لے دے کر بس یہ ایک بات عوام کو فریب دینے کے لیے بڑی وزنی سمجھ کر بار بار پیش کی جاتی ہے کہ قربانی پر ہر سال لاکھوں روپیہ ’’ضائع‘‘ہوتا ہے، اسے جانوروں کی قربانی کی بجائے رفاہِ عام یا قومی ترقی کے کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔
اوّل یہ کہ جس چیز کا قرآن اور سنت سے حکمِ خدا رسول ہونا ثابت ہو اس کے بارے میں کوئی مسلمان… اگر وہ واقعی مسلمان ہے… یہ خیال نہیں کرسکتا کہ اس پر مال یا وقت یا محنت صرف کرنا اسے ضائع کرنا ہے۔ ایسی بات جو شخص سوچتا ہے وہ ان سب سے زیادہ قیمتی چیز، یعنی اپنا ایمان ضائع کرتا ہے۔
دوسرے یہ کہ اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عام اور قومی ترقی کے کاموں کی بھی ایک قیمت ہے، مگر ان سے بدرجہا زیادہ قیمت اس کی نگاہ میں اس بات کی ہے کہ مسلمان شرک سے ہر طرح محفوظ ہوں، توحید پر ان کا عقیدہ ہر لحاظ سے خیال اور عمل میں مستحکم ہو، اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے کی عادت ان کی زندگی میں پوری طرح جڑ پکڑے رہے، اور وہ اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے مستعد رہیں۔ ان مقاصد کے لیے جن کاموں کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ضروری قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ قربانی بھی ہے۔ اس پر مال کا صرف رفاہِ عام اور قومی ترقی کے ہر کام سے بہت زیادہ قیمتی کام پر صرف ہے۔ اسے ضیاع صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کی قدریں اسلام کی قدروں سے اصلاً مختلف ہو چکی ہیں۔
تیسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جس عبادت کی جو شکل مقرر کر دی ہے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں ہوسکتی، الاّیہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ برحق نے خود ہی دو یا تین متبادل صورتیں تجویز کرکے ہمیں ان میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا ہو۔ ہمارا فرض ہر حکم کو اسی صورت میں بجا لانا ہے جو شارع نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ ہم خود مختار بن کر اس کا بدل آپ ہی آپ تجویز نہیں کرسکتے۔ نماز کی بجائے اگر کوئی شخص اپنی ساری دولت بھی خیرات کر دے تو وہ ایک وقت کی نماز کا بدل بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قربانی کی بجائے آپ خواہ کوئی بڑی سے بڑی نیکی بھی کر ڈالیں، وہ عیدالاضحی کے تین دنوں میں جان بوجھ کر قربانی نہ کرنے کا معاوضہ ہرگز نہ بن سکے گی، بلکہ اگر یہ حرکت اس نظریے کی بنا پر کی جائے کہ اس عبادت کے لیے ہم نے خدا اور رسولؐ کی مقرر کر دہ صورت سے بہتر صورت تجویز کی ہے تو یہ نیکی کیسی، ایک بدترین معصیت ہوگی۔