اس سے بھی زیادہ مضحکہ انگیز استدلال یہ لوگ سورۂ نساء کی آیت نمبر۱۲۹ سے کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
وَلَنْ تَسْتَطِیَعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔
’’اور تم ہرگز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ عدل کرو عورتوں (یعنی بیویوں) کے درمیان، خواہ تم اس کے کیسے ہی خواہش مند ہو، لہٰذا (ایک بیوی کی طرف بالکل نہ جھک پڑو کہ دوسری کو) معلق چھوڑ دو۔ اور اگر تم اپنا طرز عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
ان الفاظ کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت ۳ میں عدل کی شرط کے ساتھ تعددِ ازواج کی اجازت دی ہے، اور پھر اسی سورت کی آیت ۱۲۹ میں یہ بات خود ہی واضح کر دی ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا انسانی ہستیوں کے بس میں نہیں ہے۔ اب یہ ریاست کاکام ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تطبیق دینے کے لیے ایک قانون بنائے اور ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر پابندیاں عائد کردے۔ وہ کہہ سکتی ہے کہ دو بیویاں کرنے کی صورت میں چونکہ سال ہا سال کے تجربات سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے، اور قرآن میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ دونوں بیویوں کے ساتھ یکساں برتائو نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ طریقہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔‘‘
ہمیں سخت حیرت ہے کہ اس آیت میں سے اتنا بڑا مضمون کس طرح اور کہاں سے نکل آیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ تو ضرور فرمایا ہے کہ انسان دو یا زائد بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل اگر کرنا چاہے بھی تو نہیں کرسکتا، مگر کیا اس بنیاد پر اس نے تعددِ ازواج کی وہ اجازت بھی واپس لے لی جو عدل کی شرط کے ساتھ اس نے خود ہی سورۂ نساء کی آیت نمبر ۳ میں دی تھی؟ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس فطری حقیقت کو صریح لفظوں میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دو یا زائد بیویوں کے شوہر سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک بیوی کی طرف اس طرح ہمہ تن نہ مائل ہو جائے کہ دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق چھوڑ دے۔ بالفاظ دیگر پورا پورا عدل نہ کرسکنے کا حاصل قرآن کی رُو سے یہ نہیں ہے کہ تعددِ ازواج کی اجازت ہی سرے سے منسوخ ہو جائے، بلکہ اس کے برعکس اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ شوہر ازدواجی تعلق کے لیے ایک بیوی کو مخصوص کرلینے سے پرہیز کرے اور ربط و تعلق سب بیویوں سے رکھے، خواہ اس کا دلی میلان ایک ہی کی طرف ہو۔ یہ حکم ریاست کو مداخلت کا موقع صرف اُس صورت میں دیتا ہے جب کہ ایک شوہر نے اپنی دوسری بیوی یا بیویوں کو معلق کرکے رکھ دیا ہو۔ اسی صورت میں وہ بے انصافی واقع ہوگی جس کے ساتھ تعدد ازواج کی اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ لیکن کسی منطق کی رُو سے بھی اس آیت کے الفاظ اور اس کی ترکیب اور فحویٰ سے یہ گنجائش نہیں نکالی جاسکتی کہ معلق نہ رکھنے کی صورت میں ایک ہی شخص کے لیے تعددِ ازواج کو ازرُوئے قانون ممنوع ٹھیرایا جاسکے، کجا کہ اس میں سے اتنا بڑا مضمون نکال لیا جائے کہ ریاست تمام لوگوں کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنے کو مستقل طور پر ممنوع ٹھیرا دے۔ قرآن کی جتنی آیتوں کو بھی آدمی چاہے ملا کر پڑھے، لیکن قرآن کے الفاظ میں قرآن ہی کا مفہوم پڑھنا چاہیے، کوئی دوسرا مفہوم کہیں سے لاکر قرآن میں پڑھنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ مفہوم قرآن سے نکل رہا ہے، کسی طرح بھی درست طریق مطالعہ نہیں ہے، کجا کہ اسے درست طریق اجتہاد مان لیا جائے۔