ہے۔ اب معاشیات کے ماہرین میں یہ
یہ تو وہ نقصانات تھے جو محض افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ اس تحریک کے رواجِ عام
اخلاق پر ضبط ِولادت کے مضر اثرات متعدد وجوہ سے مترتب ہوتے ہیں:(ا) عورت اور مرد کو زنا کا لائسنس مل جاتا ہے۔ حرامی اولاد
عائلی زندگی میں ضبط ِ ولادت کے جو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی طرف اوپر ضمناً اشارہ کیا جا چکا ہے۔ شوہر اور
توالد وتناسل کا معاملہ چونکہ براہِ راست انسان کے جسم اور نفس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ہم کو سب سے پہلے ضبط ِ
آئیے اب ہم دیکھیں کہ جو لوگ فطرت کے ساتھ یہ دغا بازی کرتے ہیں، کیا فطرت ان کو سزا دیے بغیر چھوڑ دیتی ہے
صفحات گزشتہ میں تحریکِ ضبط ولادت کی ترقی کے اسباب اور اس کے نتائج کا جو تفصیلی بیان پیش کیا گیا ہے اس کو بنظرِ
ان حالات نے تمام مغربی قوموں کے دور اندیش لوگوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ مفکرین ان پر بے چینی اور بے اطمینانی کا
سب سے زیادہ اہم نتیجہ یہ ہے کہ جتنی قومیں اس وقت ضبط ولادت پر عمل کر رہی ہیں ان سب کی شرح پیدائش خوفناک
ضبط ِ ولادت بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جنھوں نے مغربی ممالک میں ازدواجی تعلقات کی بندشوں کو کمزور کر دیا ہے۔ عورت
ضبطِ ولادت سے زنا اور امراض خبیثہ کو بڑا فروغ نصیب ہوا ہے۔ عورتوں کو خدا کے خوف کے علاوہ دو چیزیں اخلاق کے بلند
انگلستان کے رجسٹرار جنرل کی رپورٹوں اور نیشنل برتھ ریٹ کمیشن کی تحقیقات اور آبادی کے رائل کمیشن کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ
اب ایک نظر اس تحریک کے ان نتائج پر بھی ڈال لیجیے جو گزشتہ سو (100) سال میں عملی تجربہ سے ظاہر ہوئے ہیں۔ ایک
جدید تہذیب وتمدن نے بھی ایسے اسباب فراہم کر دیے ہیں جو افزائش نسل سے عام نفرت پیدا کرنے والے ہیں۔مادہ پرستی نے لوگوں میں
ان حالات میں عورتوں کو مجوراً اپنی کفالت آپ کرنا اور خاندان کے کمانے والے افراد میں شامل ہونا پڑا۔ معاشرت کی قدیم اور فطری
یورپ میں جب مشین ایجاد ہوئی اور مشترک سرمائے سے بڑے بڑے کارخانے قائم کرکے کثیر پیداواری (Mass Production) کا سلسلہ شروع ہوا تو دیہات
دورِ جدید میں اس تحریک کے پھیلنے کی اصل وجہ وہ نہیں ہے جس کی بناء پر ابتداء میں مالتھوس نے افزائش نسل کو روکنے
اُنیسویں صدی کے ربع آخرمیں ایک نئی تحریک اٹھی جو نومالتھوسی تحریک (Neo-Malthusian Movement) کہلاتی ہے۔ 1872ء مسز اینی بیسنٹ اور چارلیس بریڈ لانے ڈاکٹر
ابتداء میں اہل مغرب نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی، اس لیے کہ نظریہ اصلاً غلط تھا۔ مالتھوس حساب لگا کر یہ تو
یورپ میں اس تحریک کی ابتدا اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں ہوئی۔ اس کا پہلا محرک غالباً انگلستان کا مشہور ماہر معاشیات مالتھوس (Malthus)
ضبط ولادت کا اصل مقصد نسل کی افزائش کو روکنا ہے۔ قدیم زمانے میں اس کے لیے عزل، اِسقاطِ حمل، قتل اولاد اور برہم چرج
برعظیم ہندو پاکستان میں گزشتہ ربع صدی سے ضبط ولادت (birth control) کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔{ FR 7085 } اس کی تائید میں
یہ مضمون 1354ھ (1935ء) میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کبھی اس پر نظر ثانی کرنے کا موقع نہ ملا۔ اگرچہ بعد میں
یہ کتاب ابتداء ً اب سےچھبیس سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد میں اس فرصت کی تلاش ہی میں رہا کہ اس کے
اِمام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایسی نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جنھوں نے ایک طرف اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے علمی وعملی
الحمد للہ! امام سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بے مثال تصنیف ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ کا جدید تحقیق شدہ اڈیشن شائع ہوگیا ہے
موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے
(یہ ایک مباحثہ ہے جو مئی ۱۹۴۸ئ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوا تھا۔ اس مباحثہ میں سائل کی حیثیت سے جناب وجیہ الدین
آج سے چار ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ
تہوار اور انسان کی سماجی زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب سے آدمی نے اس زمین پر سماجی زندگی بسر کرنی شروع کی
روزے کے بے شمار اَخلاقی و رُوحانی فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انسان میں ضبطِ نفس کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اس
شب برأت کو عموماً مسلمانوں کا ایک تہوار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کچھ مراسم بھی مقرر کر لیے گئے ہیں جن کی شدت سے
معراج، پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے اُن واقعات میں سے ہے جنھیں دنیا میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔ عام روایت کے مطابق
اسلامی تاریخ میں دو راتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ رات جس میں نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن
عام روایت کے مطابق آج کی رات معراج کی رات ہے۔ یہ معراج کا واقعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سب
دنیا جانتی ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو قدیم ترین زمانہ سے نوعِ
آج اُس عظیم الشان انسان کا یوم پیدائش ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ
ہم مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سرورِ عالمؐ‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھی سادی زبان میں اس کا مطلب ہے ’’دنیا کا سردار۔‘‘ ہندی
اسلام کی ابتداء اسی وقت سے ہے جب سے انسان کی ابتداء ہوئی ہے۔ اسلام کے معنی ہیں ’’خدا کی تابعداری‘‘ اور یہ انسان کا
ہم اس سے پہلے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودُودی صاحب کی نشری تقریروں کا ایک مجموعہ ’’اسلام کا نظام حیات‘‘ کے نام سے شائع کرچکے ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ زمین کا موجودہ بندوبست نہایت ناقص اور غیرمنصفانہ ہے۔ بلاشبہ زمین داری اور جاگیرداری اس قدر خرابیوں سے لبریز ہوچکی ہے
اب ہمیں اُن احادیث کی تحقیق کرنی چاہیے جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شریعت زمین کی شخصی ملکیت کو صرف خود کاشتی کی
نبی اکرمa اور خلفائے راشدینؓ کے عہد میں زمین کا انتظام کس طریقے پر کیا گیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین
آپ تسلیم کرتے ہیں کہ مصنف نے جس آیت سے ملکیت ِ زمین کا عدم جواز ثابت کرنا چاہا ہے، وہ کوئی قانون بنانے والی
اس میں تو شک نہیں کہ صاحب ِ تعلیمات نے جس آیت سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے وہ اساسی قانون کی بظاہر حامل نظر
آپ نے اس مسئلہ میں خلطِ مبحث کر دیا اور میرے اعتراض کا کوئی جواب نہ دیا۔ آپ نے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ سے یہ مسئلہ
قرآن سے زمین پر شخصی ملکیت کا حق ثابت نہیں۔ اس پر آپ کو اعتراض ہے تو کوئی آیت ثبوت میں نقل کرتے۔ کسی عہد
مؤلّف نے سورئہ رحمٰن کی آیت: وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ سے یہ حکم نکالا ہے کہ زمین کی شخصیت ملکیت یعنی زمین داری ناجائز ہے۔ چنانچہ
جیساکہ دیباچہ میں بتایا جاچکا ہے یہ ایک مباحثہ ہے جس کا آغاز ایک کتاب پر تنقید سے شروع ہوا تھا۔ اس مباحثے میں حسب
اب سے پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مشہور مصنّف کے قلم سے قرآنِ مجید کی تعلیمات پر ایک کتاب شائع ہوئی
[ایک تقریر جو 23 اکتوبر 1942ء کو نشر گاہِ لاہور سے نشر کی گئی](باجازت آل انڈیا ریڈیو) کیا ہماری تقدیر پہلے سے مقرر ہے؟ کیا
یہیں سے یہ نکتہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ حقیقی عدل کرنے والا بجز خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ
قرآن اس مسئلے کو اور زیادہ کھول کر بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے انسان کی فطرت میں بھلے اور برے دونوں
قرآن ہمیں خبر دیتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے دنیا میں مخلوقات کی جتنی انواع موجود تھیں وہ سب اپنی فطرت کے لحاظ
پچھلی بحث سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ قرآنِ مجید میں مسئلہ جبر و قدر کے متعلق جو اشارات مختلف مواقع پر کیے
یہ مقدمہ ذہن نشین کر لینے کے بعد اب اس سوال کی طرف آیئے کہ قرآنِ مجید خاص تقدیر کے مسئلے پر بحث کیے بغیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی زندگی کے تمام معاملات میں یہی روح پھونکنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے کیونکہ اس سے اخلاق
اس سے یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ قضا و قدر کے مسئلے پر جو اشارات کلام اللہ میں آئے ہیں ان کا اصل
اس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآنِ کریم میں نہ صرف مسئلہ جبر و قدر، بلکہ
پچھلے صفحات میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اب تک انسان نے اس
متکلمین اسلام کے ان دونوں گروہوں کی تقریریں دیکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مسئلہ ’’جبروقدر‘‘ کو حل کرنے میں دونوں کو ناکامی
لطف یہ ہے کہ جبریہ بھی اپنے مذہب کے حق میں قرآنِ مجید ہی سے ثبوت پیش کرتے ہیں اور ایک دو نہیں سینکڑوں آیتیں
دوسری طرف جبریہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی چیز اللہ کے ارادے کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ عام اس سے کہ وہ اشیا
اس مذہب کی تائید میں معتزلہ نے قرآنِ مجید کی بہت سی آیات سے استدلال کیا ہے، مثلاً:۱) وہ آیات جن میں بندوں کے افعال
معتزلہ اور بعض دوسرے فرقوں کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا، اس کو افعال پر قدرت بخشی اور نیکی و
متکلمین اسلام کے اس بارے میں دو مشہور مذہب ہیں جو قدریہ اور جبریہ کہلاتے ہیں۔ یہاں اُن کی تمام بحثوں کو نقل کرنا بہت
جن مسائل کا تعلق امور ماورائے طبیعت سے ہے ان کے بارے میں اسلام کی صحیح تعلیم یہ ہے کہ جس چیز کا جاننا اور
اب اس مسئلہ کا آخری پہلو باقی رہ گیا ہے اور وہ دینیاتی پہلو ہے۔ دینیات میں یہ مسئلہ قریب قریب اسی حیثیت سے آتا
اس تمام بحث کا ماحصل یہ ہے کہ علم الاخلاق جبریت و قدریت کے درمیان فیصلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خالص اخلاقی دلائل و
خالص اخلاقیات کے دائرے میں انسان کے مجبور یا مختار ہونے کا سوال اس حیثیت سے نہیں آتا کہ ظاہری حالات کی تہ میں باطنی
اس مختصر بیان سے واضح ہو گیا کہ وہی سائنس جس پر انسان نے اپنے تفوق اور اپنے افتخار کی بنیاد رکھی ہے، کس طرح
طبیعیات میں یہ مسئلہ اس پہلو سے آتا ہے کہ تمام کائنات کی طرح انسان کے افعال بھی سلسلۂ اسباب سے وابستہ ہیں اور اس
لیکن اس بحث میں قدریت کی بہ نسبت جبریت کا پلڑا جھک جانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فلسفے نے اس گتھی کو سلجھا
مابعد الطبیعات (Metaphysics) میں جبر و قدر کا مسئلہ دو پہلوئوں سے آتا ہے:اوّل: قدرت سے مراد ہم یہ لیتے ہیں کہ فاعل ایک ایسی
لیکن جب انسان غور و فکر کر کے ظواہر اشیا کی تہ میں پوشیدہ حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر
ہر شخص بلا کسی غور و فکر کے محض وجدانی طور پر یہ تصور رکھنا ہے کہ انسان اپنی ارادی حرکات و سکنات میں آزاد
جہاں تک پیش کردہ سوال کا تعلق ہے اس کے جواب میں تو صرف اسی قدر کافی ہو سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی آیات
اس مختصر رسالے کی تقریب یہ ہے کہ ۱۳۵۲ھ (۱۹۳۳ء) میںجب میں نے ترجمانُ القرآن نیا نیا جاری کیا تھا، ایک صاحب نے مجھے ایک
مسئلہ جبر و قدر کا فلاسفہ ، ہمیشہ سے محبوب و معرکہ آرا موضوع رہا ہےاور زمانۂ قدیم سے آج تک اس موضوع پر جتنی
(یہ تقریر ۱۶ ذی الحج ۱۳۸۲ھ کو مکہ معظمہ کی مسجد ِدہلوی میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے عربی زبان میں کی تھی‘ اس جلسے
(یہ مقالہ دراصل ایک اداریہ ہے جو ستمبر ۱۹۳۹ئ کو ترجمان القرآن میں اشاعت کے لیے مصنف نے لکھا تھا۔ اس وقت جنگ عظیم ثانی
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسین ؑ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں
ریاست کا خواہ کوئی نظریہ بھی زیر بحث ہو، اس میں اوّلین سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ حاکمیت کس کے لیے ثابت کرتا
(یہ تقریر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے روٹری کلب لاہور میں کی تھی جس کو جناب خلیل حامدی صاحب نے قلم بند کیا …
ہمارے ملک سے جو لوگ تعلیم یا تجارت یا دوسری اغراض کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں ان کو بالعموم اس مسئلے سے سابقہ
(ذیل میں وہ سوال نامہ مع جواب نقل کیا جا رہا ہے جو حکومت کے مقرر کردہ کمیشن برائے قوانین عائلہ کی طرف سے ۱۹۵۵ئ
(’’اسلام میں یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘ ایک عرصے سے اخبارات میں موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ منکرین حدیث کے لیے چونکہ اس مسئلے
(یہ مقالہ ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۲ء) میں حج کے موقع پر موتمر عالم اسلامی کے اجتماع منعقدہ مکہ معظمہ میں پڑھا گیا تھا)باطل حق کے بھیس
۱- خلافت کے لیے قرشیت کی شرط۲- حکمت ِ عملی اور اختیار اَہْوَنُ الْبَلِیَّتین کی تشریححکمت ِ عملی کے موضوع پر مصنف نے کلام کرتے
اسی مسئلے سے متعلق ایک اور صاحب نے لکھا۔’’آپ نے ماہ جون ۱۹۵۹ئکے ترجمان میں غیبت کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے خطیب بغدادی کی
غیبت کے بارے میں میرے گزشتہ مضمون کی اشاعت کے بعد ایک صاحب نے پھر لکھا کہ:’’آپ نے جون ۱۹۵۹ئکے ترجمان میں غیبت اور اس
(میرے پاس چند طویل سوالنامے آئے ہوئے ہیں جن میں بعض اصحاب کے اعتراضات کا ذکر کرکے ان کا جواب مانگا گیا ہے میرے لیے
یہ بحث دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مصنف اور بعض معترضین کے درمیان چلتی رہی ہے۔ چنانچہ ایک صاحب مصنف کو ایک
حکمت ِ عملی کے باب میں مصنف پر چند الزاماتمصنف کے ایک سابقہ مضمون جماعت کا موقف اور طریق کار کی اشاعت کے بعد ایک
(ذیل میں جسٹس ایس اے رحمان صاحب کے ایک خط پر مصنف کا تبصرہ درج کیا جا رہا ہے۔ وہ خط دراصل اس مراسلت کا
قارئین تفہیم القرآن میں سے ایک صاحب نے آیت زیر بحث کے متعلق اپنی ایک الجھن کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:قرآن مجید میں ارشاد
پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے مطالبے سے اسلامی قانون سازی کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں
ایک اور صاحب اسی سلسلے میں لکھتے ہیں۔’’کیا ’اجتہاد‘ جو کیا جائے گا وہ قرآن و حدیث اور سابقہ اجتہادی احکام و قوانین جو خلفائے
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں ملک میں جو بحثیں چل رہی ہیں اسی سلسلے میں ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔’’کیا ’اجتہاد‘ کے اس دروازے کو
(جنوری ۱۹۵۸ئ کو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس لاہور میں دنیا کے مختلف حصّوں کے اہلِ علم حضرات شریک ہوئے تھے۔ ان میں مسلم
(مندرجہ بالا مقالے پر بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس میں ایک منکر حدیث نے اٹھ کر چند اعتراضات پیش کیے تھے جن کا حسب
(یہ وہ مقالہ ہے جو ۳ جنوری ۱۹۵۸ئ کو مصنف نے بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس لاہور میں پڑھا تھا)اسلام میں قانون سازی کا
ناظرینِ ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:’’میں نے تجرید البخاری مؤلفہ علاّمہ حسین بن مبارک متوفی ۹۰۰ھ کے اُردو ترجمے میں جو فیروز
ایک صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’میں متواتر ضرورت حدیث کے سلسلے میں آپ کے مضامین دیکھ چکا ہوں۔ میں نہ تو ان غالی مخالفین احادیث میں
ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک تحریر فرماتے ہیں:’’منکرین ِ حدیث کے جواب میں آپ کا فاضلانہ مضمون مندرجہ ترجمان القرآن پڑھ کر بہت مسرت
اس مضمون کی اشاعت کے بعد اہل حدیث حضرات کی طرف سے اس پر جو اعتراضات ہوئے ہیں، اور ان پر میری طرف سے جو
کسی مسلمان کو اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ امورِ دین میں نبی صلی اللہ عیہ وسلم کا قول و عمل واجب الاتباع ہے
منکرین ِ حدیث کے مسلک پر ایک ناقدانہ نظر حال میں ایک صاحب نے ایک مختصر سا رسالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے:’’میں منکرِ
میرے مضمون ’’اتباع و اطاعت رسول‘‘ کو دیکھ کر میرے دوست چودھری غلام احمد پرویز صاحب نے اپنے ایک طویل مراسلے میں حسب ذیل خیالات
اس کتاب کے دو مضامین ’’آزادی کا اسلامی تصور‘‘ اور ’’اتباع و اطاعت رسولؐ ‘‘کا عربی ترجمہ د مشق کے رسالے المسلمون میں شائع ہوا
صاحب تعلیمات قرآن نے رسالت اور اس کے احکا م کی تشریح کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ میرے نزدیک رسالت کے
تھوڑی دیر کے لیے جسمانی آنکھیں بند کرکے تصور کی آنکھیں کھول لیجیے اور ایک ہزار چار سو برس پیچھے پلٹ کر دنیا کی حالت
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَoالبقرہ 62:2یوں
پچھلے مضمون کو دیکھ کر وہی صاحب جن کے استفسار پر وہ مضمون لکھا گیا تھا، پھر لکھتے ہیں:’’ایمان بالرسالۃ کے متعلق آپ کا عالمانہ
ایک صاحب نے میرے مضمون’’ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘‘ میں ایمان کی بحث پڑھ کر ایک شبہ پیش کیا ہے جو
’’مَنْ قَالَ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘ اس حدیث میں اوّل تو ایمان بِالرُّسُل کے بغیر جنت کی بشارت دی گئی ہے، حالانکہ قرآن میں
امید واثق ہے کہ ایک محقق اور طالب حقیقت کے ذیل کے استفسارات پر ترجمان القرآن کے توسط سے روشنی ڈالتے ہوئے نہ صرف مستفسر
قرآن مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے جن پر گزشتہ زمانہ میں خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہر قوم پر