اس سلسلہ میں چند باتیں مجھے آپ سے خاص طور پر کہنی ہیں۔ اسلامی حکومت کے متعلق عام طور پر یہ غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں کہ اگر کہیں اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو ایک بڑا تاریک دور ملک پر مسلط ہو جائے گا اور قوم کی ساری ترقی رُک جائے گی۔ خصوصیت سے یہ چیز بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی نظام میں عورتوں کی پوزیشن گر جائے گی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر یہاں اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو وہ عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی برکت ثابت ہو گی جیسی مردوں کے لیے ہے۔ میں مختصر طور پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسلامی حکومت میں آپ کی کیا پوزیشن ہو گی۔
۱۔ اسلام موجودہ زمانہ کی جمہوریت سے سینکڑوں برس پہلے عورتوں کے حق رائے دہی کو تسلم کر چکا ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب عورت کی مستقل شخصیت ہی سے انکارکیا جاتا ہے اور کہا جاتا تھا کہ عورت بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ شیطان کی ایک ایجنٹ ہے۔ ایسے تاریک دور میں اسلام نے سب سے پہلے عورت کی شخصیت کا اثبات کیا اور اُسے اجتماعی معاملات میں رائے دینے کا حق بخشا۔ اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہو گا جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق دیا جائے گا۔
۲۔ اسلام عورتوں کو وراثت اور مال وجائیداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق دینا ہے۔ ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنی ملکیت کو صنعت وحرفت میں لگائیں اور اس سے جو نفع ہو اس کی بلا شرکت غیرے مالک ہوں، بلکہ اگر ان کے پاس وقت بچتا ہوں تو ان کو اس کا بھی حق ہے کہ بطور خود کوئی کاروبار کوئی محنت مزدوری کریں اور اس کی آمدنی کی ملکیت پوری طرح انہیں حاصل ہو۔ ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کے املاک پر کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
۳۔ اسلامی حکومت میں ناقص ازدواجی قانون جو انگریزی دور میں یہاں رائج رہا ہے اور جس نے بہت سی مسلمان عورتوں کے لیے دنیا کی زندگی کو دوزخ کی زندگی بنا رکھا ہے، بدل دیا جائے گا اور اسلام کا حقیقی قانونِ ازدواج جاری کیا جائے گا، جو عورتوں کے حقوق ومفاد کی پوری پوری حفاظت کرتا ہے۔ یہ نام نہاد شریعت بل جو ابھی ابھی پاکستانی پنجاب کی اسمبلی میں پاس کیا گیا ہے۔ یہ پوری طرح شریعت کے قانون پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ یہ قانونِ شریعت کی ایک مسخ شدہ شکل ہے میری کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ اگر آپ کے مطالعہ میں آئی ہو تو آپ پر واضح ہو چکا ہو گا کہ مردوں اورعورتوں، دونوں کے جملہ حقوق ومفاد کی حفاظت اسلام کے قانون کے سوا اور کسی قانون میں نہیں ہے۔ اسلام کی حکومت میں ایسا ازدواجی قانون نافذ ہو گا جو آپ کی ساری شکایات ختم کر دے گا۔
۴۔ اسلامی حکومت میں عورتوں کو تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا، جیسا کہ غلط فہمیاں پھیلانے والے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے، بلکہ ان کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ انتظام یقینا آج کل کے گرلز اسکولوں اور گرلز کالجوں کے طرز پر نہ ہو گا اور مخلوط تعلیم کے اصول پر تو ہرگز نہیں ہو گا بلکہ اس میں اسلامی حدود کی پابندی کی جائے گی۔ مگر بہرصورت ہر شعبے میں اونچے معیار کی زنانہ تعلیم کے انتظامات ضرور کیے جائیں گے۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ اسلام کی حدود کو اگر برقرار رکھنا ضروری ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہگرلز میڈیکل کالج چلائے جا سکیں؟ میں کہتا ہوں کہ اگر حکومت اسلام کا کلمہ پڑھ لے اور اسلام کے اصول پر کام کرنے کا فیصلہ کر لے تو ایسے ذرائع فراہم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے جن سے اسلامی طرز کا ایک زنانہ میڈیکل کالج قائم کیا جا سکے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ماہر اور تجربہ کار مسلمان لیڈی ڈاکٹرز جو ملک میں موجود ہیں، عورتوں کو ڈاکٹری تعلیم دینے پر مامور کر دیں، یا اگر بالفرض وہ فراہم نہ ہو سکیں تو ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اپنی قوم میں سے سنِ رسیدہ ڈاکٹروں کو جن کی سیرت قابل اعتماد ہو منتخب کر لیں اور ان کے سپرد یہ خدمت کریں کہ چند سال کے اندر اچھی لیڈی ڈاکٹرز کا ایک معتدبہ گرہ تیار کر لیں۔ پھر ہم عورتوں کو مردوں سے تعلیم دلانے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جائیں گے۔
اسی طرح ہر دوسرے شعبے کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا بھی انتظام کیا جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ اسلامی حدود توڑنے کی کوئی ضرورت پیش آئے۔
۵۔ ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے، اور یہ بھی انشاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہوئے ہو گا، میں بارہا اپنے رفقا سے کہہ چکا ہوں کہ اب قومیت کی لڑائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور انسان درندگی کی بدتر سے بدتر شکلیں اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جنہیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاند جانے میں تامل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آ جائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریت ان سے صادر ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے تیار کریں اور ہر مسلمان عورت اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔ انہیں اسلحہ کا استعمال سیکھنا چاہیے، انہیں تیرنا آتا ہو، وہ سواری کر سکتی ہوں، سائیکل اورموٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ جانتی ہوں پھر صرف اپنی ذاتی حفاظت ہی کی تیاری نہ کریں بلکہ ضرورت ہو تو جنگ میں مردوں کا ہاتھ بٹاسکیں۔ ہم یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی حدود کے اندر اندر کرنا چاہتے، ان حدود کو توڑ کر نہیں کرنا چاہتے۔ قدیم زمانہ میں بھی مسلمان عورتوں نے اسلحہ کے استعمال اورزدافعت کے فنون کی تربیت حاصل کی تھی، لیکن انہوں نے پُورے فنون سپہ گری اپنے باپوں، بھائیوں اور شوہروں سے سیکھے تھے، اور پھر عورتوں نے عورتوں کو تربیت دی تھی۔ اب بھی یہ صورت بآسانی اختیارکی جا سکتی ہے کہ فوجی لوگوں کو اپنی محرم خواتین کی تربیت پرمامور کیا ہو اور پھر جب عورتیں کافی تعداد میں تیار ہو جائیں توان کو دوسری عورتوں کے لیے معلم بنا دیا جائے۔