ایک رائے یہ ہے کہ کائنات کا یہ نظام بے خداوند تو نہیں ہے مگر اس کا ایک خداوند (الٰہ یا ربّ) نہیں ہے بلکہ بہت سے خداوند (آلِھَۃ)اورارباب ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت وشقاوت، کام یابی وناکامی، نفع ونقصان بہت سی ہستیوں کی مہربانی پرمنحصر ہے۔ یہ رائے جن لوگوں نے اختیار کی ہے انھوں نے پھر اپنے وہم وقیاس سے کام لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدائی کی طاقتیں کہاں کہاں اور کس کس کے ہاتھ میں ہیں، اور جن جن چیزوں پر بھی ان کی نگاہ جا ٹھیری ہے انھی کو خدا مان لیا ہے۔
اس رائے کی بنا پر جو طرزِ عمل انسان اختیار کرتا ہے اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:
اوّلاً:اس سے آدمی کی پوری زندگی اوہام کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ وہ کسی علمی ثبوت کے بغیر مجرد اپنے وہم وخیال سے بہت سی چیزوں کے متعلق یہ رائے قائم کرتا ہے کہ وہ فوق الفطری طریقوں سے اس کی قسمت پر اچھا یا بُرا اثر ڈالتی ہیں۔ اس لیے وہ اچھے اثرات کی موہوم امید اور بُرے اثرات کے موہوم خوف میں مبتلا ہو کر اپنی بہت سی قوتیں لاحاصل طریقے سے ضائع کر دیتا ہے۔ کہیں کسی قبر سے امید لگاتا ہے کہ یہ میرا کام کر دے گی۔ کہیں کسی بُت پر بھروسا کرتا ہے کہ وہ میری قسمت بنا دے گا۔ کہیں کسی اور خیالی اور کارساز کو خوش کرنے کے لیے دوڑتا پھرتا ہے۔ کہیں کسی بُرے شگون سے دل شکستہ ہو جاتا ہے اور کہیں کسی اچھے شگون سے توقعات کے خالی قلعے بنا لیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس کے خیالات اور اس کی کوششوں کو فطری تدابیر سے ہٹا کر ایک بالکل غیر فطری راستے پر ڈال دیتی ہیں۔
ثانیاً: اس رائے کی وجہ سے پوجا پاٹ، نذرونیاز، اور دوسری رسموں کاایک لمبا چوڑا دستورُ العمل بنتا ہے جس میں اُلجھ کر آدمی کی سعی وعمل کا ایک بڑا حصہ بے نتیجہ مشغولیتوں میں صرف ہو جاتا ہے۔
ثالثاً: جو لوگ اس مشرکانہ وہم پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں بے وقوف بنا کر اپنے جال میں پھانس لینے کا چالاک آدمیوں کو خوب موقع مل جاتا ہے۔ کوئی بادشاہ بن بیٹھتا ہے اور سورج، چاند اور دوسرے دیوتائوں سے اپنا نسب ملا کر لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہم بھی خدائوں میں سے ہیں اور تم ہمارے بندے ہو۔ کوئی پروہت یا مجاور بن بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تمھارا نفع ونقصان جن سے وابستہ ہے ان سے ہمارا تعلق ہے اور تم ہمارے ہی واسطے اُن تک پہنچ سکتے ہو۔ کوئی پنڈت اور پیربن جاتا ہے اور تعویذ گنڈوں اور منتروں اور عملیات کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہماری یہ چیزیں فوق الفطری طریقے سے تمھاری حاجتیں پوری کریں گی۔ پھر ان سب چالاک لوگوں کی نسلیں مستقل خاندانوں اور طبقوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جن کے حقوق، امتیازات اور اثرات امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور گہری بنیادوں پر جمتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح اس عقیدے کی بدولت عام انسانوں کی گردنوں پر شاہی خاندانوں، مذہبی عہدے داروں اور روحانی پیشوائوں کی خدائی کا جُوا مسلّط ہوتا ہے اور یہ بناوٹی خدا اُنھیں اس طرح اپنا خادم بناتے ہیں کہ گویا وہ اُن کے لیے دودھ دینے اور سواری اور باربرداری کی خدمت انجام دینے والے جانور ہیں۔
رابعاً: یہ نظریہ نہ تو علوم وفنون، فلسفہ وادب، اورتمدّن وسیاست کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور نہ ان خیالی خدائوں سے انسانوں کو کسی قسم کی ہدایت ہی ملتی ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ ان خدائوں سے تو انسان کا تعلق صرف اس حد تک محدود رہتا ہے کہ یہ اُن کی مہربانی واعانت حاصل کرنے کے لیے بس عبودیت کے چند مراسم ادا کر دے۔ باقی رہے زندگی کے معاملات تو ان کے متعلق قوانین اور ضوابط بنانا اور عمل کے طریقے معین کرنا انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ اس طرح مشرک سوسائٹی عملاً انھی سب راہوں پر چلتی ہے جن کا ذکر خالص جاہلیت کے سلسلے میں ابھی میں آپ سے کر چکا ہوں۔ وہی اَخلاق، وہی اعمال، وہی طرز تمدن، وہی سیاست، وہی نظامِ معیشت، اور وہی علم وادب۔ ان تمام حیثیتوں سے شرک کے رویّے اور خالص جاہلیت کے رویّے میں کوئی اصولی فرق نہیں ہوتا۔