یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رُونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی، اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا، اُس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام وکمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر ہر صاحبِ بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست وریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کر سکے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی صورت کے خلاف اُٹھنے میں بھگتنا پڑیں۔ ان کا خطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنھیں اوپر نمبروار گنایا گیا ہے، دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لیے انھوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔
……٭٭٭……