سب سے پہلے انتخابات کے سوال کو لیجئے۔ اسلامی حکومت چونکہ ایک اصولی حکومت ہے اس لیے وہ غیر مسلموں کے حق میں رائے دہی کے معاملہ میں اُن فریب کاریوں سے کام نہیں لے سکتی جو بے دین قومی جمہوریتیں اقلیتوں کی رائے دہی کے معاملہ میں برتتی ہیں۔ اسلام میں رئیسِ حکومت کا منصب یہ ہے کہ و ہ اصولِ اسلام کے مطابق ریاست کا نظام چلائے‘ اور مجلسِ شوریٰ کا کوئی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اس اصولی نظام کو چلانے میں رئیسِ حکومت کا ہاتھ بٹائے۔ لہٰذا جو لوگ سرے سے اصولِ اسلام کومانتے ہی نہ ہوں وہ خود رئیسِ حکومت یا رکنِ شوریٰ بن سکتے ہیں اور نہ ان مناصب کے انتخابات میں رائے دہندہ کی حیثیت سے ان کا حصہ لینا کسی طرح معقول ہو سکتا ہے، البتہ انہیں رائے دہی اور رکنیت، دونوں چیزوں کے حقوق، بلدیات اور مقامی مجالس میں دیے جا سکتے ہیں، کیونکہ ان مجالس میں نظامِ زندگی زیرِ بحث نہیں ہوتا بلکہ صرف مقامی ضروریات کا انتظام ملحوظِ خاطر ہوتا ہے۔