دُوسری رائے جو مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم کو ملا کر قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دُنیا اور یہ جسمانی وُجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب ہے۔ انسان کی روح ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اس قفس میں بند کی گئی ہے۔ لذّات وخواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں اصل میں یہ اس قید خانے کے طوق وسلاسل ہیں۔ انسان جتنا اس دُنیا اور اس کی چیزوں سے تعلق رکھے گا اتنا ہی ان زنجیروں میں پھنستا چلا جائے گا اور مزید عذاب کا مستحق ہو گا۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ زندگی کے سارے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے، خواہشات کو مٹایا جائے۔ لذّات سے کنارہ کشی کی جائے، جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبوں کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے، ان تمام مَحبتوں کو دل سے نکال دیا جائے جو گوشت وخون کے تعلق سے پیدا ہوتی ہیں، اور اپنے اس دشمن (یعنی نفس وجسم) کو مجاہدوں اور ریاضتوں سے اتنی تکلیفیں دی جائیں کہ رُوح پر اس کا تسلّط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہوجائے گی اور نجات کے بلند مقام پر اُڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔
اس رائے سے جو رویّہ پیدا ہوتا ہے اس کی خصوصیات یہ ہیں:
اوّلاً، اس سے انسان کے تمام رجحانات، اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔ وہ دُنیا اور اس کی زندگی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے، ذمہ داریوں سے بھاگتا ہے، اس کی ساری زندگی عدمِ تعاون اور ترکِ موالات کی زندگی بن جاتی ہے اور اس کے اَخلاق زیادہ تر سلبی (negative) نوعیت کے ہو جاتے ہیں۔
ثانیاً، اس رائے کی بدولت نیک لوگ دُنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہائے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیں اور دُنیا کے سارے معاملات شریر لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں۔
ثالثاً: تمدن میں اس رائے کااثر جس حد تک پہنچتا ہے اس سے لوگوں کے اندر سلبی اَخلاقیات، غیر تمدّنی (un-social) اور انفرادیت پسندانہ (individualistic) رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی عملی قوتیں سرد ہو جاتی ہیں۔ وہ ظالموں کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ اور ہرجابر حُکُومت انھیں آسانی سے قابو میں لا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے ذلول (tame) بنانے میں جادو کی تاثیر رکھتا ہے۔
رابعاً: انسانی فطرت سے اس راہبانہ نظریے کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اکثر یہ اس سے شکست کھا جاتا ہے۔ پھر جب یہ شکست کھاتا ہے تو اپنی کم زوری کو چھپانے کے لیے اسے حیلوں کے دامن میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ اسی وجہ سے کہیں کفارہ کا عقیدہ ایجاد ہوتا ہے، کہیں عشقِ مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور کہیں ترک دُنیا کے پردے میں وہ دُنیا پرستی کی جاتی ہے جس کے آگے دُنیا پرست بھی شرما جائیں۔