Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور جاہلیت
زندگی کے بنیادی مسائل
خالص جاہلیت
۱۔ شرک
۲۔ رَہبانیت
۳۔ ہمہ اُوست
انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان
نظریّۂ اِسلامی کی تنقید
اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:

اسلام اور جاہلیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:

سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت ہونے کی حیثیت سے سب کے حقوق یکساں، سب کی حیثیت یکساں اور سب کے لیے مواقع یکساں، کسی شخص، کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل کے لیے دوسرے انسانوں پر نہ کسی قسم کی برتری وفوقیت ہے، نہ امتیازی حقوق، اس طرح انسان پر انسان کی حاکمیت اور فضیلت کی جڑ کٹ جاتی ہے اور وہ تمام خرابیا ںیک لخت دور ہو جاتی ہیں جو بادشاہی، جاگیرداری، نوابی (aristocracy) برہمنیت وپاپائیت اور آمریت سے پیدا ہوتی ہیں۔
پھر یہ چیز قبیلے، قوم، نسل، وطن اور رنگ کے تعصبات کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے جن کی بدولت دُنیا میں سب سے زیادہ خون ریزی ہوئی ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام رُوئے زمین خدا کا مُلک ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد اور خدا کے بندے ہیں، اور فضیلت کی بنیاد نسل ونسب، مال ودولت، یا رنگ کی سپیدی وسرخی پر نہیں بلکہ اَخلاق کی پاکیزگی اور خدا کے خوف پر ہے۔ جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اصلاح وتقوٰی پر عمل کرنے والا ہے وہی سب سے افضل ہے۔
اسی طرح انسان اور انسان کے درمیان اجتماعی ربط وتعلق یا فرق وامتیاز کی بنا پر بھی اس نظریے میں کلیتاً تبدیلی کر دی گئی ہے۔ انسان نے اپنی ایجاد سے جن چیزوں کو اجتماع وافتراق کی بنا ٹھیرایا ہے، وہ انسانیت کو بے شمار حصوں میں تقسیم کرتی ہیں اور ان حصوں کے درمیان ناقابلِ عبور دیواریں کھڑی کر دیتی ہیں۔ کیوں کہ نسل، یا وطن، یا قومیت یا رنگ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کوآدمی تبدیل کر سکتا ہوا ور ایک گروہ میں سے دوسرے گروہ میں جا سکتا ہو۔ برعکس اس کے یہ نظریہ انسان اور انسان کے درمیان اجتماع وافتراق کی بنا خدا کی بندگی اور اس کے قانون کی پیروی پر رکھتا ہے۔ جو لوگ مخلوقات کی بندگی چھوڑ کر خدا کی بندگی اختیار کر لیں اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا واحد قانون تسلیم کر لیں وہ سب ایک جماعت ہیں، اور جو ایسا نہ کریں وہ دوسری جماعت۔ اس طرح تمام اختلافات مٹ کر صرف ایک اختلاف باقی رہ جاتا ہے اور وہ اختلاف بھی قابل عبور ہے۔ کیوں کہ ہر وقت ایک شخص کے لیے ممکن ہے کہ اپنا عقیدہ اور طرز زندگی بدل دے اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں چلا جائے۔ اس طرح ایک دُنیا میں کوئی عالم گیر بین الاقوامی برادری بننا ممکن ہے تو وہ اسی نظریے پر بن سکتی ہے۔ دوسرے تمام نظریات انسانیت کو پھاڑنے والے ہیں، جمع کرنے والے نہیں۔
ان تمام اصلاحات کے بعد جو سوسائٹی اس نظریے پر بنتی ہے اس کی ذہنیت، اسپرٹ، اور اجتماعی تعمیر (social structure) بالکل بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں اسٹیٹ انسان کی حاکمیت پر نہیں بلکہ خدا کی حاکمیت پر بنتا ہے۔{ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب: ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ)لمیٹڈ لاہور۔
} حکومت خدا کی ہوتی ہے۔ قانون خدا کا ہوتا ہے۔ انسان صرف خدا کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ یہ چیز اوّل تو اُن ساری خرابیوں کو دُور کر دیتی ہے جو انسان پر انسان کی حکومت اور انسان کی قانون سازی سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر ایک عظیم الشان فرق جو اس نظریے پر اسٹیٹ بننے سے واقع ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ کے پورے نظام میں عبادت اور تقوٰی کی اسپرٹ پھیل جاتی ہے۔ راعی اور رعیت دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کی حُکُومت میں ہیں اور ہمارا معاملہ براہِ راست اُس خدا سے ہے جو عالم الغیب والشہادہ ہے۔ ٹیکس دینے والا یہ سمجھ کر ٹیکس دیتا ہے کہ وہ خدا کو ٹیکس دے رہا ہے، اور ٹیکس لینے والے اور اس ٹیکس کو خرچ کرنے والے یہ سمجھتے ہوئے کام کرتے ہیں کہ یہ مال خدا کا مال ہے اور ہم امین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ایک سپاہی سے لے کر ایک جج اور گورنر تک ہر کارندۂ حُکُومت اپنی ڈیوٹی اُسی ذہنیت کے ساتھ انجام دیتا ہے جس ذہنیت کے ساتھ وہ نماز پڑھتا ہے۔ دونوں کام اس کے لیے یکساں عبادت ہیں اور دونوں میں وہی ایک تقوٰی اور خشیت کی رُوح درکار ہے۔ باشندے اپنے اندر سے جن لوگوں کو خدا کی نیابت کا کام انجام دینے کے لیے چنتے ہیں ان میں سب سے پہلے جو صفت تلاش کی جاتی ہے وہ خوفِ خدا اور امانت وصداقت کی صفت ہے۔ اس طرح سطح پر وہ لوگ ابھر کر آتے ہیں اور اختیارات اُن کے ہاتھوں میں دیے جاتے ہیں جو سوسائٹی میں سب سے بہتر اَخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔
تمدن ومعاشرت میں بھی یہ نظریہ تقوٰی اور طہارتِ اَخلاق کی یہی اسپرٹ پھیلا دیتا ہے۔ اس میں نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی ہوتی ہے، ہر ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان خدا کا واسطہ حائل ہوتا ہے، اور خدا کا قانون دونو ں کے تعلقات کو منضبط کرتا ہے۔ یہ قانون چوں کہ اُس نے بنایا ہے جو تمام نفسانی خواہشات اورذاتی اغراض سے پاک ہے، اور علیم وحکیم بھی ہے اس لیے اس میں فتنے کا ہر دروازہ اور ظلم کا ہر راستہ بند کیا گیا ہے اور انسانی فطرت کے ہرپہلو اور اس کی ہر ضرورت کی رعایت کی گئی ہے۔
یہاں اتنا موقع نہیں کہ میں اُس پوری اجتماعی عمارت کا نقشہ پیش کروں جو اُس نظریے پر بنتی ہے مگر جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیغمبروں نے جو نظریۂ کائنات وانسان پیش کیا ہے وہ کس قسم کا رویّہ پیدا کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی نہیں کہ یہ محض کاغذ پر ایک خیالی نقشہ ہو بلکہ تاریخ میں اس نظریے پر ایک اجتماعی نظام اور ایک اسٹیٹ بنا کر دکھایا جا چکا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار کیے گئے تھے نہ اس سے بہتر افراد کبھی رُوئے زمین پر پائے گئے اور نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔ اس کے افراد میں اپنی اَخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک صحرائی عورت کو زنا سے حمل ہو جاتا ہے، وہ جانتی ہے کہ میرے لیے اس جرم کی سزا سنگ ساری جیسی ہولناک سزا ہے، مگر وہ خود چل کر آتی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ اس پر سزا نافذ کی جائے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وضع حمل کے بعد آئیو، اور بغیر کسی مچلکہ وضمانت کے اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وضع حمل کے بعد وہ پھر صحرا سے آتی ہے اور سزا دیے جانے کی درخواست کرتی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ بچے کو دودھ پلا اور جب دُودھ پلانے کی مدت ختم ہو جائے تب آئیو۔ پھر وہ صحرا کی طرف واپس چلی جاتی ہے اور کوئی پولیس کی نگرانی اس پر نہیں ہوتی۔ رضاعت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ پھر آ کر التجا کرتی ہے کہ اب اسے سزا دے کر اُس گناہ سے پاک کر دیا جائے جو اس سے سرزد ہو چکا ہے۔ چنانچہ اسے سنگسار کیا جاتا ہے اور جب وہ مر جاتی ہے تو اُس کے لیے دعائے رحمت کی جاتی ہے۔ اور جب ایک شخص کی زبان سے اس کے حق میں اتفاقاً یہ کلمہ نکل جاتا ہے کہ کیسی بے حیا عورت تھی تو جواب میں فرمایا جاتا ہے کہ ’’خدا کی قسم! اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا۔‘‘ یہ تواس سوسائٹی کے افراد کا حال تھا اور اس اسٹیٹ کا حال یہ تھا کہ جس حُکُومت کی آمدنی کروڑوں روپے تک پہنچی ہوئی تھی اور جس کے خزانے ایران وشام ومصر کی دولت سے معمور ہو رہے تھے، اس کا صدر صرف ڈیڑھ سو روپیہ مہینہ تنخواہ لیتا تھا، اور اس کے شہریوں میں ڈھونڈے سے بھی بمشکل کوئی ایسا شخص ملتا تھا جوخیرات لینے کا مستحق ہو۔
اس تجربے کے بعد بھی اگر کسی شخص کو یہ اطمینان حاصل نہ ہو کہ انبیا نے نظامِ کائنات کی حقیقت اور اس میں انسان کی حیثیت کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہ حق ہے تو ایسے شخص کے اطمینان کے لیے کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ خدا اور فرشتوں اورآخرت کی زندگی کا براہِ راست عینی مشاہدہ تو اُسے بہرحال حاصل نہیں ہو سکتا۔ جہاں مشاہدہ ممکن نہ ہو وہاں تجربے سے بڑھ کر صحت کا کوئی دوسرا معیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک طبیب بیمار کے اندرمشاہدہ کرکے یہ نہیں دیکھ سکتا کہ فی الواقع سسٹم میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے تو مختلف دوائیں دے کر دیکھتا ہے، اور جو دوا اس اندھیری کوٹھڑی میں ٹھیک نشانے پر جا کر بیٹھتی ہے اس کا مرض کو دور کر دینا ہی اس بات پر قطعی دلیل ہوتا ہے کہ سسٹم میں فی الواقع جو خرابی تھی یہ دوا اس کے عین مطابق تھی۔ اسی طرح جب انسانی زندگی کی کل کسی دوسرے نظریے سے درست نہیں ہوتی اور صرف انبیا کے نظریے ہی سے درست ہوتی ہے تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ حقیقت کے مطابق ہے۔ فی الواقع یہ کائنات اللہ کی سلطنت ہے اور واقعی اس زندگی کے بعد ایک زندگی ہے جس میں انسان کو اپنے کارنامۂ حیاتِ دنیوی کا حساب دینا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں