Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ تعدد ازواج
اصل قانون
غلط مفروضہ
تاویل نمبر ۱
تاویل نمبر۲
تاویل نمبر ۳
تاویل نمبر۴
تاویل نمبر ۵
تاویل نمبر ۶
غلط تاویلات کی اصل وجہ
نئی نئی شرطیں
آخری سہارا
دو ٹوک بات

مسئلہ تعدد ازواج

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تاویل نمبر ۳

تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ:
’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیونکہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا ، تو آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت بھی ساری قوم کے لیے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی فرد ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔‘‘
اس عجیب طرزِ استدلال کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ ایک مسلمان جب یہ کہتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے گا تو وہ اس آزادی کواستعمال کرتا ہے جو اس کی خانگی زندگی کے بارے میں خدا نے اسے دی ہے۔ وہ اس آزادی کو شادی نہ کرنے کے بارے میں بھی استعمال کرسکتا ہے، ایک بیوی پر اکتفا کرنے میں بھی استعمال کرسکتا ہے، اور کسی وقت اس کی رائے بدل جائے تو ایک سے زائد بیویاں کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتا ہے۔ لیکن جب قوم تمام افراد کے بارے میں کوئی مستقل قانون بنا دے گی تو فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کرلے گی جو خدا نے اسے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسی قیاس پر کیا قوم کسی وقت یہ فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے کہ اس کے آدھے افراد شادی کریں اور آدھے نہ کریں؟ یا جس کی بیوی یا شوہر مر جائے وہ نکاح ثانی نہ کرے؟ ہر آزادی جو افراد کو دی گئی ہے اسے بنائے استدلال بنا کر قوم کو یہ آزادی دینا کہ وہ افراد سے ان کی آزادی سلب کرلے، ایک منطقی مغالطہ تو ہوسکتا ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ قانون میں یہ طرز استدلال کب سے مقبول ہوا ہے۔
تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مانے لیتے ہیں کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت مثلاً ان میں سے چار کروڑ ایک ہزار مل کر ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے صرف چند ہزار مل کر اپنی ذاتی رائے سے اس طرح کا کوئی قانون تجویز کریں اور اکثریت کی رائے کے خلاف اسے زبردستی ملک پر مسلط کر دیں تو ان کے اپنے بیان کردہ اصول کی رُو سے اُس کا کیا جواز ہوگا؟ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں سے ایک لاکھ، بلکہ پچاس ہزار کا بھی نقطۂ نظر یہ نہیں ہے کہ قوم کی معاشی تمدنی اور سیاسی حالت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنا تو قانوناً ممنوع ہو البتہ اس کا ’’گرل فرینڈز‘‘ سے آزادانہ تعلق، یا طوائفوں سے ربط ضبط، یا مستقل داشتہ رکھنا ازروئے قانون جائز رہے۔ خود وہ عورتیں بھی جن کے لیے سوکن کا تصور ہی تکلیف دہ ہے کم ہی ایسی ہوں گی جن کے نزدیک ایک عورت سے ان کے شوہر کا نکاح ہو جائے تو ان کی زندگی ستی سے بدتر ہو جائے گی، لیکن اسی عورت سے ان کے شوہر کا ناجائز تعلق رہے تو ان کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے گی۔

شیئر کریں