Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیائے اسلام
غیر شعوری مسلمان
مسلمان ہونے کے معنی
ہم کیا چاہتے ہیں؟
آپ کے فرائض
آپ کا پہلا کام
آپ کا دوسرا کام
آپ کا تیسرا کام
آپ کا چوتھا کام
ایک فیصلہ طلب سوال
نازک وقت آ رہا ہے
حکومت اور رائے عام
اسلامی حکومت میں خواتین کے حقوق
مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا فرق
پورا اسلام یا پوری فرنگیت

مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مسلمان ہونے کے معنی

مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ دنیا میں خدائی، پروردگاری، اور آقائی کے جتنے مُدعی پائے جاتے ہیں ان سب میں سے صرف ایک ربُ العالمین ہی کی بندگی اُسے کرنی ہے۔ جن جن طاقتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ آدمی اُن کی مرضی کی پیروی کرے، ان کے احکام کی اطاعت کرے اور اپنی شخصیت کو ان کے حوالے کر دے، ان سب میں سے صرف ایک اللہ ہی کی ہستی ایسی ہے جس کے آگے سرِ اطاعت اُسے جھکا دینا ہے، اور وہی ہے جس کی مرضی اسے ڈھونڈھنی ہے، پھر مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں کے درمیان آدمی یہ فیصلہ کر لے کہ اسے صرف وہی ایک طریق زندگی پسند ہے جس کو اسلام نے پیش کیاہے۔ دوسرے طریقوں کو ترجیح دینا تو درکنار، ان کی طرف کوئی رغبت اور لگاوٹ بھی اس کے دل میں نہ ہو، اس کو دل سے اسلام ہی کا طریقہ مرغوب اور پسندیدہ ہو۔ پھر مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں انسان کی رہنمائی ورہبری کے جتنے مُدعی گزرے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں ان سب کے درمیان ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو آدمی اپنی رہنمائی کے لیے چُن لے اور فیصلہ کر لے کہ اسے بس آپؐ ہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔
اس طرح جب کوئی شخص اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لے تب کہیں وہ مسلمان ہوتا ہے اور جس نے اس طرح سے اسلام قبول کیا اس کا کام یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی اوراسلام کے قانون اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے تابع کر دے۔ پھراس کے لیے چون وچرا کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا، پھر اسے یہ کہنے کا حق نہیں رہتا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں یہ حکم دیا ہے، اور اگرچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ رہنمائی کی ہے، اور اگرچہ قرآن اس بارے میں یہ فیصلہ دیتا ہے مگر میری رائے اس سے متفق نہیں ہے اور میں چلوں گا اپنی ہی رائے پر، یا دنیا کا چلتا ہوا طریقہ اس کے خلاف ہے اور مجھے پیروی اسی طریقہ کی کرنی ہے جو دنیا میں چل رہا ہو۔ یہ رویہ جس شخص کا ہو اس کے متعلق سمجھ لینا چاہیے کہ حقیت میں وہ ایمان لایا ہی نہیں ہے حقیقی ایمان لانا تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پسند کو، اپنی خواہشات اور جذبات کو اپنے خیالات اور نظریات کو پوری طرح اسلام کے ماتحت کر دے، اور ہر اس غیر اسلامی طریقہ کو رد کر دے جو دنیا میں رائج ومقبول ہو یا جس کی طرف نفس کا شیطان رغبت دلائے۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں:
لا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعاً لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائیں جسے میں لایا ہوں۔‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک آدمی کے نفس کا شیطان خدا کے آگے ڈگیں ڈال نہ دے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کر دے اس وقت تک آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک کسی شخص کے نفس کا یہ دعویٰ قائم ہے کہ زندگی میں میری خواہش کی اطاعت ہونی چاہیے، اس وقت تک اس کے دل میں ایمان واسلام نہیں ہے ایمان واسلام یہ ہے کہ آدمی کا دل کہنے لگے کہ میں بے چون وچرا دین کی اطاعت پر راضی ہوں۔
پھر اسلامی زندگی کے معنی یہ ہیںکہ آدمی میں ذمہ داری کا احساس ہو۔ مومن کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہوتی ہے۔ جس دل میں ایمان موجود ہو وہ کبھی اس احساس سے خالی نہیں ہو سکتا کہ اسے اپنی زندگی کے سارے اعمال کے لیے، خیالات کے لیے، خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، اس کو مرنے کے بعد یہ حساب دینا ہے کہ دنیا میں اس نے کیا کیا؟ کیا کہا اور سنا؟ کن طریقوں سے زندگی بسر کی؟ کن مشاغل میں اپنی قوتیں اور قابلتیں صرف کیں؟ کن ذرائع سے کمایا؟ اور کن راہوں میں اپنے مال کو صرف کیا؟ اور کن مقاصدکے لیے دنیا میں سعی وکوشش کی؟ مومن کبھی اس خیال میں مبتلا نہیں ہوتا کہ ہمیں بس مر کرمٹی ہو جانا ہے، اور دنیا سے اسی طرح گزر جانا ہے کہ دنیا کے افعال واعمال کا کوئی نتیجہ برآمد ہی نہ ہو گا۔ نہیں، وہ پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد پھر ایک زندگی ہے جس میں خدا کے سامنے حاضر ہو کر اسے اپنے ایک ایک کام کا، ایک ایک حرکت کا، اورایک ایک ذرّے کا حساب دینا ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
الاکلکم رَاعٍ وکلکم مسئول عنہ رعیتہٖ
’’خبردار تم میں سے ہرایک راعی ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘
رعیت سے مراد وہ سب کچھ ہے جو آدمی کے چارج میں دیا گیا ہے، چاہے وہ بال بچے ہوں یا نوکر اور ماتحت ہوں یا جانور اور اسباب زندگی ہوں۔ جس شے پر بھی کسی انسان کا حکم چلتا ہو اور جو کوئی اس کے تابع ہو وہی اس کی رعیت ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے دنیا میں کوئی بھی بے رعیت نہیں ہے۔ ہر ایک کسی نہ کسی دائرے میں راعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت گھر کی راعی ہے، شوہر بال بچوں کا راعی ہے، افسر ماتحتوں کا راعی ہے، حکمران پوری آبادی کا راعی ہے۔ بہرحال ہر انسان کسی نہ کسی طرح کا ضرور راعی ہے، اور کوئی نہ کوئی اس کے چارج میں ضرور ہے۔ اسی رعیت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کو متنبہ کرتے ہیں کہ خبردار ہو، تم اپنی رعیت کے ذمہ دار ہو، اور تمہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہو گی کہ تم نے اپنی رعیت پر اختیارات کس طرح استعمال کیے۔ یہ عقیدہ مسلمان کی زندگی کو ایک ذمہ دارانہ زندگی بناتا ہے۔ مسلمان کبھی اس طرح کی زندگی بسر نہیں کر سکتا کہ وہ جو چاہے کھائے جوچاہے پہنے، جن مشاغل میں چاہے اپنی قوتیں اور اپنا وقت صرف کرتا رہے، جدھر خواہشاتِ نفس لے جائیں اُدھر آزادی سے بڑھتا چلا جائے۔ وہ کوئی چھوٹا ہوا جانور نہیں ہوتا کہ جس کھیت میں چاہے گھس جائے، جہاں ہرا چارہ نظر آئے منہ مار دے اور جس راستے کی طرف منہ اٹھ جائے، اسی پر دوڑنے لگے۔ مسلمان کی زندگی کی صحیح مثال وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ
مثل المؤمن ومثل الایمان کمثل الفرس فی اٰخیتہٖ یجول ثم یرجع اِلٰی اٰخیتہٖ ۵
’’مسلمان اور ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کھونٹے سے بندھا ہوا گھوڑا ہوتا ہے کہ چاہے وہ کتنی ہی گردشیں اور جولانیاں دکھائے، بہرحال اس کے گلے کی رسی اسے مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد اپنے کھونٹے کی طرف پلٹ جائے۔‘‘
مسلمان جب ایمان وطاعت کے کھونٹے سے بندھا ہے تو رسی کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، بہرحال وہ ایک خاص دائرے کے اندر ہی اندر گھوم پھر سکتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا۔ وہ اپنی ساری قوتیں اور کوششیں اسی حد کے اندر صرف کر سکتا ہے جو خدا اور رسول نے مقرر کر دی ہیں۔ اس کی ساری دلچسپیاں، ساری تفریحیں، ساری سرگرمیاں اور تمام کاروائیاں مقررہ حدود کے اندر ہی محدود رہیں گی۔ ان حدود سے باہر جانے کی وہ جرأت نہیں کر سکتا۔

شیئر کریں