تیسری رائے جو مشاہدے اور قیاس کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان اورکائنات کی تمام چیزیں بجائے خود غیر حقیقی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔ دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کر رہا ہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا ظہور خارجی ہیں اور دراصل موجود وہی ہے باقی کچھ نہیں۔
اس نظریے کی بِنا پر انسان جو رویّہ اختیار کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے خود اپنے ہونے ہی میں شک ہو جاتا ہے کجا کہ وہ کوئی کام کرے۔ وہ اپنے آپ کو ایک کٹھ پتلی سمجھتا ہے جسے کوئی اور نچا رہا ہے یا جس کے اندر کوئی اور ناچ رہا ہے۔ وہ اپنے تخیلات کے نشے میں گم ہو جاتا ہے۔ اُس کے لیے نہ کوئی مقصدِ زندگی ہوتا ہے اور نہ کوئی راہِ عمل۔ وہ خیال کرتا ہے کہ میں خود تو کچھ ہوں ہی نہیں، نہ میرے کرنے کا کوئی کام ہے، نہ میرے کیے سے کچھ ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو وہ وجودِ کلی جو مجھ میں اور تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے اور جو ازل سے ابد تک چلا جا رہا ہے، سارے کام اُسی کے ہیں اور وہی سب کچھ کرتا ہے۔ وہ اگر مکمل ہے تو مَیں بھی مکمل ہوں، پھر کوشش کس چیزکے لیے؟ اور وہ اگر اپنی تکمیل کے لیے کوشاں ہے تو جس عالم گیر حرکت کے ساتھ وہ کمال کی طرف جا رہا ہے اسی کی لپیٹ میں ایک جز کی حیثیت سے میں بھی آپ سے آپ چلا جائوں گا۔ میں ایک جز ہوں، مجھے کیا خبر کہ کل کدھر جا رہا ہے اور کدھر جانا چاہتا ہے۔ اس طرزِ خیال کے عملی نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ابھی مَیں نے راہبانہ نظریّے کے سلسلے میں بیان کیے ہیں۔ بلکہ بعض حالات میں اس رائے کو اختیار کرنے والے کا طرزِ عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتا جلتا ہے جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلا جاتا ہے کہ جانے والا وجود کلی ہے نہ کہ مَیں۔
پہلے نظریے کی طرح یہ تینوں نظریے بھی جاہلیت کے نظریے ہیں اور اس بنا پر جو رویّے ان سے پیدا ہوتے ہیں وہ بھی جاہلیت ہی کے رویّے ہیں۔ اس لیے کہ اوّل تو ان میں سے کوئی نظریّہ بھی کسی علمی ثبوت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض خیالی اور قیاسی بنیادوں پر مختلف رائیں قائم کر لی گئی ہیں۔ دوسرے ان کا واقعہ کے خلاف ہونا تجربے سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان میں کوئی رائے بھی امر واقعی کے مطابق ہوتی تو اس کے مطابق عمل کرنے سے بُرے نتائج تجربے میں نہ آتے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایک چیز کو جہاں کہیں انسان نے کھایا اس کے پیٹ میں درد ضرور ہوا تو اس تجربے سے آپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ فی الحقیقت معدے کی ساخت اور اس کی طبیعت سے یہ چیز مطابقت نہیں رکھتی۔ بالکل اسی طرح جب یہ حقیقت ہے کہ شرک، رہبانیت، اور وجودیت کے نظریے اختیار کرنے سے انسان کو بحیثیت مجموعی نقصان ہی پہنچا تو یہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ ان میں سے کوئی نظریہ بھی واقعہ اور حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔
(ب) اِسلام
اب ہمیں تیسری صورت کو لینا چاہیے جو زندگی کے ان بنیادی مسائل کے متعلق رائے قائم کرنے کی آخری صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیغمبروں نے ان مسائل کا جو حل پیش کیا ہے اُسے قبول کیا جائے۔
اس طریقے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی اجنبی مقام پر آپ ہوں اور آپ کو خود اس مقام کے متعلق کوئی واقفیت نہ ہو تو آپ کسی دوسرے شخص سے دریافت کریں اور اس کی راہ نمائی میں وہاں کی سیر کریں۔ ایسی صورتِ حال جب پیش آتی ہے تو آپ پہلے اس شخص کو تلاش کرتے ہیں جو خود واقف کار ہونے کا دعوٰی کرے۔ پھر آپ قرائن سے اس امر کا اطمینان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ شخص قابلِ اعتماد ہے یا نہیں۔ پھر آپ اس کی راہ نمائی میں چل کر دیکھتے ہیں اور جب تجربے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق جو عمل آپ نے کیا اس سے کوئی بُرا نتیجہ نہیں نکلا تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے کہ واقعی وہ شخص واقف کار تھا اور اس جگہ کے متعلق جو معلوما ت اس نے دی تھیں وہ صحیح تھیں۔ یہ ایک علمی طریقہ ہے، اور اگر کوئی دوسرا طریقِ علمی ممکن نہ ہو تو پھر رائے قائم کرنے کے لیے یہی ایک صحیح طریقہ ہو سکتا ہے۔
اب دیکھیے، دُنیا آپ کے لیے ایک اجنبی جگہ ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا انتظام کس قسم کا ہے۔ کس آئین پر یہ کارخانہ چل رہا ہے۔ اس کے اندر آپ کی کیا حیثیت ہے، اور یہاں آپ کے لیے کیا رویّہ مناسب ہے۔ آپ نے پہلے یہ رائے قائم کی کہ جیسا بظاہر نظر آتا ہے اصل حقیقت بھی وہی ہے۔ آپ نے اس رائے پر عمل کیا مگر نتیجہ غلَط نکلا۔ پھر آپ نے قیاس اور گمان کی بنا پر مختلف رائیں قائم کیں اور ہر ایک پر عمل کرکے دیکھا، مگر ہر صورت میں نتیجہ غلَط ہی رہا۔ اس کے بعد آخری صورت یہی ہے کہ آپ پیغمبروں کی طرف رجوع کریں۔ یہ لوگ واقف کار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ان کے حالات کی جتنی چھان بین کی جاتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت سچے، نہایت امین، نہایت نیک، نہایت بے غرض، اور نہایت صحیح الدماغ لوگ ہیں۔ لہٰذا بادی النظر میں ان پراعتماد کرنے کے لیے کافی وجہ موجود ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا باقی رہ جاتا ہے کہ دُنیا کے متعلق اوردُنیا میں آپ کی حیثیت کے متعلق جومعلومات وہ دیتے ہیں وہ کہاں تک لگتی ہوئی ہیں، اُن کے خلاف کوئی عملی ثبوت نہیں ہے، اور اُن کے مطابق جو رویّہ دُنیا میں اختیار کیا گیا وہ تجربے سے کیسا ثابت ہوا۔ اگر تحقیق سے ان تینوں باتوں کا جواب بھی اطمینان بخش نکلے تو ان کی راہ نمائی پر ایمان لے آنا چاہیے اور زندگی میں وہی رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو اس نظریے کے مطابق ہو۔
جیسا کہ میں نے اُوپر عرض کیا پچھلے جاہلیت کے طریقوں کے مقابلے میں یہ طریقہ علمی طریقہ ہے اور اگر اس علم کے آگے آدمی سرِ تسلیم خم کر دے، اگر خود سری اور خودرائی کو چھوڑ کر اس علم کا اتباع کرے، اور اپنے رویّے کو انھی حدود کا پابند کر دے جو اس علم نے قائم کی ہیں، تو اسی طریقے کا نام ’’اِسلامی طریقہ‘‘ ہے۔