اب اگر آپ نے اسلام فی الواقع اپنے لیے پسند کر لیا ہے تو آپ کے سامنے یہ سوال دو ٹوک فیصلہ کے لیے آن کھڑا ہو گا کہ آیا آپ جاہلیت کی پیروی اور اسلام سے بغاوت میں اپنے غلط کار مردوں کی رفاقت کرنے کے لیے آمادہ ہیں یا نہیں؟ اگر آپ نے واقعی اسلام کو پسند کر لیا ہے، تو پھر آپ کو اس سوال کا جواب لازماً نفی میں دینا ہو گا۔ آپ کے لیے یہ ہرگز مناسب نہ ہو گا کہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے آپ خود اپنی عاقبت خراب کر لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
ان شرالناس منزلۃ یوم القیامۃ عبد اذھب اٰخرتہٗ لدنیا غیرہٖ
’’قیامت کے روز بدترین حال اس شخص کا ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی عاقبت خراب کر لی۔‘‘
لہٰذا آپ اپنے مردوں کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرنے پر ہرگز آمادہ نہ ہوں۔ مسلمان خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے، ہر ایک پر یہ واضح کر دیں کہ ہم اسلام کے اتباع میں آپ کی رفاقت کر سکتی ہیں لیکن اگر آپ کو اسلام کے حدود کی پابندی گوارا نہیں ہے تو آپ جانیں اور آپ کا کام، ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ آپ کی دنیا کے لیے اپنی آخرت بگاڑنے پر ہم تیار نہیں ہیں۔
دوسری طرف جن خواتین کے شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے خدا اور رسول کی پیروی کرنے والے ہوں، ان کا کام یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ پورا تعاون کریں اور تکلیفوں میں ان کا ساتھ دیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص اسلام کی حدود کے اندر رہنے کا فیصلہ کرے گا وہ دولت کے کمانے میں ہر طرح کے مال پر ہاتھ نہیں مار سکتا، وہ حرام خوری نہیں کر سکتا۔ وہ حلال طریقوں سے محدود کمائی کرکے عیاشی کے سامان فراہم نہیں کر سکتا، پس مسلمان خاتون کو حلال کی تھوڑی کمائی پر قناعت کرنی چاہیے۔ اسلام پر چلنے والے باپوں، شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں پر دبائو نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے عیش وعشرت اور لطف ولذت کے سامان فراہم کریں۔ اسی طرح دین حق کی اطاعت اور اس کو قائم کرنے کی کوشش میں مردوں کو بہت سی تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور مسلمان خواتین کا فرض ہے کہ ان تکالیف میں اپنے حق پرست مردوں کی سچی رفیق ثابت ہوں۔