ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سُنّی بھی، امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں، جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جانِ عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا، اور اس خاندان سے محبت وعقیدت یا ہم دردی رکھنے والوں کا اظہارِ غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج وغم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدر وقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہم دردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا تازہ غم ہوتا رہے؟
اگر یہ شہادت کسی مقصدِ عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت وتعلق کی بِنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اورخود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی وشخصی محبت کی کیا قدر وقیمت ہو سکتی ہے؟ انھیں اگر اپنی ذات اُس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اُسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کاثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں، بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں، تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ وزاری کرکے‘ اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں۔ اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا ہے؟ کیا امام تخت وتاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعوٰی رکھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسینؓ کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خوں ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اُن لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعوٰی رکھتا تھا، تب بھی حضرت ابوبکرؓ سے لے کر امیر معاویہؓ تک، پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت وخون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا، حتّٰی کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آ جائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔