Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور جاہلیت
زندگی کے بنیادی مسائل
خالص جاہلیت
۱۔ شرک
۲۔ رَہبانیت
۳۔ ہمہ اُوست
انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان
نظریّۂ اِسلامی کی تنقید
اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:

اسلام اور جاہلیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

خالص جاہلیت

حواس پر اعتماد کرکے جب انسان ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس طرزِ فکر کی عین فطرت کے تقاضے سے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامۂ وُجود وظہور ہے جس کے پیچھے کوئی مصلحت اور مقصد نہیں۔ یوں ہی بن گیا ہے، یوں ہی چل رہا ہے، یونہی بے نتیجہ ختم ہوجائے گا۔ اس کا کوئی مالک نظر نہیں آتا، لہٰذا وہ یا تو ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو انسان کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ انسان ایک قسم کا جانور ہے جو شاید اتفاقاً پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اسے کسی نے پیدا کیا یا یہ خود پیدا ہو گیا۔ بہرحال یہ سوال خارج از بحث ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنھیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے، کچھ قوٰی اور کچھ آلات رکھتا ہے جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اور اس کے گرد وپیش زمین کے دامن پر بے حد وحساب سامان پھیلا ہوا ہے جس پر یہ اپنے قوٰی اور آلات کو استعمال کرکے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے اور اس کی قوتوں کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جو اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ انسان اس پرہاتھ مارے۔اوپر کوئی صاحبِ امر نہیں جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو اور نہ کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود ہے جہاں سے انسان کو اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو۔ لہٰذا انسان ایک خود مختار اور غیر ذمہ دار ہستی ہے۔ اپنے لیے ضابطہ وقانون بنانا اور اپنی قوتوں کا مصرف تجویز کرنا اور موجودات کے ساتھ اپنے طرز عمل کا تعین کرنا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی ہدایت ہے تو جانوروں کی زندگی میں، پتھروں کی سرگزشت میں، یا خود اپنی تاریخ کے تجربات میں ہے اور یہ اگر کسی کے سامنے جواب دہ ہے تو آپ اپنے سامنے یا اُس اقتدار کے سامنے ہے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہو کر افراد پرمستولی ہو جائے۔ زندگی جو کچھ ہے یہی دنیوی زندگی ہے اور اعمال کے سارے نتائج اسی زندگی کی حد تک ہیں۔ لہٰذاصحیح اور غلَط، مفید اور مضر، قابلِ اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انھی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو اس دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔
یہ ایک پورا نظریۂ حیات ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام بنیادی مسائل کا جواب حسی مشاہدے پر دیا گیا ہے۔ اور اس جواب کا ہر جزو دوسرے جز کے ساتھ کم از کم ایک منطقی ربط، ایک مزاجی موافقت ضرور رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان دُنیا میں ایک ہموار ویکساں رویّہ اختیار کر سکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ یہ جواب اور اس سے پیدا ہونے والا رویّہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ اب اُس رویّے پر ایک نگاہ ڈالیے جو اس جواب کی بنا پر آدمی دُنیا میں اختیار کرتا ہے۔
انفرادی زندگی میں اس نقطۂ نگاہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے لے کر آخر تک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کر لے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جسم اور اپنی جسمانی قوتوں کا مالک سمجھے گا، اس لیے اپنے حسبِ منشا جس طرح چاہے گا انھیں استعمال کرے گا۔ دُنیا کی جو چیزیں اس کے قبضۂ قدرت میں آئیں گی اور جن انسانوں پراسے اقتدار حاصل ہو گا ان سب کے ساتھ وہ اس طرح برتائو کرے گا جیسے کہ وہ ان کا مالک ہے۔ اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی چیز صرف قوانینِ قدرت کی حدیں اور اجتماعی زندگی کی ناگزیر بندشیں ہوں گی۔ خود اس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اَخلاقی احساس ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو گا جو اسے شُترِ بے مہار ہونے سے روکتا ہو۔ جہاں خارجی رکاوٹیں نہ ہوں، یا جہاں وہ ان رکاوٹوں کے علی الرغم کام کرنے پر قادر ہو، وہاں تو اس کے عقیدے کا فطری اقتضا یہی ہے کہ وہ ظالم، بددیانت، شریر اورمفسد ہو۔ وہ فطرتاً خود غرض، مادہ پرست اور ابن الوقت ہو گا۔ اُس کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی نفسانی خواہشات اور حیوانی ضروریات کی خدمت کے سوا نہ ہو گا اور ا س کی نگاہ میں قدروقیمت صرف ان چیزوں کی ہو گی جو اُس کے اس مقصدِ زندگی کے لیے کوئی قیمت رکھتی ہوں۔ افراد میں یہ سیرت وکردار پیدا ہونا اس عقیدے کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ مصلحت اور دُور اندیشی کی بنا پرایسا شخص ہم درد ہو، ایثار پیشہ ہو، اپنی قوم کی فلاح وترقی کے لیے جان توڑ کوشش کرتا ہو، اور فی الجملہ اپنی زندگی میں ایک طرح کے ذمہ دارانہ اَخلاق کا اظہار کرے لیکن جب آپ اس کے اس رویّہ کا تجزیہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ دراصل یہ اس کی خود غرضی ونفسانیت ہی کی توسیع ہے۔ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتا ہے، اس لیے اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص زیادہ سے زیادہ بس ایک نیشنلسٹ ہی ہو سکتا ہے۔
پھر جو سوسائٹی اس ذہنیت کے افراد سے بنے گی اُس کی امتیازی خصوصیات یہ ہوں گی:
سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر قائم ہو گی، خواہ وہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقے کی حاکمیت ہو، یا جمہور کی حاکمیت۔ زیادہ سے زیادہ بلند اجتماعی تصوّر جو قائم کیا جا سکے وہ بس دولتِ مشترکہ (common wealth) کا تصوّر ہو گا۔ اس مملکت میں قانون ساز انسان ہوں گے، تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی ومصلحت پرستی ہی کے لحاظ سے پالیسیاں بھی بنائی اور بدلی جائیں گی۔ مملکت کے حدود میں وہ لوگ زور کرکے ابھر آئیں گے جو سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے زیادہ چالاک، مکار، جھوٹے، دغا باز، سنگ دل اور خبیث النفس ہوں گے۔ سوسائٹی کی راہ نمائی اور مملکت کی زمامِ کارانھی کے ہاتھ میں ہو گی اور ان کی کتابِ آئین میں زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہو گا۔
تمدن ومعاشرت کا سارا نظام نفس پرستی پر قائم ہو گا۔ لذّاتِ نفس کی طلب ہر اَخلاقی قید سے آزاد ہوتی چلی جائے گی اور تمام اَخلاقی معیار اس طرح قائم کیے جائیں گے کہ ان کی وجہ سے لذتوں کے حصوں میں کم سے کم رکاوٹ ہو۔
اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے اور ان کے اندر عریانی وشہوانیت کے عناصر بڑھتے چلے جائیں گے۔
معاشی زِندگی میں کبھی جاگیرداری سسٹم بر سر عروج آئے گا، کبھی سرمایہ داری نظام اس کی جگہ لے گا، اورکبھی مزدور شورش کرکے اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر لیں گے۔ عدل سے بہرحال معیشت کا رشتہ کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔ کیوں کہ دُنیا اور اس کی دولت کے بارے میں اس سوسائٹی کے ہر فرد کا بنیادی رویّہ اس تصوّر پر مبنی ہو گا کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جس پر حسبِ موقع ہاتھ مارنے کے لیے وہ آزاد ہے۔
پھر اس سوسائٹی میں افراد کو تیار کرنے کے لیے تعلیم وتربیت کا جو نظام ہو گا اس کا مزاج بھی اِسی تصوّرِ حیات اور اسی رویّے کے مناسب حال ہو گا، اس میں ہر نئی آنے والی نسل کو دُنیا اور انسان اور دُنیا میں انسان کی حیثیت کے متعلق وہی تصوّر دیاجائے گا جس کی تشریح مَیں نے اوپر کی ہے۔ تمام معلومات خواہ وہ کسی شعبۂ علم سے متعلق ہوں، اُن کوایسی ہی ترتیب کے ساتھ دی جائیں گی کہ آپ سے آپ اُن کے ذہن میں زندگی کا یہ تصوّر پیدا ہو جائے اور پھر ساری تربیت اس ڈھنگ کی ہو گی کہ وہ زندگی میں یہی رویّہ اختیارکرنے اور اسی طرز کی سوسائٹی میں کھپ جانے کے لیے تیار ہوں۔ اس تعلیم وتربیت کی خصوصیات کے متعلق مجھے آپ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ آپ لوگوں کو اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ جن درس گاہوں میں آپ تعلیم پا رہے ہیں وہ سب اسی نظریے پر قائم ہوئی ہیں، اگرچہ ان کے نام’’ اِسلامیہ کالج‘‘ اور ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ وغیرہ ہیں۔
یہ رویّہ جس کی تشریح میں نے ابھی آپ کے سامنے کی ہے خالص جاہلیت کا رویّہ ہے۔ اس کی نوعیت وہی ہے جو اس بچے کے رویے کی نوعیت ہے جو محض حسی مشاہدے پر اعتماد کرکے آگ کو ایک خوب صورت کھلونا سمجھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اس مشاہدے کی غلطی فورًا تجربہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کیوں کہ جس آگ کو کھلونا سمجھ کر وہ دست اندازی کا رویّہ اختیار کرتا ہے وہ گرم آگ ہوتی ہے، ہاتھ لگاتے ہی فورًا بتا دیتی ہے کہ میں کھلونا نہیں ہوں۔ بخلاف اس کے یہاں مشاہدے کی غلطی بڑی دیرمیں کھلتی ہے، بلکہ بہتوں پر کھلتی ہی نہیں کیوں کہ جس آگ پر یہ ہاتھ ڈالتے ہیں اس کی آنچ دھیمی ہے، فورًا چرکا نہیں دیتی بلکہ صدیوں تک تپاتی رہتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص تجربات سے سبق لینے کے لیے تیار ہو تو شب وروز کی زندگی میں اس نظریے کی بدولت افراد کی بے ایمانیوں، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں، مال داروں کی خود غرضیوں، اور عام لوگوں کی بد اَخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ اس کوہوتا ہے، اور بڑے پیمانے پر اسی نظریے سے قوم پرستی، امپیریلزم، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکلتے ہیں، ان کے چرکوں سے وہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ رویّہ جاہلیت کا رویّہ ہے، علمی رویّہ نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان نے اپنے متعلق اور نظام کائنات کے متعلق جو رائے قائمِ کرکے یہ رویّہ اختیار کیا ہے وہ امرِ واقعہ کے مطابق نہیں ہے ورنہ اس سے یہ بُرے نتائج ظاہر نہ ہوتے۔
اب ہمیں دوسرے طریقے کا جائزہ لینا چاہیے۔ زندگی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم سے کام لے کر ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کی جائے۔ اس طریقے سے تین مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں اور ہرایک رائے سے ایک خاص قسم کا رویّہ پیدا ہوا ہے۔

شیئر کریں