دیوانی قانون بھی ذمّی اور مسلمان کے لیے یکساں ہے اور دونوں کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علیؓ کے ارشاد اموالھم کا موالنا کے معنی ہی یہی ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت کی جائے جیسی مسلمان کے مال کی ہوتی ہے اور دیوانی حقوق ہمارے اور ان کے برابر ہوں گے۔ اس مساوات کا طبعی لازمہ یہ ہے کہ دیوانی قانون کی رُو سے جتنی پابندیاں مسلمان پر عائد ہوتی ہیں وہی سب ذمّی پر بھی عائد ہوں۔
تجارت کے جو طریقے ہمارے لیے ممنوع ہیں وہی ان کے لیے بھی ہیں۔ سود جس طرح ہمارے لیے حرام ہے اسی طرح ان کے لیے بھی ہے۔ البتہ ذمّیوں کے لیے صرف شراب اور سُور کا استثناء ہے۔ وہ شراب بنانے، پینے اور بیچنے کا حق رکھتے ہیں، اور انہیں سُور پالنے، کھانے اور فروخت کرنے کے بھی حقوق حاصل ہیں۔ (المبسوط ج۱۳ ص۳۷۔ ۳۸)
اگر کوئی مسلمان کسی ذمّی کی شراب یا اس کے سُور کو تلف کر دے، تو اس پر تاوان لازم آئے گا۔ درالمختار میں ہے:۔
ویضمن المسلم قیمۃ خمرہ وخنزیرہ اذا اتلفہٗ (درالمختار ج۳ ص۲۷۳)
’’مسلمان اس کی شراب اور اس کے سُور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے‘‘