وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکم رانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسولؐ اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی امیہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے جس طرح ان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دَور میں بھی نہیں ہوا۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے ، بس یہ تھا کہ ایک برا آدمی برسرِ اقتدار آگیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت وشخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسرِ اقتدار آ جانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے جس پر امام حسینؓ جیسا دانا وزیرک اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے جس نے امام کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی، وہ اسلامی ریاست کے دستور، اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے۔ لیکن ایک صاحبِ نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے، اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گا۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔