سوال
مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بے حد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعاے خیر کرتا رہتا ہوں ۔ میں آج کل امریکا میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فنِ علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں ۔راہ نمائی کیجیے کہ اسلام میں ’’نفس‘‘ کی کیا تعریف ہے؟
جواب
میری قوتِ کار چونکہ روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور مصروفیتیں بڑھتی جارہی ہیں ، اس لیے مجھے اپنا وقت بڑی کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے زیادہ تفصیلی جواب طلب خطوط کے جواب دینے میں مجھے بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ تاہم آپ کے سوالات[نمبر۲۷۵تا ۲۷۹] کے مختصر جوابات دے رہا ہوں ۔
نفس کا لفظ کبھی تو زندہ اشخاص کے لیے بولا جاتا ہے، جیسے فرمایا: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْت ({ FR 2270 })(العنکبوت:۵۷)اور کبھی اس سے مراد mind یا ذہن ذی شعور ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا({ FR 2271 }) ( الشمس:۷-۸) کبھی اس سے مراد رُوح ہوتی ہے، جیسے فرمایا: وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر:۷ )’’یعنی جب روحیں پھر جسم کے ساتھ ملا دی جائیں گی۔‘‘ کبھی اس سے مراد انسان کی پوری ذات ہوتی ہے مع جسم و روح، جیسے فرمایا: وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات:۲۱) ’’کیا تم خود اپنی ذات یا اپنے وجود پر غور نہیں کرتے؟‘‘ کبھی اس سے مراد انسانی ذہن کے اس حصے سے ہوتی ہے جو خواہشات اور جذبات کا محل ہے، جیسے فرمایا: وَفِيْہَا مَا تَشْتَہِيْہِ الْاَنْفُسُ (الزخرف:۷۱ ) ’’جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی نفس خواہش کریں گے۔‘‘ اور کبھی اس سے مراد ذہنِ انسانی کا وہ حصہ ہوتا ہے جو اپنی قوتِ فیصلہ(judgement)استعمال کرکے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے کس راہ کو اختیار کرنا اور کس طریقِ کار یا طریقِ زندگی کو اپنانا ہے۔ (ترجمان القرآن، نومبر۱۹۷۱ء)