اپنے اس بے بنیاد دعوے پر یہ لوگ تاویلات کی جو عمارت کھڑی کرتے ہیں اس کا ہر جُز خود اس دعوے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’یہ لوگوں کے منتخب نمائندوں کاکام ہے کہ وہ اس بارے میں ایک قانون بنائیں کہ آیا ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں کرسکتا ہے اور اگر کرسکتا ہے تو کن حالات میں اور کن شرائط کے ساتھ۔‘‘
اب ذرا اُس آیت کے الفاظ کو دیکھیے جس میں سے یہ ضابطہ نکالا جارہا ہے۔ اس کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس کے مخاطب افرادِ مسلمین ہیں۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ ’’اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں تم انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے، تین تین سے اور چار چار سے، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی سہی۔‘‘ ظاہر ہے کہ عورتوں کو پسند کرنا، ان سے نکاح کرنا اور اپنی بیویوں سے عدل کرنا یا نہ کرنا افراد کاکام ہے نہ کہ پوری قوم یا سوسائٹی کا۔ لہٰذا باقی تمام فقرے بھی جو بصیغۂ جمع مخاطب ارشاد ہوئے ہیں، ان کا خطاب بھی لامحالہ افراد ہی سے ماننا پڑے گا۔ اس طرح یہ پوری آیت اوّل سے لے کر آخر تک دراصل افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں مخاطب کر رہی ہے اور یہ بات انھی کی مرضی پر چھوڑ رہی ہے کہ اگر عدل کرسکیں تو چار کی حد تک جتنی عورتوں کو پسند کریں ان سے نکاح کرلیں، اور اگر یہ خطرہ محسوس کریں کہ عدل نہ کرسکیں گے تو ایک ہی پر اکتفا کریں۔ سوال یہ ہے کہ جب تک فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ اور فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا کے صیغۂ خطاب کو فضول اور بے معنی نہ سمجھ لیا جائے، اس آیت کے ڈھانچے میں نمائندگانِ قوم آخر کس راستے سے داخل ہو جائیں گے؟ آیت کا کون سا لفظ ان کے لیے مداخلت کا دروازہ کھولتا ہے؟ اور مداخلت بھی اس حد تک کہ وہی اس امر کا فیصلہ بھی کریں کہ ایک مسلمان دوسری بیوی کر بھی کرسکتا ہے یا نہیں، حالانکہ کر سکنے کا مجاز اسے اللہ تعالیٰ نے خود بالفاظ صریح کر دیا ہے، اور پھر ’’کرسکنے‘‘ کا فیصلہ کرنے کے بعد وہی یہ بھی طے کریں کہ ’’کن حالات میں اور کن شرائط کے مطابق کرسکتاہے‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز فرد کے اپنے انفرادی فیصلے پر چھوڑی ہے کہ اگر وہ عدل کی طاقت اپنے اندر پاتا ہو تو ایک سے زائد کرے ورنہ ایک ہی پر اکتفا کرے۔