چوتھی چیز متجد دین کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ:
’’سورۂ نور کی آیت نمبر۳۳ میں طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ شادی کرنے کے ذرائع نہ رکھتے ہوں ان کو شادی نہ کرنی چاہیے۔ اگر ذرائع کی کمی کے باعث ایک شخص کو ایک بیوی کرنے سے روکا جاسکتا ہے، تو انھی وجوہ یا ایسے ہی وجوہ کی بنا پر اسے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے سے کیوں نہیں روکا جاسکتا؟‘‘
اس تاویل میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ۔
’’اور عفت مآبی سے کام لیں وہ لوگ جو نکاح کا موقع نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے۔‘‘
ان الفاظ میں یہ مفہوم کہاں سے نکلتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نکاح نہ کرنا چاہیے؟ ان میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اللہ نکاح کے ذرائع فراہم نہ کر دے اس وقت تک مجرد لوگ عفت مآب بن کر رہیں، بدکاری کرکے نفس کی تسکین نہ کرتے پھریں۔ تاہم اگر کسی نہ کسی طرح نکاح سے ممانعت کا مفہوم ان الفاظ میں داخل کر بھی دیا جائے، پھر بھی اس کاروئے سخن فرد کی طرف ہے نہ کہ قوم یا ریاست کی طرف۔ یہ بات تو فرد کی اپنی صواب دید پر چھوڑی گئی ہے کہ کب وہ اپنے آپ کو شادی کرلینے کے قابل پاتا ہے اور کب نہیں پاتا۔ اور اسی کو یہ ہدایت کی گئی ہے (اگر فی الواقع ایسی کوئی ہدایت کی بھی گئی ہے)کہ جب تک وہ نکاح کے ذرائع نہ پائے نکاح نہ کرے۔ اس میں قوم یا ریاست کو یہ حق کہاں دیا گیا ہے کہ وہ فرد کے اس ذاتی معاملے میں دخل دے اور یہ قانون بنا دے کہ کوئی شخص اس وقت تک نکاح نہ کرنے پائے جب تک وہ ایک عدالت کے سامنے اپنے آپ کو ایک بیوی اور گنتی کے چند بچوں کی (جن کی تعداد مقرر کر دینے کا حق بھی ان حضرات کی رائے میں یہی آیت ریاست کو عطا کرتی ہے) پرورش کے قابل ثابت نہ کردے؟ آیت کے الفاظ اگر کچھ اہمیت رکھتے ہیں تو اس معاملے میں ریاست کی قانون سازی کا جواز ہمیں بتایا جائے کہ اس کے کس لفظ سے نکلتا ہے؟ اور اگر نہیں نکلتا تو اس آیت کی بنیاد پر مزید پیش قدمی کرکے ایک سے زائد بیویوں اور مقرر تعداد سے زائد بچوں کے معاملے میں ریاست کو قانون بنانے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟