سوال
سورۃ الزُّخرُف ہی میں وَقِیْلِہٖ کا عطف شَھِدَ بِالْحَقِّ پر ہے۔ آیات کا مفہوم یہ ہے: اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنھیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، اِلّایہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ ان سے پوچھ دیکھو کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو یہ خود کہیں گے: اللّٰہ نے، پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں ؟ ہاں ، جو شہادت دے اپنے اس قول سے کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ اچھا، اے نبیؐ ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمھیں ، عن قریب یہ جان لیں گے۔
جواب
یہ ایک پیچیدہ بحث ہے جس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پورا سلسلۂ کلام نگاہ میں رہے۔ آیت ۶۵ تا۶۹ تک کی عبارت یہ ہے:
وَتَبٰرَكَ الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۰ۚ وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۰ۚ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo وَلَا يَمْلِكُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ يَعْلَمُوْنَo وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَo وَقِيْلِہٖ يٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَo فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ۰ۭ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ o
(الزخرف:۸۵-۸۹)
تفہیم القرآن میں ان آیات کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے:
’’بہت بالا و برتر ہے وہ جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور ہر اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین و آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ اس کو چھوڑکر یہ لوگ جنھیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، اِلاّ یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللّٰہ نے۔ پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں ، قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ اچھا، اے نبیؐ ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمھیں ، عن قریب انھیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے:
وبسیار بابرکت است آنکہ اولابادشاہی آسمانہا و زمین و آنچہ درمیان ہر دواست۔ و نزدیک اوست علم قیامت و بسوئے وے رجوع کردہ شوید۔ ونمی تو انند آنانکہ کفار پرستش می کنند بجز خدا شفاعت کردن، لیکن کسے کہ گواہی راست دادہ باشد و ایشاں می دانند۔ واگر سوال کنی ازایشاں کہ کدام کس بیافرید ایشاں را البتہ گویند خدا آفریدہ است۔ پس از کجابر گردانیدہ می شوند۔ وبسا دعائے پیغمبر کہ اے پروردگارِ من ہر آئینہ ایشاں گرو ہے ہستند کہ ایمان نمی آورند۔ فرمودیم اعراض کن ازایشاں وبگو سلام وداع، پس خواہند دانست۔
شاہ رفیع الدین صاحبؒ ان آیات کا ترجمہ یہ کرتے ہیں :
اور بہت برکت والا ہے وہ جو واسطے اس کے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور جو کچھ درمیان ان کے ہے اور نزدیک اس کے ہے علم قیامت کا اور طرف اس کے پھیرے جائو گے اور نہیں اختیار رکھتے وہ لوگ کہ پکارتے ہیں سواے اس کے شفاعت کرنا، مگر جو شخص گواہی دے ساتھ حق کے اور وہ جانتے ہیں اور اگر پوچھے تُو ان سے کس نے پیدا کیا ان کو، البتہ کہیں گے اللّٰہ نے۔ پس کہاں سے پھیرے جاتے ہیں اور بہت کہا کرتا ہے پیغمبر :اے رب میرے! تحقیق یہ قوم ہیں کہ نہیں ایمان لاتے۔ پس منہ پھیرلے ان سے اور کہہ سلامتی مانگتے ہیں شر تمھارے سے۔ پس البتہ جان لیویں گے۔
شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا ترجمہ:
اور بڑی برکت ہے اس کی جس کا راج ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور جو ان کے بیچ ہے اور اسی کے پاس ہے خبر قیامت کی اور اسی تک پھیرے جائو گے اور اختیار نہیں رکھتے جن کو یہ پکارتے ہیں سفارش کا، مگر جس نے گواہی دی سچی اور ان کو خبر تھی۔ اور اگر تو ان سے پوچھے کہ ان کو کس نے بنایا تو کہیں گے اللّٰہ نے، پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں ، قسم ہے رسول کے اس کہنے کی کہ اے رب یہ لوگ ہیں کہ یقین نہیں لاتے۔ سو تو مڑان کی طرف سے اور کہہ سلام ہے۔ اب آخر کو معلوم کرلیں گے۔
مولانا اشرف علی صاحبؒ کا ترجمہ:
اور وہ ذات بڑی عالی شان ہے جس کے لیے آسمانوں و زمین کی اور جو مخلوق ان کے درمیان میں ہے، اس کی سلطنت ثابت ہے، اور اس کو قیامت کی (بھی) خبر ہے، اور تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جائو گے اور خدا کے سوا جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سفارش (تک) کا اختیار نہیں رکھیں گے، ہاں جن لوگوں نے حق بات (یعنی کلمہ ایمان) کا اقرار کیا اور وہ تصدیق بھی کیا کرتے تھے اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو یہی کہیں گے کہ اللّٰہ نے۔ سو یہ لوگ کدھر الٹے چلے جاتے ہیں اور اس کو رسول کے اس کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ تو آپ ان سے بے رخ رہیے اور یوں کہہ دیجیے کہ :تم کو سلام کرتا ہوں ۔ سو ان کو ابھی معلوم ہو جائے گا۔
ان تراجم میں شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ نے وَقِیْلِہٖ کا عطف قریب کے فقرے سے مانا ہے۔ اس طرح شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ کے ترجمے کا سلسلہ عبارت یوں بنتا ہے: ’’واگر سوال کنی ازایشاں … پس از کجا برگردانیدہ می شوند؟ وبسا دعاے پیغمبر…‘‘ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے ترجمے کا سلسلہ عبارت یوں بنتا ہے: ’’اور اگر پوچھے تو ان سے… پس کہاں سے پھیرے جاتے ہیں ؟ اور بہت کہا کرتا ہے پیغمبر…‘‘ مولانا اشرف علی صاحب نے وَقِیْلِہٖ کو وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ پر معطوف قرار دیا ہے اور ان کے ترجمے کا سلسلہ عبارت یہ بنتا ہے: ’’اور اس کو قیامت کی (بھی) خبر ہے اور اس کو رسول کے اس کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب…‘‘۔ معترض صاحب کہتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ کا عطف شَھِدَ بِالْحَقِّ پر ہے، اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسولؐ کے بجاے اس شخص کی طرف پھرتی ہے جو علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ اس تجویز کے مطابق سلسلہ عبارت یہ قرار پاتا ہے ’’وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے اِلاّ یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے اپنے اس قول سے کہ اے میرے رب…‘‘۔ شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کی طرف رسول اللّٰہﷺ کو قِیْلِہٖ کی ضمیر کا مرجع ٹھیرایا ہے، مگر انھوں نے سیاق عبارت کو مسلسل مانتے ہوئے وَقِیْلِہٖکو قسم قرار دیا ہے اور یہی طریقہ تفہیم القرآن کی ترجمانی میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس سے آیت ۸۸ کا مطلب آیات ۸۶، ۸۷ کے ساتھ مل کر یہ نکلتا ہے کہ ’’قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں ۔‘‘
مفسرین نے بھی ان اختلافات کا اسی طرح ذکر کیا ہے:
ابن جریر وَقِیْلِہٖ کا عطف وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ پر قرار دیتے ہیں اور معنی یہ کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا علم بھی جو اپنے رب سے اپنی قوم کی تکذیب اور عدم ایمان کی شکایت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں ۔ پھر ابن جریر قتادہ کی یہ راے بیان کرتے ہیں کہ قِیْلِہٖ سے مراد تمھارے نبی کا قول ہے جو وہ اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ۔
زمخشری مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد زیادہ قوی اور موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ مناسب یہ سمجھتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ حرفِ قسم کے مضمر اور اس کے حذف پر مبنی ہو اور یہ قول جوابِ قَسم کے طور پر ہو کہ اِنَّ ھٰٓؤُ لَائِ قَوْمٌ لَّایُوْمِنُوْن گویا بات یوں ہوئی کہ ’’میں قسم کھاتا ہوں رسول کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللّٰہ ﷺ کی طرف راجع ہوتی ہے، اور آپ کے قول کی قسم کھانا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے مرتبے کی بلندی اور آپ کی دعا والتجا کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔
امام رازی، اخفش اور فراء اور زجاج کا قول نقل کرتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ معطوف ہے، السّاعۃپر۔ یعنی اللّٰہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا علم بھی کہ یٰرَبِّ…۔
علامہ آلوسی وَقِیْلِہٖ کا عطف السَّاعَۃِ پر قرار دے کر وہی بات کہتے ہیں جو امام رازی نے نقل کی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میرے پاس رسولؐ کے اس قول کا بھی علم ہے، کفار کے لیے دھمکی ہے (یعنی مراد یہ ہے کہ بادشاہِ کائنات اپنے سرکش بندوں سے کہہ رہا ہے کہ میں تمھارے کرتوتوں سے خوب واقف ہوں جس کی بنا پر میرے رسولؐ نے تمھاری یہ شکایت مجھ سے کی ہے)۔ دوسرا قول انھوں نے وہی بیان کیا ہے جو اوپر زمخشری سے نقل کیا گیا ہے اور تیسرا قول انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وَقِیْلِہٖ میں واو قَسم کاواو ہے اور جوابِ قَسم محذوف ہے، یعنی یہ بات اس میں مقدّر ہے کہ ہم اپنے رسول کی مدد کریں گے یا کفار کے ساتھ جو معاملہ چاہیں گے کریں گے۔
بہرحال یہ بات ہماری نظر سے کسی تفسیر میں نہیں گزری کہ وَقِیْلِہٖ کا عطف اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعَلَمُوْنَ (اِلاّیہ کہ کوئی شخص علم کی بنا پر حق کی شہادت دے) پر ہے۔ کوئی مفسر جو قرآن کا فہم رکھتا ہو یہ بات کہہ بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس فقرے پر معطوف قرار دے کر یہ کہنا بالکل بے معنی ہے کہ ’’ہاں ، جو شہادت دے کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔‘‘ اس لیے کہ آیت ۸۶ میں مبعود ان باطل کے لیے شفاعت کے اختیار کی نفی کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’اِلاّیہ کہ کوئی شخص علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔‘‘ روزِ حشر سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ اس روز شفاعت کے مجاز ہوسکیں گے۔ اس کے برعکس آیت ۸۸ میں یہ بات کہ ’’اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے‘‘ اسی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ ان دونوں فقروں میں آخر کیا مناسبت ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت کا مجاز وہ شخص ہوسکتا ہے جو آخرت میں علم کی بنا پر حق کی شہادت دے اور دنیا میں اپنے اس قول سے شہادت دے کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے؟ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)