سوال
حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُولَدَ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَ بَوَاہُ یُھَوِّدَانُہُ أَوْیُنَصِّرَ انُہُ أَوْیُمَجِسَانُہُ({ FR 2028 }) کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کا باعث آپ کی کتاب خطبات کی وہ عبارت ہے جس میں آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ’’انسان ماں کے پیٹ سے اسلام لے کر نہیں آتا۔‘‘اس حدیث کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ ہر بچہ مذہب اسلام پر پیدا ہوتا ہے،مگر آپ کی مذکورۂ بالا عبارت اس سے اِبا کرتی ہے۔آپ کی اس عبارت کو دیگر معترضین نے بھی بطور اعتراض لیا ہے۔مگر میں اس کا مطلب کسی اور سے سمجھنے یا خود نکالنے کے بجاے آپ ہی سے سمجھنا چاہتا ہوں ۔ کیوں کہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ معترض نے آپ پر اعتراض کردیا اور بادی النظر میں اس کا اعتراض معقول معلوم ہوا، مگر جب آپ کی طرف سے اس عبارت کا مفہوم بیان ہوا تو عقل سلیم نے آپ کے بیان کردہ مفہوم کی تصدیق کی۔
جواب
اس حدیث میں جو حقیقت بیان ہوئی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ انسان خدا کے ہاں سے کفر یا شرک یا دہریت لے کر نہیں آتا، بلکہ وہ خالص فطرت لے کر آتا ہے جو خد اکے سوا اپنے کسی معبود کونہیں جانتی اور شرائع الٰہیہ کے فطری اُصولوں کے سوا کسی چیز سے مانوس نہیں ہوتی۔اگر اس فطرت پر آدمی برقرار رہے اور کوئی بگڑا ہوا ماحول اُسے مشرکانہ افکار واعمال اور گمراہانہ اخلاق واوصاف کی طرف نہ موڑے تو اُسے انبیا ؊ کی پیش کردہ تعلیمات کو قبول کرنے میں ذرا تأمل نہ ہو۔ وہ اس چیز کو اس طرح لے جیسے اس کی اپنی چیز تھی جو کسی نے لا کر اُسے دے دی۔
لیکن یہ حقیقت کا صرف ایک پہلو ہے۔دوسر ا پہلو یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ جس چیز کو کہتے ہیں وہ کسی آدمی کو خودبخود حاصل نہیں ہوجاتی بلکہ صرف انبیا ؊ کے واسطے سے ہی ملتی ہے،اور ایک آدمی مسلم اسی وقت ہوتا ہے جب کہ انبیا کے پیش کردہ دین کو جان کر دل سے اُس کی تصدیق کرے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص سن شعور کو پہنچنے تک ٹھیک ٹھاک اسی فطرت پر قائم ہو جس پر اﷲ نے اُسے پیدا کیا تھا،تب بھی اُس کا مسلم ہونا اسی پر موقوف ہوگا کہ نبی کے واسطے سے اُس کودین ملے اور وہ اُسے قبول کرے۔ جو شخص اس بات کو نہیں مانتا ٰ،وہ دراصل یہ کہتا ہے کہ آدمی ماں کے پیٹ سے جو فطرت لے کر آتا ہے،وہی پورا کا پورا اسلام ہے اور وہی آدمی کے ہدایت یافتہ ہونے کے لیے کافی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ شرائع کا نزول اور انبیا کی آمد بالکل غیر ضروری ہے۔حالاں کہ قرآن جس بات کو بار بار وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے،وہ یہ ہے کہ انسان کو بہرحال خدا کی طرف سے ایک راہ نمائی کی ضرورت ہے اور وہ ہر شخص کو براہ راست نہیں بلکہ انبیا؊ کے واسطے سے ہی مل سکتی ہے،اور اسی کا اتباع قبول کرنے پر آدمی کی نجات کا مدار ہے۔دیکھیے جس وقت کوئی اجتماعی ماحول سرے سے موجودنہ تھااور کسی یہودیت یا نصرانیت یا مجوسیت کا نام ونشان تک نہ تھا،اُس وقت اﷲتعالیٰ نے نوع انسانی کو خطاب کرکے فرمایا:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرہ:۳۸)
’’پس اگر میری طرف سے تمھارے پاس راہ نمائی آئے تو جو لوگ میری راہ نمائی کی پیروی کریں گے،ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی جس فطرت کو اﷲ نے فجور اور تقویٰ کی ایک الہامی معرفت بخشی ہے،وہ اگر اپنی سلیم حالت میں بھی محفوظ ہو،پھر بھی وہ خود راستہ پالینے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے وحی کی راہ نمائی ناگزیر ہے۔فطرت کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ بس اتنی ہی ہے کہ وحی کے ذریعے سے جب اُس کے سامنے راہ ِ حق پیش کی جائے تو وہ اُسے پہچان لیتی ہے اور اُس کی تصدیق کرتی ہے، مگر وحی کے بغیر خود راہ یاب ہوجانا اس کے بس میں نہیں ہے۔ نبی ﷺ سے بڑھ کر سلیم الفطرت آخر کون ہوسکتا ہے؟آپؐ کا حال یہ تھا کہ جب تک وحی نے راہ نمائی نہ کی،آپؐ ٹھٹکے کھڑے تھے اور کچھ نہ جانتے تھے کہ راستہ کدھر ہے۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی({ FR 2154 }) (الضحیٰ:۷ ) اور وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ ({ FR 2155 }) (الشوریٰ:۵۲)
اس اسلام کے متعلق آخر کوئی صاحب علم وعقل آدمی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ مسلمان گھر میں پیدا ہونے والے ہر آدمی کو آپ سے آپ مل جاتا ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لیے سرے سے کسی علم وشعور اور ارادی تصدیق کی حاجت ہی نہیں ہے؟ ( ترجمان القرآن، اکتوبر،نومبر۱۹۵۲ء)